افغانستان میں پھنسے پاکستانی: کابل کے ایئرپورٹ پر کم از کم 30 پاکستانی فلائٹس کے منتظر

محمد زبیر خان - صحافی


فائل فوٹو

کابل ایئرپورٹ کی فائل فوٹو

جنگ زدہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس وقت کئی پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان پاکستانیوں میں خواتین، مرد، بچے اور بوڑھے سب شامل ہیں۔ ان میں ایسی پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں جن کی شادیاں افغانیوں سے ہوئی ہیں اور ان کے کم عمر بچے بھی ہیں۔

دارالحکومت کابل میں مقیم ایک پاکستانی خاتون کی سنچیر کے روز ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی۔ جس میں خاتون نے حکومت پاکستان سے اپیل کی تھی کہ انہیں اور ان کے ساتھ موجود دیگر پاکستانوں کو کابل سے نکلنے میں مدد فراہم کی جائے۔

خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وڈیو وائرل ہونے کے بعد ان سے پاکستانی سفارت خانے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ ٹکٹ خرید لیں اور پاکستان واپس پہنچ جائیں۔

جس پر ان خاتون کا کہنا تھا ’میرے خاوند کا تو پاکستانی ویزہ لگا ہوا ہے مگر میرے چار سالہ بیٹے کے سفری دستیاوزات نہیں ہیں۔ بیٹے کے بغیر مر جاؤں گی، اسے کابل میں نہیں چھوڑ سکتی ہوں۔‘

خاتون کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفارت خانے نے ان سے کہا کہ وہ اتوار کے روز سفارت خانے پہنچ جائیں جہاں پر ان کی ممکنہ حد تک مدد کی جائے گئی۔ ‘سفارت خانے پہچنے کے بعد مجھے فوٹو سٹیٹ کے لیے سفارت خانے سے باہر بھیجا گیا ہے۔ اب میں انتطار کررہی ہوں کہ کب مجھے میرے بیٹے کے سفری دستیاوزات ملیں اور ہم پاکستان کی جانب سفر کرنے کی کوشش کرسکیں۔’

خاتون کے مطابق وہ ایسی کئی پاکستانی خواتین کو جانتی ہیں جن کی شادیاں افغانستان میں ہوئی ہیں۔ ان خواتین کو اپنے بچوں کے سفری دستیاوزات کے حصول میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ کابل میں رہنے والی خواتین تو کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں مارہی ہیں مگر دیگر صوبوں میں رہنے والی خواتین کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں اور ان کے بچوں کا کیا ہوگا۔

پاکستانی سفارت خانے میں اس وقت کئی ایسی مائیں موجود ہیں جن کے والد افغانی ہیں اور وہ اپنے بچوں کے لیے سفری دستاویزات چاہ رہی ہیں۔ ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفر کرتے ہوئے کبھی بھی بچوں کے دستاویزات کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف سے دورانِ سفر ماں باپ کے ساتھ سفر کرنے والے بچوں کے دستاوزات کے بارے میں جانچ پڑتال نہیں ہوتی تھی۔

کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے ہیڈ آف چانسلری سرفراز خان کے مطابق قوانین کے مطابق پاکستانی خواتین کی ہر ممکنہ مدد کی جائے گئی۔ پاکستانی خواتین کے بچے سفری دستیاوزات کے حق دار ہیں۔ ان کو یہ دستاویزات فراہم کی جائیں گئیں۔

کابل ایئرپورٹ

کابل ایئرپورٹ

ایئر پورٹ پر پھنسے ہوئے پاکستانی

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والے اور کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے والے استاد کا کہنا تھا کہ ‘کچھ پاکستانیوں کی وائرل وڈیوز پر پاکستانی سفارت خانہ حرکت میں آیا ہے اور اس نے ہمیں سنیچر کی شام پیغام بھجوایا کہ ہم کابل کے پی آئی اے کے ایک دفتر میں پہنچ جائیں جہاں پر ہمیں پاکستان جانے کے لیے ٹکٹ مل جائے گا۔

’ہم لوگ جب اتوار کی صبح پی آئی اے کے دفتر پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ سفارت خانے کے دستخط کے بغیر ٹکٹ نہیں مل سکتے ہیں۔ سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا گیا تو کہا گیا کہ ہم ایئر پورٹ پر پہنچ جائیں سارے معاملات ایئر پورٹ پر طے ہوجائیں گے۔‘

’مگر صبح سے لے کر اب تک ہم ایئر پورٹ پر موجود ہیں۔ صبح سے دوپہر تک پی آئی اے کی دو پروازیں پاکستان جاچکی ہیں۔ ان میں وہ ہی لوگ سفر کرسکے ہیں جنھوں نے پہلے سے ٹکٹ خرید رکھے تھے۔ اس صورتحال پر جب ہم لوگوں نے سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا تو بتایا گیا کہ پروازوں میں جگہ ہوئی تو باقی لوگوں کو ایڈجسٹ کیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت کم از کم ایئر پورٹ پر 30 پاکستانی ہمارے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ جن کو کچھ پتا نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ یہ پاکستان جا بھی سکیں گے کہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم سے سب کچھ لے لو مگر اس سے پہلے کہ طالبان کابل میں داخل ہوں ہمیں اپنے ملک پہنچا دو۔‘

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے خوف اور ’ممکنہ موت‘ سے بچ کر کابل نقل مکانی کرنے والے افغان شہری

’کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘

طالبان افغانستان کے کن، کن حصوں پر قابض ہو چکے ہیں اور کہاں لڑائی جاری ہے؟

کابل میں موجود ایک اور پاکستانی کے مطابق وہ گذشتہ کئی دونوں سے ٹکٹ کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ٹکٹ نہیں مل رہے ہیں۔ ’میرے ساتھ میرا پورا خاندان ہے۔ کابل میں لمحہ بہ لمحہ صورتحال نازک ہوتی جارہی ہے۔ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ فی الفور اضافی فلائٹس چلائیں۔‘

سرفراز خان کے مطابق تمام پاکستانیوں کو نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایئر پورٹ پر موجود پاکستانی پھنسے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے فلائیٹس کا انتظام کیا جارہا ہے۔

جلال آباد میں طالبان

جلال آباد میں طالبان

چمن اور تورخم بارڈر بھی نہیں پہنچ سکتے

جلال آباد میں موجود ایک پاکستانی خاتون جو کہ وہاں کے ایک نجی سکول میں خدمات انجام دے رہی تھیں کا کہنا ہے کہ ‘میں گذشتہ کئی دونوں سے کوشش کررہی ہوں کہ کسی طرح سڑک کے راستے تورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے سے ہی پاکستان پہنچ جاؤں مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔’

اس وقت طالبان جلال آباد کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ ‘میری اطلاعات کے مطابق جلال آباد کی انتظامیہ نے ایک بھی گولی فائر کیے بغیر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ہم لوگوں نے ایک گولی کی آواز بھی نہیں سنی ہے۔‘

‘میں اس وقت اپنی رہائش گاہ سے باہر نہیں نکل سکتی ہوں۔ میرے ساتھ کئی اور پاکستانی بھی موجود ہیں۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا ہوگا اور ہم کیا کریں گے۔ ہم لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں۔’

میں ایسے کئی پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صوبہ لوگر کے پلی عالم میں پولٹری کے کاروبار سے منسلک پاکستانی تاجر کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں بتایا جارہا ہے کہ تورخم بارڈر بند ہوچکا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ روڈ سے پاکستان جانے کی کوشش کی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ پاکستانی سفارت خانے سے بھی کئی مرتبہ رابطہ قائم کیا ہے۔ مگر ابھی تک مدد نہیں ملی ہے۔’

پاکستانی سفارت خانے کے ہیڈ آف چانسلری سرفراز خان کے مطابق وہ اپنے فرائض ادا کررہے ہیں اور افغانستان میں موجود تمام پاکستانیوں کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ بحال ہے اور ہمیں پتا ہے کہ کتنے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔

تاہم انھوں نے یہ تعداد بتانے سے گریز کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp