دو ہم مزاج ملک: پاکستان اور بھارت


یوں لگتا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کا ہندوستان کی آزادی کی پون صدی کے بعد بھی وہ مزاج نہیں بدلا، جسے یہ لوگ مذہب یا دھرم کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل علامہ اقبال صاحب ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا بھی قرار دیتے رہے اور لوگوں کی یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔ اور دھرتی کے ذرے ذرے کو دیوتا تک قرار دے ڈالا۔ لیکن جب انہوں نے ”پاکستان کا خواب“ دیکھا تو ان کایا کلپ ہو گئی اور انہوں نے وطن کو تازہ خدا بھی قرار دے ڈالا اور اس کے پیرہن کو مذہب کا کفن بھی!

اور یار لوگوں نے شاید اسی پیرہن کا جھنڈا بنا کر اپنا الگ خدا اور الگ وطن بنا لیا۔ لیکن چین تو ان کو پھر بھی نہیں۔ کہیں تو معصوم بچوں کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے یا ان سے جبرا اللہ اکبر کے نعرے لگوانے کے مطالبے کیے جاتے ہیں اور کہیں معصوم بچی کے سامنے اس کے ادھیڑ باپ سے جبراجے شری رام کے نعرے لگوانے کی مانگ کی جاتی ہے!

لیکن اس کے باوجود نہ تو پاکستان میں اسلامی انقلاب آ رہا ہے اور نہ ہی بھارت میں رام راجیہ!

البتہ جس قسم کے فتوے مسلمانان پاکستان ایک دوسرے کے خلاف جاری کرتے رہتے ہیں ان کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو شاید ان کا وہ دعویٰ کہ جس کی بنا پر قائم کیا گیا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ؛ غلط ثابت ہو جائے!

یہ معروضات اصل میں اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ حال ہی میں بھارت میں، پاکستان میں تھر میں پیش آنے والے واقعے جیسا ایک تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے۔ ڈی ڈبلیو ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک مسلمان ای رکشا ڈرائیور کو پیٹ کر جبرا ”جے شری رام!“ کے نعرے لگوائے گئے ہیں، جب کہ اس دوران میں اس شخص کی پانچ سالہ بیٹی حملہ آوروں کو باپ کو چھوڑنے کے لیے منتیں کرتی رہی۔ سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک وڈیو کے مطابق کئی سارے افراد نے 45 سالہ رکشا ڈرائیور افسر احمد کو کچھ ایسے افراد کا رشتے دار ہونے پر پیٹا ہے جو کہ مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو چھیڑ اور تبدیلی مذہب کے لیے مجبور کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان افراد میں سے تین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور دیگر کوئی بارہ معلوم و نامعلوم افراد کی تلاش جاری ہے۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ مذکورہ وڈیو میں پیش کردہ واقعہ ایک ماہ پرانا ہے۔ جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ”چھیڑ خانی“ کے واقعے کو ”تبدیلی مذہب“ کے معاملے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ غالباً یہ اسی قسم کی کوشش ہے جیسا کہ بعض اوقات ”مبینہ طور پر“ پاکستان میں دشمنی نکالنے کے لیے کاروکاری اور دیگر مقدس روایات و قوانین کی مدد سے لی جاتی ہے!

کہتے ہیں کہ، ”ایک شخص کی ایک خدا بخش نامی صاحب دشمنی تھی تو اس نے ایک دن بھری محفل میں ان سے پوچھا تمھارا نام کیا ہے وہ ابھی صرف“ خدا ”ہی بول پایا تھا کہ اس شخص نے اسے چھرا گھونپ دیا کہ،“ کم بخت تو خدائی کا دعویٰ کرتا ہے! ”

بلاشبہ مذہب ایک نہایت حساس اور جذباتی معاملہ ہے، لیکن شاید ان کے لیے اور بھی زیادہ حساس و نازک ہے جو اس کے بارے کم جانتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک ذاتی یا معاشرتی مسئلہ، جیسا کہ طلاق کو ہی لے لیں، تو اس قسم کے معاملات کی تصدیق کے لیے دسیوں مفتیوں اور عالموں سے بات کرتے ہیں، اسی طرح سیاسی یا سماجی معاملات و اطلاعات کے بارے میں کئی افراد سے استفسار کر اور کتنے ہی چینل تبدیل کر کے تصدیق کرتے ہیں، لیکن دین کے پیچیدہ ترین معاملے میں بھی صرف کسی ایک ہی ”مولوی“ سے سنی ہوئی بات پر قناعت و اکتفا کرتے ہیں اور ذاتی طور پر کتاب مقدس پر تدبر اور تفکر کی عام دعوت کہ، ”یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“ کے باوجود اس کو کھولنے، پڑھنے اور تصدیق اور توثیق تک کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

یا کچھ لوگ پڑھتے ہیں تو قرآن شریف کے بجائے دیگر ثانوی دینی مواد، بے شک اس قسم کے مواد کی دینی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ اسی طرح سے ہے کہ جیسا ہمارے طلبا کرتے ہیں کہ ٹیکسٹ بک کے بجائے خلاصے اور حل شدہ پرچہ جات قسم کی چیزیں پڑھ کر پاس ہو جاتے ہیں۔ اور بس۔ امتحان میں تو کامیاب زندگی میں ناکام۔ اور اس پر طرہ نا امید بھی۔

اگر اسلام کا مطلب امن ہے تو پھر آپ کے اندر اور باہر امن کیوں نہیں؟
اگر آپ اوم شانتی اوم کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر آپ خود اور دوسروں کو شانتی سے کیوں نہیں رہنے دیتے؟

بقول ڈاکٹر اسرار احمد کے یا تو ان کی تعمیر میں خرابی کی کوئی صورت مضمر ہے۔ یا پھر ہم سمجھتے ہیں کہ ان بزعم خود جوہری طاقتوں کے جوہر میں جنگ ہی جنگ ہے امن نہیں!

اسلام کی تجربہ گاہ میں ”جوہری بم“ اور اہنسا کے پجاری ”انڑوں بم“ بنا کر امن کی آشا کریں، تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا ہے کہ لوگ پیاز اور ٹماٹر کو ترسیں اور سوال کریں کہ، ”بھائی کیا پیاز بھی ایٹم بم بنانے میں استعمال کیے جاتے ہے؟“

ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں پاکستانیوں اور بھارتیوں کو مذہب کی تبدیلی سے زیادہ رویوں اور مزاج کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور اگر یہ اپنے مزاج میں سے تشدد اور انتہاپسندی کو نکال سکیں تو شاید ان کے اندر اور باہر امن اور شانتی پیدا ہو جائے!

دراصل پاکستان اور بھارت میں اس قسم کے واقعات کا تسلسل اس بات کا اظہار ہے کہ آزادی یا علحدگی جیسے بڑے واقعے / سانحے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے باشندوں کے مزاج تبدیل نہیں ہوئے اور وہ شاید اس سے بھی کسی بڑے حادثے یا سانحے کے بعد ہی تبدیل ہوں؟ شاید جوہری جنگ کے بعد ؟ لیکن کیا ایسی کسی غیرانسانی (اور غیر امکانی) جنگ کے بعد تبدیلی کے لیے کچھ باقی بھی رہے گا؟

بہرحال آج جس علاقائی اور عالمی صورتحال میں یہ دونوں قومیں اپنا اپنا یوم آزادی منا رہی ہے تو اس پس منظر میں ہمارے دل دماغ میں میں نہ جانے کیوں فیض کا یہ شعر گونج رہا ہے :

”دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments