شہر وینس


شہر وینس جس کو پلوں کا شہر بھی کہتے ہیں، اٹلی کا وہ طلسماتی شہر ہے جس کا جادو اس لمحے ہی مجھ پر طاری ہو گیا تھا جب میں نے مقید پانیوں کی پر نم فضا میں پہلا سانس بھرا تھا۔ غالباً صبح کے نو بج رہے تھے جب حیرت میں ڈوبی پچھلی رات کی جاگتی آنکھوں نے زرد پھولوں سے ڈھکا لکڑی کا پل پار کرتے ہوئے نیچے بہتے سبزی مائل نیلے پانی پر جھولتے شکارے (گوندولے ) میں کھڑے اطالوی ماجھی کے استقبالیہ کا جواب فقط ابروؤں کی ہلکی سی جنبش سے دیا تھا۔

پیدل چلنا میری قسمت نہیں، عادت ہے۔ وینس کی بھید بھری گلیوں کے پھیرے، سیارہ زمین پر اپنے پیروں کی مہر ثبت کرنے والی میری جہاں گرد مسافتوں میں اب تک کی طویل ترین مسافت رہی۔ نو گھنٹے کی مسلسل واک کے پیچھے ثانوی وجہ شہر میں عوامی بینچوں کی عدم موجودگی تھی۔ پہلے پہل تو خوش رنگ پلوں اور تنگ گلیوں کے بیچ ٹرکوائز پانیوں پر کھڑے اس حیرت کدے کا تحیر ہی اس کی زیارت کرنے والوں کو دم نہیں لینے دیتا۔ ایسا محسوس ہوا گویا قدموں پر کوئی سحر پڑھ کر پھونک دیا گیا ہو کہ وہ بنا کسی توقف کے اپنے آپ ہی انجان سمتوں میں بڑھتے چلے جا رہے ہوں، اجنبی گلیوں میں مڑتے چلے جا رہے ہوں جیسے وہ پہیلی ایسے اس قدیم شہر کو بوجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ وینس کی ہر گلی، کوچہ، نہر، پل، جزیرہ نہ صرف تصویر بلکہ تحریر کا حامل ہے۔ چاروں اور پھیلا ہوا اس قدر حسن میں نے اس سے پہلے صرف آرٹ میوزیم، نوبل انعام یافتہ ناولوں، کلاسیکی موسیقی کی دھنوں اور دل میں اتر جانے والی شاعری کی بیاضوں میں ہی دیکھا تھا۔

شہر میں جس جانب بھی نگاہ دوڑا لو، آنکھ کو ہر طرف سے آرٹ میں گندھا حسن ہی دکھائی دے گا، یہ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا۔

12 صدیوں میں اس شہر پر کیا کچھ نہ گزرا ہو گا۔ خدا جانے کتنے شباب کتنے عذاب کتنے کہے کتنے ان کہے راز، کتنی پوری کتنی ادھوری محبتیں، کتنی ہاری کتنی جیتی ہوئی جنگوں کے قصے وینس کے دریا جیسے دل میں سمائے ہوں گے۔ سینکڑوں جزیروں پر مشتمل اس خطے میں آج تک کوئی سڑک نہیں بنی، یہاں صرف گلیاں، پل، ندیاں اور جزائر ہیں۔ شہر بھر میں گاڑیاں نہیں کشتیاں چلتی ہیں۔ میں نے دیکھا ڈاک سے لے کر خام مال تک ہر شے کشتیوں پر ٹرانسپورٹ کی جاتی ہے۔

رہائشی محلوں کے بیچوں بیچ گوتھک اور رینے ساں طرز تعمیر کے محلات اور قلعے کھڑے ہیں۔ چوباروں پر موسمی پھولوں کی خوشبودار بیلیں چڑھی ہیں جن سے بندھی تاروں پر لٹکے مرد عورت اور بچوں کے کپڑے زندگی کی جیتی جاگتی علامت بن کر جھولتے نظر آئے۔ تنگ گلیوں کی بھوری دیواروں پر ڈاؤنچی نمائش اور ویوالدی کانسرٹ کے پوسٹر چسپاں تھے جن کو گھڑی دو گھڑی آنکھ بھر کر دیکھنے کا رسک میں اس لیے نہیں لے سکی کہ میرے رکنے سے پیچھے چلنے والوں کا راستہ بند ہو جانا تھا۔ کچھ گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ دونوں اطراف سے ایک ہی وقت میں آمد و رفت ممکن نہیں۔ بھول بھلیوں والے اس شہر میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب کوئی گلی اچانک سے کسی پل پر ختم ہو جائے اور کب پل سیڑھیوں میں ضم ہو جائے۔

کبھی زندہ دلی کی تصویر کشی کرنی ہو تو شہر وینس کے وسط میں نسب اس اونچے سفید پل کو دیکھ لیں جو صرف خوبصورتی کے نظارے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس پر کھڑے ہو کر چاروں اور بہتی نہریں اور ان نہروں میں پھولوں سے لدے، پالکی نما مخملیں صوفوں سے آراستہ ہچکولے کھاتے گندولے اور ان میں سیر کرتے خوش باش چہرے نظر آتے ہیں۔

اسی پل پر ایک سیاح عورت نے مجھ سے اپنی تصویر اتارنے کی گزارش کی جو میں نے ”My pleasure“ کے ساتھ قبول کی۔ تصویر اتارنے کے بعد حسین عورت نے بیلے (Ballet) رقص کی اختتامی موو (move) کے سے انداز میں ایک جانب سے اپنے فراک کا گھیرا لہراتے ہوئے گردن جھکائی اور میرا شکریہ ادا کیا۔

اس کا ”رقصیلا“ شکریہ ہمیشہ کے لیے میری یاد کے پردے پر نقش ہو گیا، اب میں جب چاہوں اپنے تخیل کے تھیٹر پر اس سے بیلا کروا سکتی ہوں۔

مسکراہٹیں سمیٹتی ہوئی میں سفید پل کے زینے اتر ہی رہی تھی کہ ایک ادھیڑ عمر مرد نے نارنجی گلاب کی دو ڈالیاں میری طرف بڑھائیں۔

میں نے جرمن، اٹیلئین اور انگریزی زبانوں کے مکسڈ شکریے کے ساتھ گلاب لینے سے انکار کیا۔ اس نے بھی تنیوں زبانوں کا سہارا لیتے ہوئے مجھے سمجھایا کہ وہ باقی سٹریٹ ہاکرز کی طرح کوئی گل فروش نہیں ہے بلکہ یہ اس کا میری خوبصورتی کو سراہنے کا ایک انداز ہے۔

‏ ”It ’s a gesture to praise your beauty“
‏ ”bella donna“

ارے! ارے! مجھے ذرا وقت لگا اس کی اس ادا کو رسپانڈ کرنے میں کیونکہ پچھلے تین چار سالوں میں جرمنوں کی جذبات سے عاری عادات اور بے وجہ کی ”کلچرل“ بے رخی سے میرے خانہ آرزو میں سٹریٹ پریز (Street Praise) کا چراغ تقریباً گل ہو چکا ہے۔ جرمنی بہرحال پھر بھی میری پہلی یورپئین محبت ہے سو اسے سب معاف!

عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو
عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے
فراق گورکھپوریؔ

سیڑھیاں اتر کر میں پھر سے گلیوں میں ہو لی۔ جہاں گھروں، محلوں کے بیچوں بیچ ہی مختلف ریستوران اور آرائشی اشیا کی دکانیں سجی تھیں۔ کانچ کی کھڑکیوں سے مزین تقریباً ہر دکان ہی دستکاری کے شاہکار نمونوں سے پر تھی۔ کہیں مصوری کا پیشہ ورانہ کام نظر آیا تو کہیں ہاتھ سے موسیقی کے آلات بنانے کی ورک شاپ۔ سب سے پاپولر کام پیپئر ماشی کا تھا۔ ہر دوسرے نکڑ پر کانچ کی ایک دکان پیپئر ماشی کے کام سے آراستہ تھی جس میں اطالوی روایتی اور دیو مالائی کرداروں کے پتلے، اور جانوروں، پرندوں سمیت کئی دوسری مخلوقات کے بت اور بہروپ پلاسٹر سے تیار کر کے ان پہ پیپئیر ماشی سے نقش و نگاری کی گئی تھی۔

ایک بت تراش، کٹھ پتلی فروش آرٹسٹ کو جب میں نے بتایا کہ پیپئیر ماشی کا کام ہمارے کشمیر میں بھی بہت پاپولر ہے تو اس نے ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ مجھے کہا کہ میں پہلی مرتبہ کسی کشمیرن (کشمیر کی رہنے والی) سے مل رہی ہوں۔ پھر اس نے کسٹمر سروسز کا مختصر سا دورانیہ کشمیر کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش کو سونپ دیا۔

میں بتاتی گئی، وہ سنتی گئی اور یوں ہمارے یہ ملاقات ایک پر ملال تحیر سے بھر گئی۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے جو واجب نہیں تھے
افتخار عارف
میرے لیے سب سے خاص اور خوبصورت دکانیں ہاتھ سے بنی سٹیشنری کی اشیا کی دکانیں تھیں۔

یہ میرا پہلا تجربہ تھا کہ میری پسندیدہ چیزوں سے بھری دکانیں مجھے چپے چپے پر ملیں گی۔ یہ ان نایاب اشیا کی دکانیں تھیں جن کی تلاش میں میں کئی کئی گھنٹے ڈیجیٹل بازار میں صرف کرتی ہوں۔

کلاسیکی دور کے خط و کتابت کا ساماں، قدیم طرز کے ٹائپ رائٹرز، خوبصورت پرندوں کے پنکھوں سے بنے قلم، لکڑی سے تراشے ہوئے قلم، ہاتھ سے بنائی آرگینک روشنائیاں، ڈائریاں، بازنطینی پچی کاری سے بنی کتابوں کے کورز اور ایسی ہی کئی حیران کن اشیا۔

اس حقیقت سے میں ایک لمحہ بھر کو بھی غافل نہیں ہوئی کہ یہ سب محض ٹورسٹ ایٹریکشن کا سمان بھی ہو سکتا ہے جو ایک الگ بحث ہے آرٹ کے کمرشل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق۔

مگر وینس میں ہر دوسرے دکاندار کے پاس سنانے کو ایک قصہ تھا کہ یہ ان کے مقامی خاندان کا آبائی پیشہ ہے جو صدیوں پہ مشتمل اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ ہر دوسری دکان کسی نہ کسی legacy کی متحمل تھی۔

ان دو طرز کی اشیا کے علاوہ چھوٹے چھوٹے بازاروں کی صورت ہاتھ سے بنائی گئی جیولری، سلائی کڑھائی، بنائی، ہینڈ میڈ بیگز اور لوکل پزا سے بھری کئی دکانیں موجود تھیں۔

رنگوں سے پر، نیلے پانیوں پر پھیلا یہ شہر اپنے درشکوں کے لیے بارہ سو برس کی کتھا لیے کھڑا ہے۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
میرؔ
دنیا کی نایاب ترین فلوٹینگ لائبریری بھی اسی شہر میں ہے۔ اس پر الگ سے ایک مکمل تحریر بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments