ہم سب پر میرے سو بلاگ


ہم ایک جیل سماج کے قیدی ہیں جہاں پر بچپن سے ہی دماغی صلاحیتوں کو سکیڑنے کا آغاز کر دیا جاتا ہے، بچپن سے کی جانے والی یہ روایتی اسپون فیڈنگ زندگی کے ایک طویل عرصہ تک جان نہیں چھوڑتی اور زندگی کے انتہائی قیمتی ماہ و سال ”شعوری ٹچ سٹون“ کو چھونے کی جدوجہد کرنے میں ہی بیت جاتے ہیں اور جب شعوری دیوی مہربان ہوتی ہے تو اس وقت زندگی کا انتہائی کلائمیکس رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ بنیادی وجہ یا رکاوٹ معاشرے کے وہ کنٹرولنگ فیکٹر ہیں جو اپنی روایتی ٹھاٹ باٹ کی وجہ سے ”حتمی اتھارٹی پلرز“ کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ٹچ ایبل ہیں جو ہر ابھرتی طاقت کے ساتھ ہاتھ ملا کر ”اسٹیٹس کو“ کو قائم رکھنے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور ہمارے شعوری قد کو بڑھنے ہی نہیں دیتے۔

اسی لئے ہمارے ہاں تخلیقی اذہان کا فقدان پایا جاتا ہے کیونکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ایسی نسل پروان چڑھائی جاتی ہے جو سوچنے سمجھنے سے بالکل عاری ہو اور روایتی اتھارٹی کے اصولوں پر قائم بند رہے تا کہ گلشن کا کاروبار ڈھنگ سے چلتا رہے۔ ہمارے سماج میں ڈر اور خوف کو خوب پروموٹ کیا گیا ہے مذہب، سیاست اور اس کے علاوہ مختلف موضوعات کو اتنا نازک بنا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے قلم یا زبان کے ذریعے سے ان کے تقدس پر کوئی سوال اٹھائے تو اس پر بے دین ہونے کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں، ہمیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنے بڑوں کا کہا حرف آخر سمجھ کر مان لو اور کوئی سوال مت اٹھاؤ، شرعی یا دنیاوی لحاظ سے ممنوعہ موضوعات پر ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے لاحول پڑھ کر انڈر کارپٹ کرنے کی کوشش کرو تاکہ شیطان تم پر غالب نہ آ سکے۔

ایسے بہت سے تخلیقی اذہان موجود ہیں جنہیں اپنا لکھا ہوا سماجی و مذہبی مبلغین کے خوف سے خود ہی بار بار فلٹر کرنا پڑتا ہے تاکہ سماجی پنڈتوں کی نظروں سے بچ بچا کر مضمون کسی بھی جگہ شائع ہو جائے تاکہ ضرورت مندوں تک شعوری ترسیل کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ سچ بات کو بھی سنسر یا کوڈ ورڈ میں کرنا پڑتا ہے، خوف کی اس فضاء نے ذہنی جمود کو جنم دیا ہے، اسی وجہ سے دنیا کی تخلیقی مارکیٹ میں ہم بالکل اکیلے ہیں اور بطور صارف زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں۔

البتہ ہمارے پاس ایک چیز بہت وافر ہے اور وہ ہے ”سستی جذباتیت“ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کہیں کچھ ہو جائے تو انفراسٹرکچر ہم اپنے ملک کا ہی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دولے شاہ کے چوہے بنانے والی فیکٹریاں بہت ہیں، تخلیقی اذہان کو نکھارنے اور سنوارنے کا ہمارے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے، اتفاقی رگڑیں یا ٹھوکریں کھانے کے بعد کچھ تخلیقی اذہان ابھر کر سامنے آتے ہیں مگر ان کی کوئی انگلی پکڑنے والا نہیں ہوتا اور حالات کے رحم و کرم پر اکتفا کر کے کچھ اذہان نکھر جاتے ہیں اور کچھ معاشرے کی بے رحم چکی میں پس کر بکھر جاتے ہیں، ہمارے معاشرے میں اس تخلیقی المیہ کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، المیہ کی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج میں تخلیقی نوک پلک سنوارنے والے بہت کم ہیں اور جو ہیں ان کے پاس کسی کو سنوارنے کا وقت ہی نہیں ہے اور ایسے لوگوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان کے اندر برداشت کی بھی بہت کمی پائی جاتی ہے، کوئی سیکھنے والا اگر غلطی سے ایسے لوگوں کے پاس اصلاح کے لیے چلا جائے تو وہ حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کی غلطیوں کی نشاندہی اور تنقید کر کے اس کا حوصلہ پست کر دیتے ہیں، ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جو بلاوجہ کی تذلیل کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

میری کہانی بھی اس سے الگ نہیں ہے کچھ مخلص اساتذہ کی بدولت مطالعہ گھٹی میں شامل تھا مگر لکھی ایک بھی لائن نہیں جاتی تھی جو لکھتا تھا اس کو خود ہی مسترد کر کے بے ہمت بن کر بیٹھ جاتا تھا، ”ہم سب“ کا کافی عرصہ سے قاری تھا دل میں تمنا تھی کہ کبھی میں بھی ہم سب پر لکھ پاؤں گا مگر جب میں انتہائی زیرک قسم کے لکھاریوں کو پڑھتا تو میرا لکھنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا اور پر سکون ہو کر دنیاوی چکروں میں پڑا رہتا۔

میں ”ہم سب“ کا بہت احسان مند ہوں جنہوں نے مجھے ایک ایسے بندے سے متعارف کروایا جو کہ اب تک کم و بیش چار سو کالم ”ہم سب“ پر لکھ چکے ہیں۔ یہ بندہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے اور ایک ماہر نفسیات دان ہے۔ اس ہستی کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے ”ہم سب“ پر لگاتار ان کے کالم پڑھنے کے بعد میرا تجسس دیدار بڑھا اور آخر کار فروری 2019 میں ڈاکٹر خالد سہیل سے ملاقات لاہور میں ان کی پیاری اور مہمان نواز بہن عنبرین کوثر کے گھر پر ہوئی، ڈاکٹر صاحب سے دل کھول کر باتیں کی اور اپنا ادبی شغل بتایا۔

اس ملاقات میں ڈاکٹر سہیل نے مجھے ”ہم سب“ پر لکھنے کا مشورہ دیا۔ میں نے سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں ابھی اس قابل نہیں ہوں ڈاکٹر سہیل نے انتہائی شفقت سے کہا کہ آپ مجھے خط لکھ دیا کرو میں آپ کی نوک پلک سنوار دوں گا، ادبی خطوط کے تبادلہ کا یہ سلسلہ ”مکالمہ“ ویب سائٹ پر چھپتا رہا، کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کے بعد میں نے اپنا پہلا بلاگ تقریباً ستمبر 2019 میں ”ہم سب“ کو بھیج دیا اور اگلے دن بلاگ پورشن میں شائع بھی ہو گیا اور آج کے دن تک میں سو بلاگ لکھ چکا ہوں۔

میری نوک پلک سنوارنے میں بنیادی کردار ڈاکٹر خالد سہیل کا ہے اور اس کے بعد ”ہم سب“ کا ہے جس کی ادبی فیملی کا میں حصہ ہوں، اسی کی بدولت کچھ لکھنے کے قابل ہوں، اسی ویب سائٹ کی بدولت میں وہ سب کچھ کہنے کے قابل ہوا جو میری ذات کے اندر پڑا پڑا زنگ آلود ہونے لگا تھا، میرے جذبات اور خیالات کو زبان عطاء کرنے میں جہاں اس سائٹ کا بہت بڑا کردار ہے وہیں میں ایڈیٹر عدنان کاکڑ کو کیسے فراموش کر سکتا ہوں جن کی مشفقانہ ڈانٹ کی بدولت میرے لفظوں میں جان پیدا ہوئی، مدیر اعلیٰ مرشدی وجاہت مسعود کو تو میں ان کی اعلیٰ قسم کی تحریروں کی بدولت ہی جانتا ہوں ملاقات کبھی نہیں ہوئی، زندگی نے مہلت دی تو یہ دیدار شوق کبھی نہ کبھی دونوں کے پاس ضرور لے جائے گا۔

اس کے علاوہ میں قارئین کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے پڑھا اور مثبت تنقید بھی کی۔ میں ”ہم سب“ فیملی کا بھی مشکور ہوں جن میں جمشید اقبال، سلیم ملک، حاشر ابن ارشاد، فرنود عالم اور لبنیٰ مرزا شامل ہیں ان کو پڑھ کر مجھے حوصلہ ملا اور ادبی رہنمائی ملی، اسی پلیٹ فارم کی بدولت میں ایک کتاب ”دانائی کا سفر“ مرتب کرنے میں کامیاب ہوا جسے گزشتہ دنوں ”سانجھ پبلی کیشن“ والوں نے شائع کیا ہے۔ میں نئے لکھنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور جو کچھ بھی ان کے دماغ میں پک رہا ہے اسے سپرد قلم کر کے ”ہم سب“ کو بھیجیں تا کہ شعور کا تسلسل رکنے نہ پائے، اپنے خیالات و احساسات کو معلق رکھنے کی بجائے کاغذ پر اتار دیجئے کیونکہ ایسا کرنے سے سے ہزاروں میں لکھنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments