افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی: زیر قبضہ علاقوں میں ’ریڈیو پر موسیقی بند، بازاروں سے خواتین غائب‘

خدائے نور ناصر - بی بی سی، اسلام آباد


افغانستان

افغانستان میں طالبان کے پے در پے صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول کے بعد اب بعض ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ لڑائی دارالحکومت کابل کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے اور اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھنے والے اکثر افراد یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ جن علاقوں میں طالبان قابض ہیں ان میں کیا تبدیلی آئی ہے۔

اگرچہ افغان صدارتی محل ارگ میں ایک ذرائع نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ صدر غنی کابل کو طالبان کے حوالے نہیں کریں گے اور اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض صوبوں کے دارالحکومت افغان فورسز نے جان بوجھ کر طالبان کے حوالے کیے۔

تاہم گذشتہ تین چار دنوں میں طالبان نے قندھار، لشکر گاہ، ہرات اور غزنی سمیت کئی دیگر شہروں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ گو طالبان کو ان شہروں پر قبضہ کیے ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں شاید اس لیے تاحال وہ پابندیاں نظر نہیں آ رہیں جو اُن کے پہلے دور میں تھیں، لیکن اب بھی ان شہروں میں جس چیز پر طالبان پابندیاں لگانا چاہتے ہیں وہ لگائی جا چکی ہیں۔

طالبان کے زیر قبضہ شہروں میں رہنے والے باسیوں نے بی بی سی اردو کے ساتھ ان تبدیلیوں پر بات کی ہے جو طالبان کے آنے کے بعد وہاں دکھائی دے رہی ہیں۔

افغانستان

سرکاری ٹی وی اور ریڈیو شریعت کی آواز‘ میں تبدیل

لشکرگاہ، ہرات، قندھار اور غزنی میں افغانستان کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو جسے اب تک ’آر ٹی اے‘ یا ’ملی ریڈیو ٹیلی ویژن‘ کہا جاتا تھا، طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ’شریعت ژغ‘ یا ’شریعت کی آواز‘ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

اس ٹی وی اور ریڈیو پر موسیقی اور ڈرامے بھی اب دکھائی اور سنائی نہیں دے رہے۔

اس کے ساتھ گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں کئی مقامی ایف ایم ریڈیو سٹیشنز بھی قائم کیے گئے تھے لیکن ان شہروں میں اب وہ ایف ایم ریڈیوز یا تو بند کر دیے گئے ہیں یا پھر وہاں پر بھی موسیقی نشر نہیں کی جا رہی ہے اور صرف اسلامی تقاریر اور طالبان کے نغمے نشر کیے جا رہے ہیں۔

ان شہروں میں اب موسیقی اور گانے کسی بھی ریڈیو سے نشر نہیں ہو رہے، تاہم ابھی تک گاڑیوں میں طالبان نے پہلے کی طرح موسیقی کے خلاف کارروائیاں شروع نہیں کیں۔

یاد رہے کہ سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان میں طالبان کے دور میں موسیقی پر سخت پابندی عائد تھی اور ان کے اہلکار مسافر اور پرائیوٹ گاڑیوں میں موسیقی روکنے کے لیے سخت چیکنگ کیا کرتے تھے اور لوگوں کو سزائیں بھی دیتے تھے۔

اس وقت طالبان جن جن علاقوں پر کنٹرول حاصل کرتے رہے وہاں پر اُسی وقت ٹی وی، وی سی آر، آڈیو کیسیٹس اور ڈش انٹیناز کو آگ لگاتے رہے۔

ان شہروں کے باسیوں کے مطابق اب تک وہاں پر پہلے کی طرح داڑھی منڈوانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ صرف عوام خود داڑھیاں نہیں رکھ رہے بلکہ ان شہروں میں موجود ہیئر ڈریسرز کو بھی داڑھی شیو نہ کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے ہیں۔

قندھار کے ایک تاجر عزیزاللہ کے مطابق ’اس سے پہلے بھی آس پاس کے علاقوں میں جہاں کئی مہینوں سے طالبان کا کنٹرول تھا، ان کی جانب سے داڑھی سے متعلق کوئی پابندی نہیں تھی۔‘

خواتین

بازاروں سے خواتین غائب

طالبان کے زیرِ کنٹرول شہروں میں شہریوں کے مطابق ایک بڑی تبدیلی یہ نظر آ رہی ہے کہ بازاروں میں خواتین بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہیں تاہم کچھ شہروں میں پھر بھی پہلے کی نسبت انتہائی کم خواتین بازاروں میں نظر آ رہی ہیں۔

ہرات کے ایک شہری صالح کے مطابق خواتین بازاروں میں بہت ہی کم نظر آرہی ہیں اور ’وہ بھی برقعوں میں بازار کے لیے نکلتی ہیں۔‘

صالح بتاتے ہیں کہ ’اکثر بڑی عمر کی خواتین گھروں کے لیے سودا سلف خریدنے کے لیے نکلتی ہیں جبکہ نوجوان خواتین بازاروں میں نظر نہیں آ رہیں۔‘

نوے کی دہائی میں طالبان کے دور میں افغانستان کے شہروں میں خواتین کو اپنے گھروں سے بغیر محرم نکلنے پر سخت پابندی تھی اور اسی وجہ سے اب بھی طالبان کے زیر کنٹرول شہروں میں خواتین اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتی ہیں۔

اگرچہ طالبان میڈیا ونگ کی جانب سے ان شہروں میں معمولاتِ زندگی مکمل طور پر بحال ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں ’ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔‘

طالبان کے زیر کنٹرول بعض شہروں میں کچھ ذرائع یہ دعوے کر رہے ہیں کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے تاہم بعض جگہوں میں صرف چھٹی جماعت تک کی بچیوں کو سکول پڑھنے کی اجازت دی ہے اور اس سے بڑی عمر کی بچیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا ہے۔

تاہم طالبان کا دعویٰ ہے کہ ’شرعی اور افغان معاشرے میں قابل قبول لباس میں لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں جا سکتی ہیں‘ اور اُن کے مطابق اب بھی اُن کے زیر کنٹرول علاقوں میں سکولز اور کالجز کھلے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان افغانستان کے کن، کن حصوں پر قابض ہو چکے ہیں اور کہاں لڑائی جاری ہے؟

’طالبان کے شہر میں داخل ہوتے ہی میں نے قومی پرچم اُتار دیا، کتابیں اور ٹی وی چھپا دیے‘

افغان حکومت اور فوج کی کمزوریاں جو طالبان کی پے در پے فتوحات کی وجہ ہیں

افغانستان بچے

انتقامی کارروائیوں کا ڈر

طالبان کے زیر کنٹرول غزنی اور قندھار سے ایسی اطلاعات ہیں کہ وہاں طالبان جنگجووں نے اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور سرکاری ٹی وی آر ٹی اے پر نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں قندھار شہر میں مبینہ طور پر ایسی ہی ایک کارروائی میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔

آر ٹی اے کی اس ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جن افراد کی لاشیں سڑک کنارے اور مختلف جگہوں پر پڑی ہیں انھیں طالبان نے ان کے گھروں سے نکال کر انتقامی کارروائی میں ہلاک کیا ہے۔

اُدھر غزنی میں بھی بعض ذرائع نے بی بی سی اُردو کو بتایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے مقامی لشکر کے ساتھ کام کرنے والے کم از کم بیس افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق غزنی شہر کے یہ افراد طالبان کے خلاف عوامی لشکر، جسے پشتو میں ’اولسی پاسون‘ کہا جاتا تھا، کا حصہ تھے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ طالبان جنگجوؤں نے پہلے اس لشکر کے دو افراد کو گھروں سے نکال کر اُن سے کہا تھا کہ باقی لوگوں کے گھر کا پتہ بھی بتاؤ، جس پر اُن دو افراد نے 18 یا 20 افراد کے گھر کا پتہ بتایا تھا اور ان تمام افراد کو گذشتہ رات مبینہ طور پر طالبان نے ہلاک کیا تھا۔

خواتین

غزنی میں افغان حکام ہتھیار پھینکنے کے بعد کابل جا چکے ہیں اور اسی لیے اس واقعے پر میڈیا کے ساتھ کوئی بات نہیں کر رہے۔ تاہم طالبان نے اس واقعے کو اُن کے خلاف ’پروپیگنڈا‘ قراد دیا ہے۔

اس کے ساتھ کابل میں اور کئی دیگر شہروں میں موجود طالبان کے مخالفین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر طالبان آتے ہیں تو ’اُنھیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔‘

اگرچہ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اُن کے امیر اور سربراہ ملا ہیبت اللہ نے ایک پیغام میں ہتھیار پھینکنے والے اُن تمام مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے جو ماضی میں اُن کے خلاف تھے تاہم بیشتر طالبان مخالف اس پیغام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے آنے سے وہ ’انتقامی کارروائیاں‘ جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp