میڈم زبیری ماہ رخ سے جلتی ہیں


محبت کی منزل قریب تھی۔ بس کچھ ہی دن باقی تھے پھر وہ اور جمیل ایک ہوجائیں گے۔ محمود آباد کی ماہ رخ دو کمروں کے گھر کے چھوٹے والے کمرے میں لکڑی کے پرانے صوفے پر بیٹھی آنے والے دنوں کے سپنوں میں گم تھی۔ دوسرے کمرے میں، جو ڈرائنگ/ڈائننگ/اسٹڈی/بیڈروم کے کثیر المقاصد استعمال میں آتا تھا، جمیل کے گھر والے سترہ اٹھارہ لوگوں کے ساتھ شادی کی تاریخ لینے آئے ہوئے تھے۔ برآمدے میں غریب آباد کی سیکنڈ ہینڈ فرنیچر مارکیٹ سے خریدی گئی ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کی خورد و نوش کی اشیاء سجی ہوئی تھیں۔

”مبارک ہو چودہ فروری کی تاریخ طے ہو گئی ہے“ ۔ فربہ جسم کو گھسیٹتے ہوئے چچی بیگم نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان اطلاع دی۔ یوں لگتا تھا وہ اگلے کمرے سے نہیں اگلے محلے سے دوڑتی ہوئی آ رہی ہیں۔

سترہ اٹھارہ سسرالیوں کے لشکر نے ڈائننگ ٹیبل پر ہلہ بولا تو اماں نے نظروں ہی نظروں میں اپنے والوں کو ٹیبل سے دور رہنے کا اشارہ کیا۔ تاریخ کی رسم میں مہمانوں کی تعداد توقع سے بہت زیادہ تھی۔ لشکر جرار کے جانے کے بعد میدان میں مال غنیمت کے نام پر صرف خالی ڈونگے اور کوکا کولا کی خالی بوتلیں لڑھکتی پائی گئیں۔

اس رات ماہ رخ کو تیسرے پہر تک نیند نہ آئی۔ اتی بھی کیسے؟ آنکھوں میں تو سپنوں نے جگہ گھیری ہوئی تھی لیکن اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلی صبح اس کے پیار کی کہانی یکلخت ایسے منقطع کردی جائے گی جیسے پچھلے ہفتے کیبل کا تار ٹوٹنے سے اس کی پسندیدہ سیریل کی کہانی ادھوری رہ گئی تھی۔ جمیل کے ابا نے صبح صبح فون پر نہایت غیض و غضب کے عالم میں رشتہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اشیائے تواضع میں بریانی نہیں تھی۔

ان کے بہنوئیوں (جمیل کے پھپھا) نے طعن و تشنیع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے دو ٹکے کے لوگوں میں رشتہ کیا ہے جو سسرالیوں کو بریانی بھی نہیں کھلا سکتے۔ ابا جی کا پٹھان خون جوش میں آ گیا تھا اور وہ بھی ایسے سفلی لوگوں پر دو حرف بھیج بیٹھے تھے۔ صدیقی پھوپھا جان نے ابا جی کی پٹھانی رگ کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”بیٹیوں کے رشتے اس طرح ختم نہیں کیے جاتے ہمیں ان کے گھر جاکر بات کرنی چاہیے لیکن ابا جی نے صاف کہہ دیا تھا وہ ان کے گھر ہرگز نہیں جائیں گے۔

اس سارے ہنگامے میں کسی کو ماہ رخ کے جذبات کا کوئی خیال نہیں تھا۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سوج کر یہ موٹی موٹی ہو گئی تھیں۔ وہ آفٹر نون شفٹ میں اسکول ٹیچر تھی۔ اس روز اس کی سوجی آنکھیں اور ناک کی سرخ پھننگ میڈم زبیری سے پوشیدہ نہ رہ سکی اور انہوں نے احوال پوچھ لیا۔ سارا ماجرا سننے کے بعد انہوں نے بھی اس کے والد کے فیصلے سے صاد کیا۔

” تمہیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایسے کم ظرف لوگوں سے ناتا جوڑنے سے بچ گئیں“

پتہ نہیں بیٹے کا باپ ہونے کا طنطنہ دکھاتے وقت لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کھیل کی اگلی اننگز میں وہ بیٹی کے باپ کی پوزیشن پر ہوسکتے ہیں ”۔ انہوں نے تاسف سے کہا

لیکن ماہ رخ کے سر پر تو عشق کا بھوت سوار تھا اس کے نزدیک جمیل کے بغیر زندگی بے کار تھی۔ اس رات بھی نندیا بیرن نندیا کی طرح دور دور رہی۔ بستر پر پڑے پڑے کمر ٹوٹنے لگی تو ماہ رخ آٹھ کر ٹہلنے لگی۔ بائیں ہاتھ کے کونے میں روشندان کے سامنے والی دیوار سے ٹیک لگائے ڈریسنگ ٹیبل کھڑی تھی۔ یہ ڈریسنگ ٹیبل وہ بڑے شوق سے سیکنڈ ہینڈ فرنیچر مارکیٹ سے خرید کر لائی تھی۔ ماہ رخ بہت خوب صورت تھی اور سونے پہ سہاگہ خود شناس بھی تھی۔

یونانی دیوتا نارسیسس کی طرح اپنے عکس پر خود ہی فدا ہوجاتی۔ قد آدم آئینے کے سامنے پینترے بدل بدل کر خود کو دیکھتی اور اپنے عکس سے باتیں کرتی۔ جام جم کی طرح آئینہ اسے جواب بھی دیتا اور خوب قصیدہ گوئی کرتا لیکن اب ائینے کے پیچھے کی گئی سستی عکاس املگم کوٹنگ کہیں کہیں سے اتر گئی تھی اور روشنی کا انعکاس ہموار نہیں رہا تھا عکس دھندلا اور کٹا پھٹا دکھتا۔ ایک کونے پر منشور کی طرح روشنی کو قوس قزح کے رنگوں میں منتشر کرتا تو چٹا پٹی کے غرارے کی مانند رنگ بکھر جاتے۔

ماہ رخ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے عکس سے حال دل کہہ رہی تھی۔ اس نے کہا جمیل کے بغیر وہ جینے کا تصور نہیں کر سکتی اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی جان دیدے گی۔

اس کے ہمزاد عکس نے پوچھا
”خود کشی کے تو بہت طریقے ہیں تم کیا کرو گی؟“
” یہ تو میں نے ابھی سوچا نہیں“ اس نے جواب دے کر سوچنا شروع کیا۔

پستول وستول تو اس کے جیسے گھروں کی درازوں میں نہیں رکھا ہوتا کہ وہ کنپٹی پر رکھ کر ڈشوں ڈشوں کر ڈالے۔ دو کمروں کے دس افراد والے گھر میں پھانسی کے لئے پرائیویسی مہیا نہ تھی۔ کیڑے مار دوا پینے کے لئے جیسے ہی ڈھکن کھول کر منہ کے نزدیک لائی اور تیز چبھتی ہوئی بو کا بھبوکا اس کی ناک میں گھسا تو چھینکوں کا دورہ پڑ گیا۔ اسے اکثر چیزوں سے الرجی تھی اور چھینک چھینک کر بے حال ہوجاتی تھی۔ اخر کار اس نے سوچا کل اسکول سے واپسی پر کسی گاڑی کے نیچے اجائے گی۔

اگلی صبح اٹھ کر اس نے باورچی خانے میں اماں کا ہاتھ بٹایا تو وہ اس کایا کلپ پر حیران تو ہوئیں مگر بولیں کچھ نہیں۔ ساڑھے گیارہ بجے اپنی دانست میں گھر اور گھر والوں پر الوداعی نظر ڈال کر وہ اسکول روانہ ہو گئی۔ میڈم زبیری نے ملگجی آنکھوں کا سبب پوچھا تو اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا ”آشوب چشم ہو گیا ہے شاید“ ۔

ساڑھے پانچ بجے وہ اسکول سے نکل کر شاہراہ فیصل کی طرف روانہ ہوئی۔ نرسری پہنچ کر وہ فٹ پاتھ پر لمحے بھر کو ٹھٹکی اور پھر آنکھیں بند کر کے سڑک پر اتر گئی۔ تصور میں وہ کسی تیز رفتار گاڑی کو اپنے بدن کے چیتھڑے اڑاتے ہوئے محسوس کر رہی تھی لیکن کسی گاڑی کے بمپر نے اسے چھوا تک نہیں۔ لگتا تھا ڈرائیور نے ایکسلیریٹر کے بجائے ہارن دبایا ہوا تھا۔ چیختے ہوئے ہارن کے شور کے ساتھ اب صلواتوں کا اودھم بھی سنائی دے رہا تھا ”

اندھی بہری ہو یا پاگل ہو، بھینس کی طرح سڑک کے بیچ میں آ کر کھڑی ہو گئی ہو۔ ”

ہڑبڑا کر اس نے آنکھیں کھولیں تو طوطے جیسے ہرے رنگ کی کھٹارا کار والا کھڑکی سے سر اور بازو باہر نکالے اس پر برس رہا تھا۔ دائیں بائیں کاریں کھوے سے کھوا ملائے کھسک رہی تھیں شام کے اس پہر شارع فیصل پر شدید ٹریفک جام ہوتا ہے۔ گاڑیاں سڑک پر سارڈین کی طرح گتھی ہوتی ہیں۔ بے مہار بسوں اور ویگنوں کو بھی اس وقت نکیل پڑ جاتی ہے اور وہ اونٹ کی طرح ڈگمگ ڈگمگ چلتی ہیں۔ اب ماہ رخ کی قسمت کہ خودکشی کرنے کو تیز رفتار گاڑی ہی دستیاب نہ تھی۔

ان گاڑیوں سے زیادہ رفتار سے تو اس کے دل کی دھڑکن دوڑ رہی تھی۔ ڈولتے قدموں سے سڑک پار کر کے دوسری جانب پہنچی اور پھر چنیسر ہالٹ کا پھاٹک کراس کر کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ اس رات ائینے میں اس کے ہمزاد عکس نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ”تمہاری تو خود کشی کی نیت ہی نہیں۔ کراچی میں رہنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس وقت شاہراہ فیصل پر گاڑیاں نہیں چیونٹیاں چلتی ہیں۔“ اس رات اس نے فیصلہ کیا کہ اتوار کی صبح جب سب سو رہے ہوں گے وہ ملیر ندی میں کود کر مر جائے گی۔ اتوار کی صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ پہلی بس پکڑ کر وہ ملیر ندی کے پل پر پہنچ گئی۔ پل کی ریلنگ سے نیچے جھانکا تو غصے اور مایوسی کے ملے جلے جذبات سے مٹھیاں بھینچ ڈالیں۔ ندی میں اتنا پانی بھی نہیں تھا جتنا بقول شاعر

”جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں“

گھر لوٹی تو روشندان سے آنے والی سورج کی کرنیں آئینے کو منور کر رہی تھیں۔ اس دن ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے چٹاپٹی غرارے والے ٹکڑے میں تھرتھراتے عکس نے اس کی خوب بھد اڑائی۔

”بڑی معلمہ بنی پھرتی ہیں، اتنا معلوم نہیں کہ ملیر ندی برساتی ندی ہے۔ پچھلے سال کہاں ایسی بارشیں ہوئیں کہ ٹھاڈو اور سکھن نہریں ابل کر ملیر ندی کا پیٹ بھرتیں۔ ماہ رخ کو یاد آیا چچی بیگم اماں سے کہہ رہی تھیں

”بھاوج بیگم ملیر کی سبزی نہ لیا کرو۔ بارشیں تو ہوئیں نہیں سنا ہے نالے کے پانی سے کاشت کرتے ہیں۔“

ماہ رخ کو ملیر کے امرود بہت پسند تھے گول گول، باہر سے گرین اور اندر سے بے بی پنک۔ جبکہ لاڑکانہ کے امرود پیلے اور صراحی کی شکل کے آتے تھے اور اندر سے سفید نکلتے تھے۔ جب سے ماہ رخ نے چچی بیگم کی سبزیوں والی بات سنی تھی اس نے تو ملیر کے امرود سے بھی کنارہ کر لیا تھا۔

خیر اب تو نہ ملیر نہ لاڑکانے کے امرود کھانے کا موقع ملے گا۔
”اب تم خودکشی کے لئے کیا کرو گی“ عکس نے جیسے اسے چڑایا
”مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں“ ۔ اس نے دو بدو جواب دیا

ماہ رخ نے مشہور و معروف مقام خود کشی نیٹی جیٹی کا پل آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس دن گھر سے اسکول جانے کا کہہ کر وہ نیٹی جیٹی کے پل چلی گئی۔ بس اسٹاپ سے چوڑی منڈیر تک نپے تلے قدموں سے چلتی ماہ رخ سوچ رہی تھی۔ سمندر سے ہمیشہ اس کے جسم و جاں کو بے پایاں ترو تازگی، جوش اور توانائی ملتی تھی پر آج وہ اپنی ساری توانائیاں اس سمندر کے سپرد کرنے والی تھی۔ تاہم اسے ایک ثانیے کے لئے بھی یہ خیال نہ آیا کہ ایسا کر کے وہ اماں ابا کی برسوں کی سینچائی پر پانی پھیرنے والی تھی۔

سردیوں کی خنک ہوا سمندر کے پانی سے معانقہ کر کے ماہ رخ کے اکہرے بدن سے ٹکرائی تو کپکپی سی دوڑ گئی تب اسے اندازہ ہوا اس نے کوئی سوئیٹر نہیں پہنا تھا۔ ”چلو کوئی بات نہیں لاشوں کو سردی نہیں لگتی“ اس نے اپنے آپ سے بے ڈھنگا مذاق کیا۔ اس وقت پل پر اکا دکا راہگیروں کے سوا کوئی نہ تھا۔ اب وہ اس شہرہ آفاق منڈیر کے پاس کھڑی تھی جہاں سے کود کر سمندر برد ہونے والوں کو یقین ہوتا تھا کہ وہ قید حیات اور بند غم دونوں سے نجات پا لیں گے۔

”۔ بس ایک چھلانگ کی دوری پر ہے اس ظالم سماج کی من مانیوں سے چھٹکارا“ ماہ رخ نے خود کو یقین دلایا اور دونوں ہاتھ دیوار پر رکھ کر نیچے کی جانب دباؤ بڑھایا۔ اس کے پیروں تلے سے زمین نکلی اور اس کا چھریرہ بدن اوپر کو اٹھا۔ اب اس کا چہرہ دیوار سے بلند ہو گیا تھا اور نیچے بہنے والا پانی اچھی طرح دکھ رہا تھا۔

سمندر کا پانی تو نیلا ہوتا ہے مگر یہ تو سیاہ تلچھٹ جیسا دکھتا تھا جس پر کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بہہ رہا تھا۔ خالی بوتلیں، نیلی ہیلی پلاسٹک کی تھیلیاں، سگریٹ کے خالی ڈبے، صنعتی فضلہ اور۔ اور استعمال شدہ کنڈوم؛ ماہ رخ کو یہ تصور کر کے ابکائی آ گئی کہ پانی میں کود نے کے بعد اگر وہ منہ بند رکھنے میں ناکام ہو گئی تو۔

اس کی طبع نازک اس غلیظ موت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اسے ذمہ داران پر شدید غصہ آیا جنہوں نے عوام الناس کے لئے جینا ہی نہیں مرنا بھی مسدود کر دیا ہے۔ اس کا آ چکا ہوا جسم دھیرے دھیرے زمین پر لوٹ آیا جیسے گیس کے غبارے سے گیس ختم ہو جائے تو وہ آہستگی سے زمین پر آ جاتا ہے۔

”باجی مچھلیوں کو ڈالنے کی لئے کھاجا لیں گی“ آواز پر وہ چونک کر مڑی۔ بظاہر بارہ تیرہ سال کا نظر آنے والا لڑکا چھوٹے چھوٹے پیکٹ سے بھرا خوانچہ گلے میں لٹکائے پوچھ رہا تھا۔ مگر ماہ رخ جانتی تھی کہ غربت زدہ طبقے میں ناکافی غذا اور نامکمل نشوونما اصل عمر سے کم ہی دکھاتی تھی۔ اس نے کچھ کہے بنا ایک پیکٹ اٹھایا اور بیس روپے کا نوٹ اسے تھما دیا۔ میکانکی انداز میں پیکٹ کھول کر اس نے مواد دیوار کے پرلی طرف اچھالا اور بس اسٹاپ کی طرف بڑھ گئی۔

سوک سینٹر سے ڈبلیو 19 میں بیٹھتے وقت وہ سوچ رہی تھی۔ بس اب تو ایک ہی آپشن بچا ہے چنیسر ہالٹ کے پھاٹک پر ٹرین کے آگے اجائے۔

گھر پہنچی تو چچی بیگم لپک کر اس کی طرف آئیں اور بغل گیر ہو گئیں۔ وہ ہکا بکا کشتی کے چپوؤں کی طرح بازو لٹکائے کھڑی رہی۔

”ارے بھئی تمہارے ابا تو ماش کے آٹے کی طرح اینٹھے ہی رہے مگر تمہارے چچا نے سارا معاملہ سلجھا دیا ہے۔ بھئی بیٹی والوں کو تو سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔“

”کیا مطلب؟“ خودکشی کی ایک اور ناکام کوشش کے بعد اس کا دل و دماغ ابھی تک منجمد تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود تھی۔

”بھئی مطلب یہ کہ تمہارے چچا جمیل کے گھر گئے تھے۔ ان کے ابا کا غصہ ٹھنڈا کیا اور چودہ فروری کو تمہاری شادی ہو رہی ہے“

تاہم ابا اس تبدیلی حالات سے کچھ اتنے خوش نظر نہیں آتے تھے

رات کو جمیل کا فون آیا تو ماہ رخ نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”آپ کے ابا نے رشتہ توڑا تو آپ نے بھی سارے ناتے توڑ لئے تھے“

”ارے بھئی مصروف تھا“
”کہاں مصروف تھے۔ شادی تو کینسل ہو گئی تھی۔“

”اسی کینسل کو تو کینسل کروانے میں مصروف تھا۔ تمہارے چچا سے رابطہ کیا۔ تمہارے ابا کو یقین دلایا کہ بھروسا رکھیں میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔ اپنی پھپھو کو بیچ میں ڈالا۔ اماں کی خوشامد کی، ابا کے پیر پکڑے۔ کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں تمہیں کیا پتہ۔

چلو اوکے، ملتے ہیں چودہ فروری کو۔ تمہیں پتہ ہے چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے ”
”پتہ ہے مجھے“ ماہ رخ نے اٹھلا کر کہا
شادی کارڈ چھپ گئے تو وہ اسکول کی استانیوں کے لئے بھی لے گئی۔ میڈم زبیری کارڈ دیکھ کر بولیں۔
”تمہارے سسر نے تو بریانی کی وجہ سے رشتہ ختم کر دیا تھا“
”وہ معاملہ تو ختم ہو گیا میڈم زبیری“

لیکن میڈم زبیری خوش نظر نہ آئیں نہ اسے مبارکباد دی بلکہ ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر کچھ سوچتے ہوئے بیں ”معاملہ ختم نہیں ہوا، شروع ہوا ہے ماہ رخ۔ چاول کی چوری کے چند دانوں سے معیار کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ جو اتنی بے تکی بات پر اتنا فضیحتہ کر سکتے ہیں وہ بعد میں کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ خود کشی کا کوئی اور طریقہ نہیں سوجھا تمہیں۔“

ماہ رخ میڈم زبیری کے آخری فقرے پر ایسی بدکی جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔ اس نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اصل میں میڈم زبیری کی شادی نہیں ہوئی تھی بیچاری اب تک کنواری تھیں۔ شاید اس کی شادی کا سن کر جل گئی تھیں۔

، ”ہونہہ لوگ کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے“ ماہ رخ نے جل کر سوچا اور بچے ہوئے کارڈ اٹھا کر اسٹاف روم سے نکل گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments