پاکستان کے بیشتر شہروں میں زیرِ زمین پانی آلودہ قرار، بیماریاں پھیلنے کا اندیش


وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق شہید بے نظیر آباد، میر پورخاص اور گلگت بلتستان کا پانی 100 فی صد غیر محفوظ ہے۔ جب کہ ملتان 94، کراچی 93، بدین 92، بہاولپور 76، سرگودھا 83، حیدرآباد 80، مظفر آباد 70 اور سکھر کا 67 فی صد پانی مضر صحت ہے۔ (فائل فوٹو)
اسلام آباد — پاکستان کے بیشتر شہروں میں مختلف ضرورریات کے لیے استعمال ہونے والا زیرِ زمین پانی صحت کے لیے مضر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس پانی سے شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل (پی سی آر ڈبلیو آر) کے سروے میں واضح ہوا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں کا زیرِ زمین پانی آلودہ اور مضر صحت ہے۔

وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے ایک تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ شہید بے نظیر آباد، میر پورخاص اور گلگت بلتستان کا پانی 100 فی صد غیر محفوظ ہے۔ جب کہ ملتان 94، کراچی 93، بدین 92، بہاولپور 76، سرگودھا 83، حیدرآباد 80، مظفر آباد 70 اور سکھر کا 67 فی صد پانی مضر صحت ہے۔

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی نے متنبہ کیا کہ مضر صحت پانی کا استعمال کینسر سمیت سنگین بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ جب کہ پانی میں آرسینک کی موجودگی جلد کی خرابی کا سبب بن رہا ہے۔

اُنھوں نے یہ جواب پاکستان میں پینے کے پانی کی صورتِ حال سے متعلق پوچھے ایک سوال پر جمع کرایا ہے۔

عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او اور اقوامِ متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے ’یونیسف‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 36 فی صد آبادی پینے کا صاف پانی استعمال کر رہی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گندے پانی کا استعمال ملک میں 30 فی صد بیماریوں کا سبب ہے اور 40 فی صد اموات بھی اسی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقاتِ آبی وسائل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں پینے کے پانی میں بتدریج بہتری آ رہی ہے تاہم اس کی رفتار بہت سست ہے اور مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق محفوظ پانی کے نمونے 31 فی صد تھے جو کہ حالیہ تحقیق میں 38 فی صد پانی کو محفوظ بتاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مضر صحت پانی کی تقریباً 70 فی صد آلودگی کی نوعیت معمولی یا بیکٹریل ہے جسے احتیاط یا پانی کو صاف کرنے کے طریقوں سے دورہ کیا جا سکتا ہے۔

محمد اشرف نے بتایا کہ اُن کے ادارے نے ملک کے مختلف حصوں سے پانی کے نمونے حاصل کرنے کے منصوبوں کا آغاز 2002 میں کیا تھا اور اس کے بعد پانی کو شفاف بنانے کے اقدامات کو ایک پروگرام کی شکل دے کر ہر پانچ سال کے بعد جائزہ رپورٹ بنائی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2002 سے اب تک محفوظ پانی کے استعمال میں 18 فی صد بہتری آ کی ہے۔

محمد اشرف کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کا کام تحقیق اور خطرے سے آگاہ کرنا ہے جس کے نتیجے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اقدامات کیے تاہم اس مسئلے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے مزید اقدامات، سرمایہ کاری اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پائیدار ترقی کے اہداف یعنی ایس ڈی جیز کے مطابق پاکستان کو 2030 تک 100 فی صد آبادی کو شفاف پینے کا پانی مہیا کرنے پر عمل کرنا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں آلودہ پانی کی ایک بڑی وجہ ملک کے کئی علاقوں خصوصاً شہروں میں زیرِ زمین پانی کو شفاف بنانے کے قدرتی نظام کو ختم کیا جانا ہے۔

آبی ذخائر اور پانی سے متعلق امور کے ماہر ارشد عباسی کہتے ہیں کہ شہروں کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ملحقہ کچھ علاقے کو جنگل قرار دیا گیا تھا جسے اب آبادیوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی شفاف نہیں ہو رہا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ارشد عباسی نے کہا کہ آبی وسائل پر تحقیق کرنے والے اداروں کا محض یہ کام نہیں کہ وہ سالانہ ایک رپورٹ دے دیں کہ زیرِ زمین پانی میں مضر صحت کی شرح یہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پانی کے آلودہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس ضمن میں سفارشات بھی نہیں دی گئیں اور کیا اقدامات کیے جائیں اس پر بھی خاموشی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں واٹر شیڈ کو محفوظ کیا جا رہا ہے پاکستان میں دریاؤں اور ڈیموں کے کنارے آبادیاں قائم ہو رہی ہیں اور جنگلات کو ختم کیا جا رہا ہے۔

ارشد عباسی نے بتایا کہ ہر شہر کے جنگلات اور پانی کو شفاف کرنے والے علاقے کو محفوظ کرکے وہاں آلودگی کے محرکات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیرِ زمین پانی کو محفوظ بنایا جاسکے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگوں کو جلد کی بیماریاں، سانس کے امراض، مثانے کا سرطان اور امراضِ قلب لاحق ہو سکتے ہیں۔ آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments