ٹک ٹاک نے نو عمر صارفین پر نئی پابندیاں لگا دیں


سوشل نیٹ ورک کمپنی ٹک ٹاک نے جمعرات کے روز نو عمر صارفین کے لیے ایپ کے استعمال پر اضافی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد انہں سوشل نیٹ ورکس سے متعلق خطرات جیسے بولینگ یا نیند کی کمی سے بہتر طور پر محفوظ رکھنا ھے۔

کمپنی کا کہنا ھے کہ نو عمر صارفین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اس سے بھی زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

ٹک ٹاک اپنی کامیابی کا سہرا خاص طور پر اپنے نوجوان صارفین کے سر باندھتا ہے جن کی مختصر اور میوزک پر مبنی ویڈیوز ٹک ٹاک پر بہت مقبول ہیں۔

نئے اقدامات کے تحت براہ راست پیغام رسانی کا فیچر 16 اور 17 سال کی عمر تک کے افراد کے لیے قابل استعمال نہیں رہے گا جس کے بعد کوئی انجان شخص انہیں غیر مطلوبہ پیغامات نہیں بھیج سکے گا۔

13 سے 15 سال کی عمر کے افراد کے اکاؤنٹس کی حیثٰت ڈیفالٹ پرائیویٹ ہو گی۔ ان کو اس بات پر راغب کیا جائے گا کہ وہ اس پر زیادہ توجہ دیں کہ ان کی اپ لوڈ کردہ ویڈیوز کون دیکھ سکتا ہے۔

خاص طور پر 16 سال سے کم عمر صارفین اپنی وڈیوز صرف اپنے سبسکرائبرز یا دوستوں کے لئے دیکھنے کا آپشن کھلا رکھ سکیں گے، یا پھر وہ کسی کو بھی منتخب نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔

مزید یہ کہ 13 سے 15 سال کی عمر کے افراد رات 9 بجے کے بعد اور 17 سال کے افراد رات 10 بجے کے بعد کوئی نوٹیفکیشن وصول نہیں کر سکیں گے، تاکہ ان کی نیند میں خلل نہ پڑے۔

نوجوانوں کے مقبول ایپ ٹک ٹاک پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے بچوں اور کم عمر افراد کو ہراساں اور جنسی استحصال کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے کمپنی نے کچھ زیادہ نہیں کیا ہے۔

گوگل اور فیس بک باقاعدگی سے نو عمر افراد سے متعلق اپنے قوانین کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس ہفتے سے، انتہائی مقبول یوٹیوب (گوگل) پر 13 سے 17 سال کی عمر کے افراد کی طرف سے اپ لوڈ کردہ ویڈیوز بطور ڈیفالٹ ‘پرائیویٹ’ موڈ ڈٖالی گئی ہیں۔

2020 میں ٹک ٹاک دنیا کی سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی موبائل ایپلی کیشن بن گئی تھی۔ اس کے ڈاؤن لوڈز کی تعداد فیس بک اور اس کے میسینجر سے بھی زیادہ تھی۔ سوشل میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ 2020 میں پھیلنے والی عالمی وبا کوویڈ نائیٹین تھی۔ جس کی وجہ سے وہ زیادہ تر اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments