پاکستان میں گلابوں کی پیداوار کی صنعت: سُرخ گلابوں کا کھیتوں سے درگاہ تک کا سفر

شبینہ فراز - صحافی


سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

سُرخ پھولوں کی مہکتی چادر کو تینوں افراد نے بڑی عقیدت سے مزار پر ڈال دیا اور دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے۔ گلاب کی خُوشبو اور خوش رنگی نے نوشابہ کے اندر بھی پھول کھلا دیے تھے۔

وہ اولاد کی دعا مانگنے اپنے شوہر اور ساس کے ہمراہ یہاں آئی تھیں۔ دعا مانگنے کے بعد اب ان کے اندر پھولوں کی خوشبو کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی مہک رہا تھا کہ اُن کی دعا قبول ہو جائے گی اور عنقریب ان کی گود ہری ہو جائے گی۔

نوشابہ حیدرآباد سے اولاد کی منّت مانگنے کلفٹن کراچی میں واقع عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر آئی تھیں۔ نیچے دکان سے انھوں نے پھولوں کی چادر خریدی تھی۔ دکان پر بیٹھے باریش اور عمر رسیدہ شخص نے انھیں دُعا دیتے ہوئے چادر تھمائی اور بتایا کہ جس کی منّت ہے وہی چادر لے جاتا ہے۔

نوشابہ نہیں جانتی تھیں کہ چادر کے اُن پھولوں نے بھی اتنا ہی فاصلہ طے کیا ہے جتنا فاصلہ طے کر کے وہ حیدرآباد سے غازی کے مزار پر پہنچی تھیں۔

اگر آپ قومی شاہراہ پر حیدرآباد سے مٹیاری کی جانب سفر کریں تو دیسی گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو آپ کا دامن تھام لیتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ گاڑی سے اتر کر کچھ دیر کے لیے اس منظر اور مہکتی فضا کا حصہ نہ بنیں۔ یہ خوشبو حیدرآباد، مٹیاری اور ٹنڈو آدم کے اضلاع میں سرخ گلاب کے کھیتوں سے چہار سو پھیل رہی ہوتی ہے۔

کراچی سے رات تین بجے شروع ہونے والا ہمارا سفر ایسے کامیاب ٹھہرا کہ ہم ٹھیک وقت پرصبح چھ بجے مٹیاری کے کھیتوں میں پہنچ چکے تھے۔

دور دور تک ہرے بھرے درختوں پر لگے گلاب کے پھول ہوا میں یوں جھوم رہے تھے گویا پریاں سرخ لبادے لہرا رہی ہوں اور رنگ باتیں کر رہے ہوں۔

اس سے پہلے کہ ہم بھول ہی جاتے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں، کھیتوں میں بڑھتی چہل پہل نے ہمیں چونکا دیا۔

گلاب کے پھول سورج نکلنے سے بہت پہلے درخت سے توڑ لیے جاتے ہیں کیونکہ گرمی سے ان کی تازگی متاثر ہوتی ہے۔ کھیتوں میں چاروں جانب خواتین اور بچیاں پھول توڑنے میں مصروف تھیں۔ کپاس کی فصل کی طرح کم از کم صوبہ سندھ کی حد تک پھول بھی کھیتوں سے خواتین اور بچیاں ہی چُنتی ہیں۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

پاکستان کی زراعت میں گلاب کے پھولوں کی پیداوار

ایگری کلچر ریسرچ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نور محمد بلوچ کے مطابق پاکستان کی زراعت میں گلاب کے پھولوں کی پیداوار کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اگر صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو گلاب حیدرآباد، مٹیاری، ھٹڑی، راہوکی پتوکی اور سانگھڑ کے اضلاع میں ہوتا ہے۔

ان پانچ اضلاع میں تقریباً دس ہزار ایکڑ کے وسیع رقبے پر دیسی گلاب کاشت کیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق فی ایکڑ لگ بھگ 7,280 کلوگرام سالانہ گلاب کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ڈائریکٹر فلوریکلچر اشفاق احمد میمن کے مطابق پانچوں اضلاع سے تقریباً 220 ٹن گلاب کے پھول ایکسپورٹ کیے جاتے ہپں جو مکمل پیداوار کا تقریبا 40 فیصد بنتا ہے۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

تقریباً 10 ہزار خاندان اس کاروبار سے وابستہ ہیں جن میں کسان، زرعی مزدور، ٹرانسپورٹر، ہول سیلر، ریٹیلر اور ایکسپورٹر شامل ہیں۔

پھول چُنتی خواتین

سندھ میں گلاب کے پھولوں کی کاشت سے ہزاروں خواتین اور بچیوں کی زندگی جڑی ہے جو ان کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔

اشفاق میمن کے مطابق گلاب کے کھیتوں میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق گوٹھ ظہیر بروچی، وانکی واسی اورگوٹھ غلام محمد وغیرہ سے ہے۔

ایسی ہی ایک خاتون 30 سالہ حکیماں ہیں جو چھ بچوں کی ماں ہیں اور قریبی گاﺅں کی رہائشی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اُن کے گاﺅں کے تمام لوگ ہی کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور انھیں پھول توڑنے کا معاوضہ 45 روپے فی کلو ملتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دن میں وہ اور ان کی دو بیٹیاں مجموعی طور پر 20 کلو کے قریب پھول توڑ لیتی ہیں۔

حکیماں اور ان کی بیٹیوں کے تیزی سے چلتے ہاتھ بتا رہے تھے کہ وہ اس کام میں ماہر ہیں۔ پھول جمع کرنے کے لیے یہ خواتین اپنے بڑے سے دوپٹوں کی ایک سائیڈ میں تھیلا سا بنا لیتی ہیں۔ ان خواتین میں سے اکثر کے شوہر بطور لیبر پھولوں ہی کے کام سے وابستہ ہیں۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

سنہ 2020 میں لگنے والے لاک ڈاؤن میں درگاہیں، دکانیں اور شادی ہال بند ہوگئے، ایکسپورٹ رک گئی جس کے باعث پھولوں کا کھیت سے مارکیٹ تک کا سفرگویا ٹھہر سا گیا۔

اس کاروبار سے وابستہ لوگ جو پہلے ہی غریب تھے، غریب تر ہو گئے۔

حکیماں کہتی ہیں کہ ’پیسے والے تو ہم پہلے بھی نہیں تھے مگر تین وقت روٹی مل جاتی تھی مگر کورونا بیماری نے ہمارے فاقے کروا دیے۔ گاؤں والے سب ایک دوسرے سے ادھار مانگ رہے تھے مگر سب غریب ہیں کسی کے پلے کچھ ہوتا تو وہ مدد کرتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کھانوں میں پھولوں کا استعمال

زعفران: یونان کا ’سرخ سونا‘ تصاویر میں

کچھ پھول ’گر کر کیسے سنبھلتے ہیں‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میرا شوہر بہت سی جگہ کام کی تلاش میں گیا مگر ہر جگہ کام بند تھا، کہیں مزدوری نہیں ملی۔‘

حکومتی امداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی البتہ کچھ لوگ ضرور دو تین بار راشن دے گئے تھے جس سے سانس کی ڈوری بندھی رہی ’ورنہ کورونا ہمیں مارتا یا نہیں بھوک سے ضرور مر جاتے۔‘

ڈائریکٹر فلوریکلچر اشفاق میمن حکیماں کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ کووڈ کی وجہ سے تین ماہ لاک ڈاؤن کی سختی میں 70 فیصد تک نقصان ہوا۔ یہ نقصان صرف مزدوروں کا نہیں ہوا بلکہ گلاب کی پوری ویلیو چین سے وابستہ لوگوں کا ہوا۔

نقصان سے بچنے کے لیے زمین داروں نے پھولوں کو دھوپ میں خشک کر کے فروخت کیا مگر قیمت اچھی نہیں ملی۔

گلاب: کھیت سے مارکیٹ تک

خواتین اور بچیاں جو پھول چنتی ہیں، مرد ان پھولوں کوتنکوں کی ٹوکریوں میں بھر کر کانٹے تک لاتے ہیں جو کھیتوں کے قریب ہی لگا ہوتاہے، وہاں انھیں تولا جاتا ہے۔

ہر ٹوکری میں دس کلو پھول رکھے جاتے ہیں، پھولوں کے وزن کے بعد انھیں بڑی بڑی بالٹیوں میں رکھا جاتا ہے، جس میں ٹھنڈا پانی اور برف کے بڑے بڑے ٹکڑے ڈالے جاتے ہیں تاکہ پھول دیر تک تر و تازہ رہیں۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

اس کے بعد ان بالٹیوں کو ٹرک میں رکھ کر کراچی، حیدرآباد اور ملک کے دیگر شہروں کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔ زیادہ پھول کراچی میں سپلائی ہوتے ہیں۔

حکیماں کے مطابق گلاب کے پھولوں کو چننے کا عمل عموماً پانچ بجے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چُنائی دو سے تین گھنٹے میں مکمل ہو جاتی ہے۔ ویسے تو گلاب کا درخت سارا سال فصل دیتا ہے اور کھیتوں میں سارا سال پھول کھلے ہوتے ہیں لیکن جون، جولائی میں اس میں کچھ کمی آ جاتی ہے۔

گلاب کا سفر

تمام پھولوں میں گلاب ہی وہ واحد پھول ہے جو مذہبی سرگرمیوں میں زیادہ تر استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے درگاہ پر چادر چڑھانی ہو، قبروں پر پھول بکھیرنا ہو، عمرہ حج سے لوٹے زائرین کو ہار پہنانا ہو، یا شادیوں کی سجاوٹ ہو، ہر جگہ سرخ گلاب ہی نظر آتا ہے۔

پاکستان کے اندر گلاب کی کھپت سب سے زیادہ درگاہوں پر ہے۔

محمد کبیر، جو مٹیاری کے کھیتوں سے گلاب درگاہوں تک سپلائی کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ‘صرف عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر موجود تین بڑی دکانوں پر روزانہ 15 سو کلو سے زیادہ پھولوں کی کھپت ہے۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

’بڑے پھولوں سے چادریں اور ہار بنا لیے جاتے ہیں جبکہ باقی بچی ہوئی پتیاں بھی بک جاتی ہیں۔ پھولوں کی ایک بڑی چادر 1500 تک میں تیار ہوتی جبکہ چھوٹی چادروں کی قیمت کم ہوتی ہے۔‘

تین ہٹی کے ایک اور ہول سیلر نے بتایا کہ کورونا سے پہلے جتنا بھی مال آتا تھا وہ درگاہ خصوصاً عبداللہ شاہ عازی کی درگاہ پر فروخت ہو جاتا تھا۔

’اچھا پھول 200 روپے اور ہلکا پھول 100روپے کلو بک جاتا ہے۔ پھر عید، بقرعید، شب برات پر پھولوں کی خریدو فروخت دگنی ہو جاتی تھی۔ اللہ کا بہت کرم تھا۔ لیکن درگاہوں اور دکانوں کی بندش نے سب تباہ کر دیا۔ اب درگاہیں کھل تو گئی ہیں لیکن لوگ کم آ رہے ہیں تو ظاہر ہے پھول بھی کم بک رہے ہیں۔ یہ ایسا مال ہے جسے زیادہ دن تک سٹور نہیں کر سکتے، خراب ہو جاتا ہے۔‘

کاشت کاروں کے مسائل

گلاب کا پودا کئی سال تک فصل دیتا رہتا ہے۔ اسے ایک خاص بڑھوتری کے بعد تراش دیا جاتا ہے اور چالیس دن بعد یہ پودا پھر سے پھول دینے لگتا ہے۔ صوبہ سندھ کا گلاب اپنی خوشبو اور تراوٹ کے باعث دنیا بھر میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

سُرخ گلابوں کا درخت سے درگاہ تک کا سفر

دنیا بھر میں پاکستان سے ایکسپورٹ کیے ہوئے گلاب کے پھول کاسمٹکس انڈسٹری خصوصاً پرفیوم کا اہم جزو ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

زمیں دار محمد سلیمان کے مطابق گلاب کے پھولوں سے بنا خالص روز آئل سات لاکھ روپے لیٹر تک میں فروخت ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسی مشینری دستیاب نہیں ہے جو اس پر کام کرے۔ ’نہ حکومت کوئی مراعات یا ٹیکس پر چھوٹ دیتی کہ ہم ہمت کر کے یہ مشینری منگوا لیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹا کاروبار نہیں ہے، گلاب کے پھولوں کو درخت سے توڑنے سے لے کر درگاہوں تک پہنچانے اور ایکسپورٹ کے لیے اسے سکھانے تک ہزاروں افراد کی روزی اس سے وابستہ ہے۔

مزید پڑھیے

گلابوں میں پوشیدہ کچھ راز افشا

نو حیران کن چیزیں جو چاندی سے بھی مہنگی ہیں

پاکستانی کاشتکار زیتون کو ’خاموش سبز انقلاب‘ کیوں قرار دیتے ہیں؟

زیتون کے درختوں کو لگنے والی بیماری سے ’اربوں کا نقصان ہو سکتا ہے‘

زمیں دار امداد حسین نے بتایا کہ ’کورونا سے پہلے تمام خرچے نکال کر ایک ایکڑ پر ایک لاکھ تک کا منافع ہو جاتا تھا۔ حکومت سے ہمیں کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ملتی۔ ہم چھوٹے زمیں دار خود ایکسپورٹ نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے حکومت کے سخت قواعد و ضوابط ہیں۔‘

’ہم بھی مجبور ہیں، مال رکھ نہیں سکتے، یہاں مٹیاری میں کولڈ سٹوریج نہیں ہے لہذا پھولوں کے خراب ہونے کا ڈر لگا ہوتا ہے۔ اگر حکومت تعاون کرے، قوانین آسان کرے اور کولڈ سٹوریج مہیا کرے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp