بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو



”میرا جنازہ ہواوٓں کے دوش پر نہ لے جایا جائے۔ میری ساری زندگی پا برہنہ، سر برہنہ لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے گزری ہے۔ میری میت بھی انہی راستوں سے گزرنی چاہیے جن پر میرے لوگ چلتے ہیں۔ وہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، ان میں گڑھے اور کٹاوٓ بھی ہیں مگر وہ میری دھرتی پر غاصب حکمرانوں کی بے انصافیوں کے لگائے ہوئے زخم ہیں۔ جب ان پر بیمار جھٹکے سہتے ہوئے گزر سکتے ہیں، درد سے نیم جان عورتیں ان سڑکوں پر سفر کر سکتی ہیں تو میرے بے جان بدن کا اس سفر کی مشقت سے کیا بگڑے گا؟ میرا آخری سفر اپنے ناداروں کے ہجوم، ان کے پسینے کی خوشبو، ان کی محبتوں اور بے قراریوں سے محروم کیوں رہے؟“ ۔

یہ تاریخی الفاظ عہد ساز شخصیت بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو صاحب کی وصیت کے ہیں جن کی 32 ویں برسی 11 اگست کو بلوچستان کے مختلف شہروں میں منائی گئی۔ بزنجو صاحب کی سیاسی فہم و فراست اور بین الاقوامیت سیاسی سوچ و فکر نے ایک جہاں کو متاثر رکھا ہے۔ بزنجو صاحب جیسے عظیم سیاسی استاد و رہنما کے سیاسی کردار، افکار اور نظریات سے نزدیکی موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فی الحال پاکستان ایک سیاسی بحران کا شکار ہے۔

نظریاتی اور شعوری سیاست آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ نئی نسل کے سیاسی کارکنوں کو چھوڑ دیں سینیئر سیاستدان بھی نظریہ ضرورت کی سیاست پر ایمان لا چکے ہیں ایسی صورتحال میں فلسفہ بزنجو کی تبلیغ سرعام کرنی چاہیے تاکہ نئی نسل اور محکوم و پسے طبقوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے یہاں سے کیسے مدبر سیاسی استاد گزرے ہیں۔ جن کی فکر و فلسفہ پسے ہوئے طبقوں اور محکوم قوموں کے لئے مشعل راہ کی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ بزنجو صاحب مقتدر قوتوں کی متعارف کردہ حب الوطنی کے ڈھانچے میں فٹ نہیں ہوتا تھا لیکن ان کی پر امن سیاسی جدوجہد، سیاسی گفت و شنید اور سیاسی رواداری کے درس پر عمل کر کے یہاں کے محکوم طبقوں کو با اختیار بنا سکتے ہیں۔

میں بابا بزنجو صاحب کی سیاسی تاریخ کو بیان کرنے کی بجائے ان کی سیاسی فکر فلسفہ اور نظریہ کو مختصراً بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

جمہوریت کی بالادستی، محکوم و مظلوم طبقوں کی خود اختیاری، آمروں کے خلاف سیاسی جدوجہد، مارشل لاء کی مخالفت، سیاسی مکالمہ اور گفت و شنید کی پذیرائی بزنجو صاحب کے سیاسی زندگی کا اصل محور رہا ہے۔ وہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور قبائلی سماج میں عوامی سیاست کرتا تھا۔ سیاست بھی ایسی تھی جو سیاست برائے سیاست نہیں تھی اور نہ ہی طاقت اور اقتدار کے حصول کی جدوجہد تھی بلکہ وہ سیاست کو ایک مکمل قومی فریضہ سمجھ کر کرتے تھے۔ جو محکوم طبقات کو با اختیار اور بالادست بنانے کی جدوجہد تھی۔ ان کی سیاست سامراجانہ اور استحصالی نظام کے خلاف ایک محکم آواز تھی۔

پاکستان میں آج جو سیاسی انتشار ہے۔ صوبوں اور وفاق کے مابین جو خلا ہے۔ اگر بزنجو صاحب کے افکار و نظریات کی پیروی کرتے تو آج نہ سیاسی انتشار ہوتا، نہ معاشی بے انصافیوں کا رونا روتے اور نہ ہی غیر جمہوری قوتیں بے لگام ہوتی۔ بزنجو صاحب کی فکر یہ ہے جمہوریت اور سیاسی مکالمہ سے ہی یہاں کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل و معاملات کے حل کے لئے طاقت اور پرتشدد طریقہ کار استعمال کرنے کی بجائے پرامن طریقہ کار کی بات کرتے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں کے مقتدر قوتوں نے ہر مسئلے کو بزور طاقت و شمشیر حل کرنے کی کوشش کی ہے جو حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے ہیں۔

بزنجو صاحب کے جدوجہد کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا سماج کا قیام ہو جہاں انسانی حقوق محفوظ ہوں، عام آدمی کو بہترین زندگی میسر ہو، انہیں سیاسی سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو، انصاف اور مساوات ہو، عام آدمی کا بول بالا ہو، ہر قسم کے استحصال، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو۔ جہاں مذہبی انتہا پسندی، تشدد، عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہ ہو اور تمام شہریوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب بلکہ برابری اور منصفانہ بنیادوں پر سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل ہوں۔

بزنجو صاحب علاقائی سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ وہ ایک قومی اور بین الاقوامی سیاسی رہنما تھے۔ وہ ایک ناوابستہ خارجہ پالیسی کا قیام چاہتا تھا جو کسی کے دباو اور خواہشات سے ہٹ کر اپنی راہیں متعین کرسکے اور دنیا کے تمام انسانی حقوق کے علمبردار اور امن پسند ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرسکے۔ بزنجو صاحب نے اس خطے کے روایتی سیاست میں نئے رجحانات پیدا کیے ۔ اس نے سیاست میں شائستگی، اصول، اور رواداری متعارف کروائی۔ اپنے سیاسی اصولوں پر بہت پختہ تھا۔ قلی کیمپ، شاہی قلعہ اور دیگر عقوبت خانوں میں ناقابل تصور مصائب کا سامنا کیا تھا مگر محکوم طبقوں کی حقوق اور جمہوریت کے بالادستی کی جنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور اپنے سیاسی اصولوں اور نظریہ سے سمجھوتا نہیں کیا۔

انسانیت، وطن اور جمہوریت کے لئے بزنجو صاحب نے نصف صدی سیاست کی۔ سیاسی سفر میں بزنجو صاحب نے کل ملا کر پچیس سال عقوبت خانوں میں گزارے اور نو مہینے کے لئے بلوچستان کے گورنر رہے۔ بزنجو صاحب کی سیاست نے محکوم طبقات کو سائنسی افکار کو اپنا ہتھیار بنانے کے لئے قائل کیا تھا۔

بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی افکار، نظریات و فلسفہ کی روشنی سے ہی پاکستان موجودہ سیاسی بحران سے نکل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments