افغانستان: طالبان کے خوف سے گھربار چھوڑنے والوں کو کابل میں پناہ کی تلاش

یوگیتا لمائے اور اشیتا نگیش - بی بی سی نیوز


Girl seen walking away from the camera

فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچے نقل مکانی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں

افغانستان میں تشدد میں حالیہ اضافے اور طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان میں متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افراد نے وہاں سے جان بچا کر دارالحکومت کابل کا رُخ کیا ہے۔

دارالحکومت میں آنے والے ان پناہ گزینوں میں سے بیشتر رات خالی عمارتوں میں یا فٹ پاتھوں پر گزارتے ہیں۔

انھیں اپنی بنیادی ضروریات جیسا کہ ادویات، خوراک اور رہائش کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہاں آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور انھوں نے کابل میں مشکلات کو اپنے آبائی علاقوں میں ممکنہ موت پر ترجیح دی ہے۔

ایسے ہی ہزاروں پناہ گزین شہر کے مضافات میں واقع عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔

قندوز کے رہائشی اسد اللہ ایک پھیری والے تھے جو رواں ہفتے اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ کابل پہنچے جب طالبان نے ان کا گھر نذرِ آتش کر دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں سڑکوں پر گھوم کر کھانے پینے کی چیزیں اور مصالحے بیچتا تھا۔ جب طالبان نے حملہ کیا تو ہم کابل آ گئے۔ اب ہمارے پاس نہ تو روٹی خریدنے کو پیسے ہیں اور نہ دوائی۔‘

اسد اللہ

قندوز کے رہائشی اسد اللہ ایک پھیری والے تھے جنھیں نقل مکانی کرنا پڑی
اسد اللہ کی بیٹیاں

اسد اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ کابل کی سڑکوں پر رہ رہے ہیں

اسد اللہ اور ان کے خاندان نے گذشتہ رات سڑک پر گزاری ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہمارا گھر اور اس میں موجود ہر چیز جل گئی۔ اب ہم کابل میں خدا کی مدد کے منتظر بیٹھے ہیں۔ راکٹ اور مارٹر ہمارے گھر پر لگے تو اس میں آگ لگ گئی۔ ایک ہفتے تک شدید لڑائی ہوئی۔ تمام دکانیں، بیکریاں اور بازار بند تھے، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘

ایک خاتون نے جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پل خمری سے کابل آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان افغانستان کے کن، کن حصوں پر قابض ہو چکے ہیں اور کہاں لڑائی جاری ہے؟

افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟

صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

وہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر لڑائی میں زخمی ہوا تھا۔ ’ہماری ایک اچھی زندگی تھی۔ ہمارا گھر بم دھماکے سے تباہ ہو گیا۔ ہم صرف دو جوڑی کپڑوں کے ساتھ گھر سے نکلے۔ وہاں کچھ نہیں بچا۔‘

خاتون

یہ خاتون اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پل خمری سے کابل آئی ہیں

رواں سال کے اوائل میں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی فلاحی اداروں نے افغانستان میں بےگھر افراد کی تعداد میں اضافے کا انتباہ دیا ہے۔

سنہ 2012 میں افغانستان جانے والے بیشتر غیر ملکی فوجی اب ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ افغانستان میں حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان لڑائی میں شدت آ گئی ہے۔

طالبان اب تک ملک کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے کم از کم دس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور مزید شہروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسی خبریں لوگوں کو کابل کی جانب نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں۔

تاہم واشنگٹن پوسٹ نے امریکی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کابل بھی آنے والے تین ماہ میں طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے

اقوام متحدہ نے جولائی میں کہا تھا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے دو لاکھ 70 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ تعداد آنے والے دنوں میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اس انخلا کے باوجود اقوامِ متحدہ کے مطابق لڑائی میں ایک ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

Crowds of displaced people in Kabul

ہزاروں بے گھر لوگ کابل کے نواح میں آسمان کے نیچے رات گزارتے ہیں

خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کی بڑی تعداد کی وجہ سے خواتین اور بچوں پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ڈینش ریفیوجی کونسل کے مقامی سربراہ جیرڈ روویل نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمارے پاس صحت کے تحفظ کی ضروریات، جنسی تشدد، جنسی ہراسانی اور انسانی سمگلنگ کی اطلاعات ہیں۔ خاندان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے رقم کے عوض لڑکیوں اور بچیوں کی قبل از وقت شادی ایک اور مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ طویل عرصے سے ہے لیکن اب اس میں شدت آ رہی ہے۔‘

جیرڈ روویل نے مزید کہا کہ ’کابل میں بےگھر افراد کو خوراک، صفائی، پناہ گاہوں اور دیگر ضروریات کے لیے رقم کی اشد ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو نقد رقم کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق اپنی ضرورت کی اشیا تلاش کر سکیں۔

وہ کہتے ہیں ’انھیں اس وقت نقد رقم کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ اچانک کابل جیسے بڑے شہر میں آ گئے ہیں جہاں کھانے کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور موجودہ غیر مستحکم صورتحال کی وجہ سے بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‘

اسد اللہ کو امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے خاندان کے ساتھ قندوز میں اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم واپس قندوز جانا چاہتے ہیں اور وہاں اپنی معمول کی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن افغانستان میں امن ہو گا اور ہمارا ملک آزاد ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp