افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی: کیا یہ جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا مشکل ترین فیصلہ تھا؟

جان سوپل - ایڈیٹر، بی بی سی شمالی امریکہ


افغانستان

اگر آپ کو سیدھی لائنیں اور نظم پسند ہے اور آپ کو ترتیب اچھی لگتی ہے تو گیارہ ستمبر کے امریکہ پر دہشت گردی کے حملوں کے ٹھیک 20 سال بعد گیارہ ستمبر 2021 کو افغانستان سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے میں آپ کو کیا خرابی نظر آتی ہے؟

موجودہ دور کے امریکہ میں ایسا لگتا ہے کہ تمام راستے گیارہ ستمبر کی طرف واپس جاتے ہیں۔ پرل ہاربر پر حملے کے بعد ایسا ہولناک واقعہ جس نے حالات کا رخ بدل دیا۔ پرل ہاربر میں لنگر انداز امریکہ کے بحرالکاہل کے بحری بیڑے پر جاپانی فوج کا اچانک حملے جس سے امریکہ کو آخر کار دوسری جنگ عظیم میں کودنا پڑا۔

گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ پر دہشت گردی کے حملوں کے بعد امریکہ کو اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں کودنا پڑا۔ نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملہ، ایک جہاز پینٹاگون سے ٹکرایا اور ایک جہاز پینسلوینا میں گر کر تباہ ہوا، ان واقعات سے امریکہ میں قوم پرستانہ جذبات میں شدت پیدا ہو گئی۔

نوجوان بلکہ ہر عمر کے لوگ فوج میں بھرتی کے مراکز کے باہر لائن لگا کر کھڑے تھے۔ امریکہ حملوں کی زد پر تھا۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار یہ لوگ اپنی سرزمین کا دفاع کرنا چاہتے تھے جو ‘آزاد لوگوں کی سرزمین’ ہے اور ان لوگوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے جنھوں نے امریکہ کو نقصان پہنچایا تھا۔

اس جذبے کو کسی وقتی غصے سے تعبیر نہ کیا جائے۔ ایسا نہیں تھا۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن میں صرف امریکی شہری شامل نہیں ہیں، جو لبرل خیالات کے حامل تھے اور وہ امریکہ کی پالیسیوں کہ حامی نہیں تھے۔ ان کے لیے یہ فیصلے کا وقت تھا، ایک ایسی گھڑی جب آپ کو کسی ایک طرف ہونا پڑتا ہے۔

کیا آپ قانون کی بالادستی کے ساتھ ہیں، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، قواعد و ضوابط، جنسی مساوات اور تعلیم کے یکساں مواقعوں کے حق میں ہیں۔ یا آپ ان کے ساتھ ہیں جو شہری عمارتوں سے جہاز ٹکراتے ہیں، جو لوگوں کو سنگسار کرتے ہیں، ہم جنس پرستوں کو عمارتوں سے نیچے پھینک دیتے ہیں اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ یہ ان واقعات کی بڑی سادہ سی تشریح ہے لیکن یہ گیارہ ستمبر کے تباہ کن اثرات تھے اور بہت سے لوگ اس کو اسی طرح دیکھ رہے تھے۔

بائیڈن

بائیڈن سنہ 2011 میں بطور نائب صدر افغانستان کے دورے پر

سنہ 2016 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب میں یہ بھی ایک اہم عنصر تھا۔ طویل نہ ختم ہونے والی جنگ سے تنگ، ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے عراق اور افغانستان کو دلدل قرار دیا اور امریکہ کے عالمی پولیس اہلکار کے کردار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔

اپنی فوجیں بلانے کی امریکی فوجیوں کی خواہش بالکل قابل فہم تھی۔ وہ اپنی فوجیں واپس بلانا چاہتے تھے، ان ملکوں کے مسائل ان پر چھوڑنا چاہتے تھے اور اس سوچ کو ترک کرنا چاہتے تھے کہ لبرل جمہوریت کا امریکی نظام کوئی برآمدی شے ہے جس کو دوسرے ملکوں پر تھوپا جا سکتا ہے۔

لبرل مداخلت کرنے کے دور کا اختتام ہو گیا تھا۔

گذشتہ نومبر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابی کامیاب حاصل ہو جاتی تو شاید وہ امریکی فوج کو اس سے بھی پہلے افغانستان سے نکال لیتے۔ گو کہ جو بائیڈن کو ٹرمپ کا انتخابی وعدہ ورثے میں ملا تھا لیکن ان کے لیے یہ کام کہیں آسان تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات امریکی مرد اور خواتین فوجیوں کی تنخواہوں کی ایک اور سال تک منظوری دیتے رہتے۔ اور پھر ایک اور سال کے لیے اور پھر ایک اور سال کے لیے۔

سیاسی دباؤ ان پر واقعی بہت شدید تھا۔ امریکی فوج کی اعلیٰ ترین قیادت، خارجہ پالیسی کے کرتا دھرتا، امریکہ کے سمندر پار اتحادی سب یہ سمجھتے تھے کہ حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علاوہ کچھ بھی کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوگا۔

لیکن ایک سوال جو نئے صدر کے لیے پریشانی کا باعث تھا اور یہ تھا کہ ’اگر اب نہیں تو پھر کب۔‘

جو بائیڈن جنھوں نے اوباما کو سنہ 2009 میں مزید فوجی نہ بھیجنے کا مشورہ دیا تھا مگر اپنی بات نہیں منوا پائے تھے، اب وہ ایسا قدم اٹھانے جا رہے ہیں جو اُن کے دورِ صدارت کا ممکنہ طور پر سب سے نتیجہ انگیز فیصلہ ہو سکتا ہے۔

افغانستان

مصنف (دائیں) افغانستان میں

جب گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوا تو اس وقت میں بی بی سی کا پیرس میں نامہ نگار تھا اور یوروٹنل کی جانب سے ایک ریڈ کراس پناہ گزین مرکز بند کروانے کی کوشش کو کور کر رہا تھا۔

اس کیمپ میں دنیا بھر سے مشکلات کا سامنا کر کے یہاں پہنچنے والے پناہ گزین اور تارکینِ وطن برطانیہ کے سفر کا آخری حصہ شروع کرنے سے پہلے ٹھہرتے تھے۔

میں کیلے جا رہا تھا جب مجھے ایک ساتھی کی کال آئی اور اُنھوں نے مجھے قریب ترین سروس سٹیشن پر رک کر ٹی وی دیکھنے اور صورتحال کو دیکھنے کے لیے کہا۔

ہم نہیں جانتے تھے کہ آگے کیا ہوگا اور ہم کہاں تک پہنچ جائیں گے۔ نئی صدی کے پراُمید آغاز کو ایک سال ہی ہوا تھا اور ایسا بیانیہ پیدا ہو گیا تھا جو خوشگوار نہیں تھا، یعنی دہشتگردی کے خلاف جنگ، تہذیبوں کا تصادم، چاہے آپ اسے جو بھی کہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے خوف اور ’ممکنہ موت‘ سے بچ کر کابل نقل مکانی کرنے والے افغان شہری

افغان حکومت اور فوج کی کمزوریاں جو طالبان کی پے در پے فتوحات کی وجہ ہیں

افغانستان پر طالبان کی چڑھائی اور امریکہ کی سرد مہری، پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

اس وقت یہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے سے اس سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتی تھیں، مگر ہم نے کیلے کے آس پاس سڑکوں پر کئی پریشان حال افغانستان سے تھے اور طالبان حکومت سے جان بچا کر نکلے تھے۔

یہ یاد رکھا جانا ضروری ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک افغانستان میں کیوں گئے تھے۔ طالبان اُن شدت پسندوں کے لیے آخری منزل بن چکا تھا جو مغرب کے خلاف جنگ کرنا چاہتے تھے۔

افغانستان

مصنف جن علاقوں میں گئے تھے وہاں اب دوبارہ طالبان قابض ہو گئے ہیں

القاعدہ میں شمولیت کے خواہش مند افراد ’مقدس جنگ‘ کی تربیت حاصل کرنے کے لیے وہاں جا رہے تھے۔ گیارہ ستمبر کے حملے کرنے والے دہشت گردوں نے اپنے کام میں یہاں مہارت حاصل کی اور یہیں پر اپنا منصوبہ تیار کیا۔ طالبان کو ہٹانا اور القاعدہ سے نمٹنا عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر بن چکا تھا۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کے کچھ ہفتوں بعد ہی میں نئی دلی اور پھر دوشنبے سے ہوتا ہوا شمالی افغانستان میں تھا۔ ہم امریکہ اور برطانیہ کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے جنگجوؤں کے ساتھ چل رہے تھے جو طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے۔

ہمارے سفر کا آغاز شمالی اتحاد کے اس وقت کے ہیڈ کوارٹر خواجہ بہاؤالدین سے ہوا جہاں دو دن قبل ہی ایک سڑک پر طالبان نے حملے میں بڑی تعداد میں صحافیوں کو قتل کر دیا تھا۔

ایک رات کے بعد ہم تالقان نامی شہر پہنچے جو ہمارے آنے سے ایک دن قبل ہی طالبان کے کنٹرول سے نکل گیا تھا۔ ایک تاریخی تصویر لڑکیوں کے سکول کی ایک کلاس کی تھی جہاں طالبان جلد بازی میں بھاگتے ہوئے اپنے راکٹس پھینک کر چلے گئے تھے۔

سب سے مشکل اور آخری مرحلہ قندوز تھا جو کابل، مزارِ شریف اور ازبکستان کے ساتھ سرحد کے درمیان ایک اہم راہداری تھا۔

اب تالقان اور قندوز دونوں ہی طالبان کے قبضے میں واپس آ چکے ہیں اور ملک کے تقریباً ایک تہائی صوبائی دارالحکومت اُن کے کنٹرول میں ہیں۔

اور اس سے جو بائیڈن اور اُن کی ’اگر اب نہیں تو کب‘ کی پالیسی کے لیے ایک نہایت پریشان کُن سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔

بیس سال گزرنے، بھاری جانی نقصان اور اربوں ڈالر کے نقصان کا فائدہ کیا ہوا؟ کیا حاصل کیا گیا؟ آپ طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے خاندانوں سے کیا کہیں گے؟ اپنے تربیتی کیمپ دوبارہ قائم کرنے سے دہشت گرد گروہوں کو کون روکے گا؟ گذشتہ جمعے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بتایا گیا کہ 20 مختلف دہشتگرد گروہ بشمول ہزاروں غیر ملکی جنگجو پہلے ہی طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

طالبان

اور مجھے یقین ہے کہ جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو کئی مزید خاندان طالبان کے کنٹرول سے خوف زدہ ہو کر اپنا سامان باندھ رہے ہوں گے۔ شاید وہ کیلے اور پھر برطانیہ کی راہ لیں۔ کیا لڑکیوں کا سکول ایک مرتبہ پھر اسلحے کا ذخیرہ بن جائے گا؟

گیارہ ستمبر کے زخم ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ہزاروں فوجی ذہنی مسائل اور مصنوعی ٹانگوں اور بازوؤں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ خاندانوں نے اپنے پیارے کھوئے ہیں۔ امریکہ کی سڑکوں پر لوگ پلاسٹک کپوں میں بھیک مانگ رہے ہیں کہ وہ عراق اور افغانستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

افغان جنگ میں کیا ہوا؟

امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے 2001 میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان کی حکومت گرا دی۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن نے کی تھی جو وہاں مقیم تھے۔

اس کے بعد 20 سال تک قبضہ اور فوجی آپریشن جاری رہے۔ امریکہ اور اتحادیوں نے اپنی نگرانی میں انتخابات کروائے اور افغان سکیورٹی فورسز کو مضبوط کیا مگر طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے۔

بالآخر امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اگر طالبان دہشتگرد گروہوں کو محفوظ ٹھکانہ نہ فراہم کرنے پر راضی ہوں تو امریکہ اپنے فوجی نکال لے گا۔ مگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے۔ امریکہ کی قیادت میں افواج نے رواں سال ملک چھوڑ دیا ہے اور طالبان نے اب ملک کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول واپس حاصل کر لیا ہے۔

گھر بیٹھ کر خود کو دنیا کے مسائل سے دور رکھنے کی خواہش قابلِ فہم ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ اتنا دلفریب کیوں تھا۔ جارج بش نے 2001 میں اس کی وکالت نہیں کی تھی مگر اس وقت افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی نہیں تھے۔

طالبان

اور چنانچہ جب اس دن مسافر طیارے ہائی جیک ہو کر القاعدہ کے میزائل بن گئے تو امریکہ محفوظ نہیں رہا اور ہزاروں لوگ اپنے روز مرّہ کے کاموں کے دوران مارے گئے۔

اس کے علاوہ عالمی تھانے دار اور امن کے عالمی سپاہی کے طور پر کام کرنے میں فرق ہے۔ ہزاروں امریکی فوجی اب بھی جنوبی کوریا میں تعینات ہیں حالانکہ کوریائی جنگ 70 سال پہلے ختم ہو چکی ہے۔ ایک کے بعد امریکی صدور کا خیال یہی ہے کہ کشیدہ امن کسی مکمل جنگ یا خطے میں عدم استحکام سے بہتر ہے۔

جو بائیڈن کو اُمید تھی کہ ان کے فیصلے سے ایسی سرخیاں بنیں گی کہ ’افغان جنگ کا خاتمہ‘، یا ’امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم ہو گئی‘۔ مگر بیس سال بعد اور طالبان کے دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ مستقبل کا مؤرخ اس نقطے کو دوسری افغان جنگ کا نقطہ آغاز قرار دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp