افغان تنازعہ پر عمران خان کا اعتراف حقیقت


پاکستانی وزیر اعظم نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان اب امریکہ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے بلکہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستان ، افغانستان کا مسئلہ حل کرنے ہی کی حد تک ضروری ہے۔ وہ اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

یہ وہی بات ہے جو ان سطور میں بھی تواتر سے کہنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ملک کے تمام ہوشمند تجزیہ نگار حکومت اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو باور کرواتے رہے ہیں کہ پاکستان کو امریکہ اور افغانستان کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ پاکستان نے اگر طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا تو اس کی حیثیت محض ’حادثاتی‘ تو ہوسکتی ہے کہ ایک ایسے ماحول اور وقت میں پاکستان نے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جب امریکہ افغانستان سے فوجیں نکالنا چاہتا تھا اور طالبان قیادت یہ سمجھنے لگی تھی کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے امریکہ سے کسی معاہدے پر پہنچنا ضروری ہوگا۔ یہ بات جب پاکستانی ذرائع سے طالبان تک پہنچائی گئی تو انہوں نے اسے تسلیم کرلیا اور فروری 2020 میں امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوگیا۔ اسی معاہدے کے تحت امریکی افواج اس ماہ کے آخر تک افغانستان چھوڑ دیں گی اور افغانستان طالبان جنگجوؤں اور دیگر عسکری گروہوں کے رحم و کرم پر ہوگا۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا نوشتہ دیوار تھا۔ امریکہ اور اس کے نیٹو حلیف ہمیشہ کے لئے افغانستان میں افواج رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ بیس برس کا عرصہ گزرنے کے بعد اب اتحادی فوجوں کی لشکر کشی اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اگر طالبان کسی معاہدے پر متفق نہ ہوتے تو بھی امریکہ اور نیٹو افواج کو جلد یا بدیر ملک چھوڑنا ہی تھا۔ اس بات کا فیصلہ بہر حال تاریخ ہی کرے گی کہ اس جنگ میں کون جیتا یا کون ہارا مگر ایک بات طے ہے کہ افغان عوام اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان میں رہے ہیں۔ وہ مسلسل جنگ کی کیفیت سے دوچار رہے اور اب بھی یہ حالات ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان بھی افغانستان میں طویل خانہ جنگی اور اقتدار کی کشمکش سے پیدا ہونے والے حالات کا سامنا کرنے کی تیاری کررہا ہے۔

اس دوران البتہ یہ بات حیرت کا موجب رہی ہے کہ پاکستان نے امریکہ وطالبان معاہدہ کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نے کوئی بہت بڑا سفارتی معرکہ سر کرلیا ہے اور اب پوری دنیا پاکستان کا ذکر عزت سے کرتی ہے اور اس کی بات کو غور سے سنا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے مصالحت کروانے اور افغانستان کے سیاسی حل کے معاملہ کو عمران خان کا ’ویژن‘ بنا کر فروخت کرنے کی تو پوری کوشش کی لیکن موجودہ صورت حال کا شکار ہونے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس خطے میں امریکہ کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ امریکہ اب پاکستان میں نہ تو مزید ’سرمایہ کاری‘ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے ٹھوس سہولت فراہم کئے بغیر کوئی سفارتی ریلیف فراہم کیاجائے گا۔ گزشتہ روز مغربی میڈیا کے نمائیندوں سے باتیں کرتے ہوئے پہلی بار ملک کے وزیر اعظم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ خاص طور سے گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران اس کی خارجہ پالیسی محض ایک نعرے اور ایک قیاس کی بنیاد پر استوار کی گئی تھی۔ امیدوں کا یہ بلبلہ ٹوٹنے پر ملک کو جو خفت اٹھانا پڑی ہے، اس کا اظہار کبھی صدر جو بائیڈن کی فون کال نہ آنے پر ناراضی ظاہر کرکے کیا جاتا ہے یا پھر اب عمران خان نے اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے صاف دلی سے کہا ہے کہ ’وہ تو بائیڈن کی فون کال کا انتظار نہیں کررہے‘۔

مغربی میڈیا سے باتیں درحقیقت عمران خان کا اعتراف شکست ہے۔ یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ صرف سابقہ حکومتوں کے غلط فیصلے مشکلات کا سبب نہیں بنے بلکہ موجودہ حکومت نے جس لاپرواہی، غیر پیشہ وارانہ رویے اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک بند گلی میں داخل ہوچکی ہے جس میں وہ خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور چاروں طرف سے بلائیں حملہ آور ہیں۔

عمران خان اگر واقعی صورت حال کا ادراک کررہے ہیں تو بائیڈن کے فون کی اہمیت و معنویت کو درست تناظر میں بیان کرنے کے بعد وزیر اعظم کو اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے ضرور یہ بازپرس کرنی چاہئے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کن وجوہ کی بنیاد پر محض افغانستان کے مسئلہ سے منسلک کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب امریکہ ہر قیمت پر وہی کرے گا جو پاکستانی حکومت چاہے گی۔ کبھی اس حوالے سے کشمیر میں ’ثالثی‘ کا خواب دکھایا گیا اور کبھی یہ بتایا گیا کہ پاکستان کی درست اور طاقت ور خارجہ پالسی کی وجہ سے ہی اب دنیا بھر میں کشمیر کے سوال پر آگہی پیدا ہوچکی ہے۔ یہ سارے جھوٹے نعرے تھے لیکن انہیں اب بھی کسی حد تک استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ جس طرح وزیر اعظم نے تسلیم کیا ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستان کی اہمیت محض یہ ہے کہ وہ افغانستان کا مسئلہ اس کی خوشنودی اور ضرورت کے مطابق حل کرواسکے۔ اس معاملہ کے علاوہ امریکی خارجہ، سیکورٹی اور اسٹریٹیجک حکمت عملی میں اب پاکستان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

پاکستان نے سی پیک منصوبہ کا حصہ بن کر چینی سرمایہ داری اور اثر و رسوخ کو خوش آمدید کہا ہے۔ اب معاملات اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ اس منصوبہ کے حسن و خوبی یا کمزوری کے بارے میں گفتگو کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے لیکن ریکارڈ کی درستی کے لئے یہ کہنا اہم ہوگا کہ کسی پاکستانی حکومت نے چین کے روڈ اینڈ بیلٹ نامی عالمگیر اقتصادی اسٹریٹیجک منصوبہ کا حصہ بننے سے پہلے نہ تو عوامی سطح پر اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کھلی بحث کروانے کی ضرورت محسوس کی۔ اس حوالے سے سابقہ حکومتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں شامل ہیں، اندرون خانہ فیصلوں اور انہیں نافذ کرنے ہی کو بہترین قومی مفاد قرار دیتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے بارے میں نہ تو قومی سطح پر اعتماد سازی کی فضا پیدا کی جاسکی اور نہ ہی عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو واضح کیا گیا ۔ محض یہ کہنے سے کہ پاکستان چین کے علاوہ امریکہ کے ساتھ بھی برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے، کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی ملک کی عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنی ضرورتوں اور مفاد کے مطابق ہی فیصلے کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا تعین کیا جاتا ہے۔

امریکہ روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ کو دنیا پر چین کے اسٹریٹیجک کنٹرول کا ذریعہ سمجھتاہے ، اسی لئے اس کی پرزور مخالفت کی جارہی ہے اور اس کے معاشی، سیاسی اور اسٹریٹیجک اثرات کو محدود کرنے کے لئے متبادل منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر روڈ اینڈ بیلٹ کے متوازی منصوبہ کے لئے وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر بحر ہند میں چینی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

افغانستان میں سوویت افواج کی آمد یا پھر نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ سے پہلے اہم ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے پاکستان کو جو اہمیت حاصل تھی، اب وہ اسے حاصل نہیں ہے۔ لیکن یہ حالات اچانک رونما نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں کئی برس پہلے سے ہی اندازہ قائم کیا جاسکتا تھا اور کسی نہ کسی سطح پر ماہرین اور خارجہ و سیکورٹی امور پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ نگار اس جانب اشارے بھی کر رہے تھے۔ تاہم پاکستان نے جس طرح سوویت افواج کے خلاف ’جہاد‘ کے نام پر امریکی ڈالر اور سعودی ریال وصول کرنے کے لالچ میں اس پالیسی کے منفی پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکہ کا سب سے اہم حلیف بنتے ہوئے بھی اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے صرف یہ دیکھا کہ اس طرح پاکستان کو کتنا مالی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان دونوں مواقع پر یہ جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وقت تو گزر جائے گا ۔ امریکہ نے ہر دو مواقع پر اپنی فوری ضرورت کے تحت پاکستان کو ساتھ ملانے کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ بھی جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچے گا۔ پھر پاکستان اپنی ضروریات کیسے پوری کرے گا؟

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ 2001 میں نائن الیون کے بعد شروع کی گئی جنگ میں حصہ دار بنتے وقت پاکستان کے پاس ’افغان جہاد‘ میں شریک ہونے اور اس کے منفی ثمرات کا تجربہ موجود تھا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اب سانپ گزر گیا لکیر پیٹنے کے مصداق عمران خان یہ اعلان کررہے ہیں کہ اس وقت غلط پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ لیکن وہ یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ کس نے یہ تباہ کن فیصلے کئے تھے ۔ اور نہ ہی ان عناصر کا احتساب کرنے کی بات زبان پر لائی جاتی ہےجن کے فیصلوں کی بھاری قیمت ملک و قوم کو ادا کرنی پڑرہی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ افغانستان پر مسلط کی گئی دونوں جنگوں میں پاکستانی فوج نے اہم کردار ادا کیا اور دونوں بار فوج ہی کو سب سے زیادہ امریکی وسائل فراہم کئے گئے۔ اب پاکستانی حکومت 70 ہزار شہیدوں اور 120 ارب ڈالر کے نقصان کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ان دونوں جنگوں کے نام پر وصول کئے گئے تیس چالیس ارب ڈالر کہاں گئے اور اس سے کون سا قومی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔

عمران خان کا اعتراف حقیقت ایک درست اقدام ہے لیکن جب تک ملک کی خارجہ، سیکورٹی اور اسٹریٹیجک پالیسی کو معروضی حقیقتوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جائے گا، پاکستان کے لئے حالات تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس افغان بحران کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کا ’مقابلہ‘ کرنے کے لئے ملک میں پابندیوں اور آمریت سے ملتی جلتی حکومت مسلط کرنے کی منصوبہ بندی ضرور کی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments