دو ہی کیوں؟


ڈاکٹر عاصم بخشی کی حال ہی میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہونے والی کتاب ”دبدھا“ کا پہلا باب پیش خدمت ہے۔ کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز کی ویب گاہ کے درج ذیل لنک کے ذریعے آرڈر کیا جاسکتا ہے :

***             ***

فرض کیجیے آپ اپنے بہترین دوست کے ساتھ شہر میں کھلنے والے ایک نئے کافی ہاؤس میں موجود ہیں۔ کافی کی مختلف اقسام کا رسیا ہونے کے باعث آپ دونوں اپنی حس ذائقہ پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ شہر میں کسی بھی نئے کافی ہاؤس کی سوغات پر مدلل رائے دینا آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ حتمی نتیجے پر پہنچنا آپ دونوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ دلیلوں کے انبار ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں۔ ذائقے کے پیچیدہ خاکوں، واضح حسی تاثرات، اور مبہم ملے جلے احساسات کو بھی ایک دوسرے کے مقابل لایا جاتا ہے۔

آپ دونوں کے درمیان اختلاف معمول کی بات ہے۔ لیکن شدید ترین اختلاف کی صورت میں بھی بالآخر کوئی ایک دوسرے کو قائل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ عام طور پر پہلی دو چار چسکیوں پر فوری اور شدید رائے سامنے آتی ہے۔ مزید دو چار چسکیوں کے بعد کبھی تو رائے کافی تبدیل ہوتی اور کبھی دو انتہاؤں کے درمیان ڈولتے ہوئے معلق ہو جاتی ہے۔ اس معلق غیر شعوری مقام کا واضح تعین اس وقت تک مشکل ہوتا ہے جب تک دوسرے کی رائے صریحاً ظاہر نہیں ہوتی۔ با الفاظ دیگر خود پر اپنی رائے کا ابہام اس وقت تک واضح نہیں ہوتا جب تک دوسرے کی رائے سامنے نہیں آجاتی۔ نتیجہ ہمیشہ تصفیے کی صورت میں ہی ہوتا ہے اور دونوں میں سے ایک رائے کی فوقیت اور صحت پر اتفاق ہو جاتا ہے۔

لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے!

یکے بعد دیگرے تین چار کپ اور مسلسل بحث کے بعد بھی آپ کا دوست مصر ہے کہ کافی حد درجہ بدمزہ ہے۔ اس کے برعکس آپ کی رائے ہے کہ ذائقہ بہترین ہے۔ دونوں اپنی انتہائی آراء سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ تمام دلائل آزمائے جا چکے ہیں اور استدلال کا امکانی دائرہ سکڑ کر نقطے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو نہ صرف اچھے برے ذائقے بلکہ خود ذائقے کی کسی معروضی تعریف کے بارے میں شدید ابہام واضح کر چکی ہے۔ منطقی تناظر میں فریقین کے دلائل سقم سے مکمل طور پر پاک ہیں۔ مسلسل بحث کے بعد حتمی درجے میں یہ حقیقت تسلیم کی جا چکی ہے کہ اپنے مخصوص استدلال کی حد تک دونوں قسم کے نتائج عقلی اعتبار سے اپنی اپنی جگہ اٹل ہیں۔ لہٰذا اب رائے میں تبدیلی بعید از امکان ہے۔

یہ پس منظر اختلاف کی ماہیت پر دلچسپ قیاس آرائی کی دعوت دیتا ہے۔ کوئی واضح منطقی غلطی معلوم نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ اب بدیہی مفروضوں پر مزید تحقیق کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم رسمی تجزیے کی مدد سے اس گتھی کو سلجھانا چاہیں تو دونوں فریقین کو طرز فکر کی مختلف روایات یعنی کچھ معروف اصطلاحی خانوں میں رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ آپ چاہیں تو انہیں ذہنی میلانات بھی کہہ سکتے ہیں۔ دو ایسے میلانات عینیت پسندی اور حقیقت پسندی ہیں۔ آئیے ان کی مدد سے ایک خاکہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر پہلے کسی موقع پر نوش کی گئی کافی کے دل و دماغ پر مسلسل حاوی ذائقے کو نقطۂ آغاز کے طور پیش قیاس کرنا آپ کی نفسیاتی مجبوری، آپ کا ذہنی یا قلبی جھکاؤ یعنی آپ کے وجودی خد و خال کا اٹوٹ انگ ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک عینیت پسند ہیں۔ آپ کے لیے یہ ذائقہ وہ معیاری مثال ہے جس پر آپ بعد میں چکھے گئے ہر ملتے جلتے ذائقے کو پرکھیں گے۔ اس کے برعکس اگر تخیل میں بسے کسی مثالی معیار کو اپنا آدرش ماننے کی بجائے آپ اپنے ہاتھ میں موجود کافی کے ذائقے کی کمی بیشی پر تنقیدی غور و فکر سے آغاز کریں گے تو آپ ایک حقیقت پسند ہیں۔

آپ عینیت پسند ہیں تو کافی پیتے ہوئے تخیل کے مثالی ذائقے میں بدستور گرفتار رہیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ایک کے بعد ایک گھونٹ آپ کی مایوسی میں اضافہ کرے، آپ بدذائقہ انتہا کی جانب ڈولتے ہوئے خود کو اس مثالی معیار سے دور سے دور ہوتا محسوس کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی ہی چسکی آپ کو معیار پر پوری اترتی محسوس ہو اور آپ دل ہی دل میں خوش ذائقہ انتہا کے حق میں فیصلہ کر ڈالیں۔ اس کے برعکس حقیقت پسندی آپ کو ہر گھونٹ سے حظ اٹھانے اور اپنا فیصلہ بار بار تبدیل کرتے ہوئے محکم یا کوئی ڈھل مل سی رائے قائم کرنے پر اکسائے گی۔

آپ عینیت پسند ہیں تو تشکیک آمیز سمجھوتے سے گریز کریں گے، حقیقت پسند ہیں تو نہ صرف سمجھوتہ کریں گے بلکہ سامنے موجود عینیت پسند کو بھی اس کی ترغیب دیں گے۔ بعید از امکان نہیں کہ یہ حقیقت پسندی ہی کھینچ کر آپ کو کسی انتہائی رائے کی جانب لے جائے، کون جانے آپ سامنے والے کی عینیت پسندی سے ہار مان کر نفسیاتی طور پر خود کو متضاد انتہا پر مستحکم محسوس کریں!

کیا اس سادہ سی دو جہتی تفریق کی بنیاد پر بنا گیا یہ خاکہ کافی ہے؟

باآسانی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ خوش ذائقہ اور بدذائقہ ہونے کا یہ سوال ایک واقعاتی نوعیت کا سوال ہے کیوں کہ زیر بحث حقیقت امر واقع ہے۔ لیکن فرض کیجیے آپ ذائقے کے اچھا برا ہونے کی اس مسلسل بحث سے تنگ آ چکے ہوں اور آپ کے ذہن میں آج کچھ مختلف سوالات سر اٹھا رہے ہوں! ممکن ہے آپ اپنے دوست سے یہ پوچھ بیٹھیں کہ کافی کا لذیذ یا بدمزہ ہونا اس حوالے سے کیوں کر اہم ہے کہ ایک انتہا پر رائے قائم کی جائے؟ کیا لازمی اختلاف کی صورت میں فیصلے کو مؤخر کرنا ممکن ہے یا اس قسم کی ٹال مٹول ہمارے مستقبل کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے؟

ذائقے کی موضوعیت پر کس قسم کے سمجھوتے ممکن ہیں؟ تصور ذائقہ کی تہیں اتارتے چلے جائیں تو ایک معروضی تعریف تک پہنچنے کے امکانات کیا ہیں؟ سمجھوتوں کی شرائط کیا ہو سکتی ہیں؟ دونوں انتہاؤں کے درمیان کسی مستقل بامعنی مقام کی تلاش کے امکانات کیا ہیں؟ ذائقے اور انسانی حسیات کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا یہاں شامل متغیرات صرف زبان سے متعلق ہیں یا ساخت و بافت، خوشبو اور من جملہ اجزاء کی بنت کاری بھی اس میں شامل ہے؟ انسانی ذہن ان تمام حسی متغیرات کو کیسے پروسث کرتا اور حتمی فیصلے تک کیسے پہنچتا ہے؟ حسی اعتبارات کے علاوہ دوسرے میلانات کا عمل دخل کس قسم کا ہے؟

اس قسم کے تمام تجزیاتی سوالات بھی کسی نہ کسی سطح پر ہمارے واقعاتی خاکے میں شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ سوالات انسانی فکر کے جس دائرے سے تعلق رکھتے ہیں وہ امر واقع سے ماورا ایک خالص تجریدی منطقہ ہے۔ تجریدی سوالات اگر علمیاتی تناظر میں ہوں تو جوابات کی تہوں میں موجود مفروضے کسی مخصوص نظریۂ علم سے وابستگی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ چونکہ دنیا کے تمام انسان واقعاتی دائرے میں ہر لمحہ قضایا قائم کرنے اور ان سے برآمد ہوتے نتائج کی روشنی میں عمل کرنے پر مجبور ہیں، لہٰذا عقل عامہ امر واقع تک محدود رہتی ہے۔

یہ عقل کا تجریدی منطقہ ہے جو عقل عامہ سے اوپر اٹھ کر استدلال کی ماہیت اور علمیاتی وابستگیوں پر نظر ڈالتا اور تعریفات و مفروضات پر مشتمل تجریدی اظہار کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مجرد تشکیلات واقعاتی دنیا پر بالواسطہ اثرانداز ہو رہی ہوتی ہیں۔ امر واقع فوری رائے کا تقاضا کرتا ہے تو عقل کے پیش نظر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک کے فوری چناؤ کی بجائے رائے کا التوا بھی ایک تیسری موزوں ترجیح ہوتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ دو ممکنہ ترجیحات کے بیچ پھیلے اس وسیع و عریض مبہم علاقے کے خد و خال واضح ہوتے ہیں جو تاحال عقل عامہ کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔ خودکلامی پر مشتمل اس کتاب کا بنیادی مقصد اس متذبذب علاقے کی سیرو سیاحت ہے۔

یہاں دو وضاحتیں ناگزیر ہیں۔ اولاً رائے کو مؤخر کرنے کے معنی ہرگز اس رجحان کی اصولی تعظیم نہیں جسے اہل فلسفہ اپنے رسمی تناظر میں اضافیت پسندی کہتے ہیں۔ تعظیم کے معنی یہ ہیں کہ اصولی طور پر یہ مان لیا جائے کہ کافی کے خوش ذائقہ یا بدذائقہ ہونے کا سوال چکھنے والی زبان پر منحصر ہے اور حتمیت سے کسی ایک معروضی نتیجے پر پہنچنا خارج از امکان ہے۔ بادیٔ النظر، یہ ایک معقول زاویۂ نگاہ ہے جس کی بنیاد سمجھوتے کے اصول پر ہے لیکن بغور دیکھنے پر کچھ لاینحل مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

پہلا مسئلہ علمیاتی تناظر کا ہے۔ دیکھیے بالفرض مان لیا جائے کہ ذائقے کی کوئی معروضی تعریف ممکن نہیں تو پھر آخری درجے میں خوش ذائقہ اور بدذائقہ جیسے تمام الفاظ ہی بے معنی ٹھہرتے ہیں۔ ایسے میں مفید تعریفات کہاں سے اور کیوں کر اخذ کی جائیں؟ آخر قہوے، چائے اور کافی، اور پھر اچھی یا بری کافی میں فرق کے لیے وہ منطقی ہئیتیں کہاں سے حاصل کی جائیں جو محکم بنیادوں پر امتیاز کر سکیں؟ اب چونکہ یہ امتیازات وسیع پیمانے پر معروف و معلوم مانے جاتے ہیں لہٰذا یہ جاننا مشکل نہیں کہ یہاں کسی نہ کسی طور معروضی حقائق کو لازماً تسلیم بھی کیا جا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معروضی حقائق کیوں کر اٹل ہیں؟

دوم، ایک طرف اضافیت پسندی موضوعیت کو ایک اٹل بدیہی مفروضہ مان کر کل حقیقت اور اس کی تمام ممکنہ جہتوں سے متعلق منطقی ہئیتوں کا حتمیت کا انکار کرتی ہے، دوسری طرف اس انکار محض کو ایک معروضی سچائی بھی مانتی ہے۔ یہ الجھن اضافیت پسندی کو ایک ایسے فکری پڑاؤ کے طور پر سامنے لاتی ہے جہاں آخری درجے میں سچائی کی تلاش ہی ایک غیر معقول قدر ٹھہرتی ہے۔ لہٰذا حقیقت کے بارے میں کسی بھی دعوے کو ماننے کی کوئی حتمی کسوٹی باقی نہیں رہتی۔ اضافیت پسندی کے تحت سچائی کسی ایسی قدر کے طور پر سامنے نہیں آتی جو تلاش و جستجو کا نتیجہ ہو بلکہ جبر و اختیار کا معاملہ بن کر رہ جاتی ہے۔ نتیجتاً صرف اور صرف طاقت ہی اس الجھن کو جزوقتی طور پر سلجھا سکتی ہے۔

ان دونوں الجھنوں کے باوجود جس حد تک کسی بھی پیش نظر امر واقع سے متعلقہ حقیقت کی وجودی جہت کا سوال ہے، اضافیت پسندی کو پہلے دو عمومی خانوں یعنی عینیت پسندی اور حقیقت پسندی سے ممیز کرنا لازم ہے۔ یہ امتیازی سرحد باآسانی نگاہوں میں نہیں آتی اور تجریدی دھندلکوں میں غائب ہو جاتی ہے۔ ہاں قیاس آرائی ضرور ممکن ہے۔

دراصل اضافیت پسندی کے برعکس حقیقت پسندی انسانی شعور کے خارج میں معروضی حقیقت کی موجودگی پر اصرار کرتے ہوئے موضوع اور معروض کی اٹل دوئی پر اصرار کرتی ہے۔ عینیت پسندی کے ہاں یہی صورت معکوس ہو جاتی ہے اور اصل حقیقت اتنی گہرائی میں چلی جاتی ہے کہ شعوری بڑبڑاہٹ یا خودکلامی سے آگے بڑھ کر حقیقت کے کسی مزید بامعنی خاکے پر اصرار ممکن نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت پسند یا عینیت پسند فکر ہر اس ذہنی روش کو اضافیت پسندی کہہ کراس کا ٹھٹا اڑاتی ہے جو ٹھٹک کر سچائی پر اصرار سے ایک قدم پیچھے ٹھہر جائے۔

ٹال مٹول کرتی اضافیت پسندی کی الجھن ہے ہی اتنی ہیبت ناک کہ اصولی طور پر کوئی بھی اس دلدل میں پاؤں نہیں رکھنا چاہتا۔ فی زمانہ یہ دلیری صرف اور صرف نتائجیت پسندی کے حصے ہی میں آئی ہے۔ لیکن نتائجیت پسندی اس اشکال کو حل کرنے کی بجائے اس منطقی نظام ہی کو تبدیل کر دینے کا تقاضا کرتی ہے جس کے تحت یہ اشکال پیدا ہوتا ہے۔ وہ باور کراتی ہے کہ کائنات کو ایک اٹل ساخت تصور کرنے اور سچائی کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کی قدیم کوششیں دراصل اس وجدانی مفروضے پر استوار ہیں کہ انسانی فکر کے منطقی سانچے صورت مائع نہیں بلکہ ٹھوس ہیں، شعوری رو ایک غیر منقسم سیال مادہ نہیں بلکہ علیحدہ علیحدہ نقطوں میں بٹی ہے۔

اگر اس ارسطاطالیسی تناظر سے جنم لینے والی حتمی ناگزیریت کو باطل تسلیم کر لیا جائے جو قطبین پر موجود دو متضاد قضایا کے درمیان کسی فکری پڑاؤ کو لازماً ناممکن گردانتی ہے تو خود بخود اضافیت پسندی کا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ آخر کار یہ ناگزیریت ہی تو ہے جو اضافیت پسندی کو منطقی طور پر خارج از امکان قرار دینے کی بنیادی وجہ ہے۔ نتائجیت پسندی کی دوسری منفرد شکل وہ بھی ہے جو اضافیت پسندی کو خلاف واقعہ مانتی ہے۔ یہ روش عملیت پسند ہے، بحث کا رخ علمیات کی بجائے سیاسی و ثقافتی مظاہر کی جانب موڑ تی ہے اور فکر کو عمل تک محدود کر دیتی ہے۔

ان مروجہ فکری دھڑے بندیوں کے پس منظر میں یہ کتاب ایک گمشدہ سقراطی تناظر کی بازیافت کی کوشش ہے۔ یہ وہ میلان تفلسف ہے جس کی رو سے فلسفے کا اہم ترین مقصد اٹل حقیقت پر مدلل اصرار نہیں بلکہ حقیقت کے بارے میں مختلف طریقوں سے سوالات اٹھاتے رہنے کی کوشش ہے۔

دوسری وضاحت یہ ہے کہ عام سماجی تاثر کے برعکس قیام رائے میں التوا کے معنی ہرگز ابہام کو کوئی مثبت قدر ماننے یا سوفسطائی سخن سازی کے نہیں۔ بلکہ اس تجویز کا مطلب صرف ثنویت پسندی کی جگہ کثیر جہتی، دو انتہاؤں کی بجائے دونوں میں کسی نسبت کی تلاش اور اپنے خارج میں شدید اصرار کی بجائے داخلی وضوح کی ترجیح ہے۔ ارسطاطالیسی منطق کے ظہور کے بعد کئی صدیوں تک یہی مانا جاتا رہا کہ اس نظام میں تمام تر استدلالی رویوں پر صحت و سقم، لزوم و امکان اور ضبط و ضعف کے حتمی حکم لگانے کی قابلیت ہے۔

کانٹ کا یہ مشہور قول کہ ارسطو کی منطق میں دو ہزار سال سے مزید کچھ نیا اضافہ نہیں ہو سکا، ارسطاطالیسی منطق پر اٹھارہویں صدی کے اعتماد کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ لیکن پچھلی دو صدیوں میں یہ منظرنامہ کئی اساسی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے اردگرد تازہ مسائل اور منفرد آدرشوں کے ساتھ نمودار ہونے والی نئی دنیا کے جدید چیلنج ہیں۔ جدیدیت کی وکالت یا اس کی تنقید پر مبنی مطالعے اپنی ثنویت پسند جکڑ بندی کے باعث تجزیے کے عمل پر نظر ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں جس میں بدلتی دنیا کے ساتھ ایک ناگزیر ارتقا ہوا ہے۔

یہ بھی کسی ٹھوس شے کی مائع میں تبدیلی کا سا سفر ہے۔ علم طبیعیات سے لے کر علم سماجیات تک ماقبل جدید دنیا کی تمام تر تشکیلات واقعاتی نوعیت کی تھیں لہٰذا تجزیے کا مقصد انہیں ایک ٹھوس ذہنی گرفت میں لینا تھا۔ انیسویں صدی کی طبیعیات پانی اور بھاپ کے حرکیاتی تجزیوں سے عبارت تھی اور ریاضیاتی خاکوں کا اولین مقصد حرکیاتی پیش گوئی سے زیادہ نہ تھا۔ آج مادہ فی نفسہٖ ایک ایسی غیریقینیت اور عدم تعین کا شکار ہے کہ خود ٹھوس، مائع اور گیس کی زمرہ بندی بھی ہائی اسکول کے نصاب سے زیادہ عملی اہمیت نہیں رکھتی۔

بیسویں صدی مواصلات کی صدی ہے اور سماجیاتی تجزیہ تیزی سے ہمہ گیر انفارمیشن تناظر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ خالص سائنس سے متعلقہ قوت، توانائی، حرکت، سکوت، ٹھنڈک، حدت، غرض انیسویں صدی کے وہ تمام تصورات جو طبیعیاتی یا کیمیائی تناظر میں دعوت تفہیم دیتے تھے اب انفارمیشن تناظر میں تعریف نو سے گزر رہے ہیں۔ مستقبل کے ذہن کو آج اپنے اولین فکری پڑاؤ پر لازماً ایک مصنوعی تحفظ یا تسکین فراہم کرتی نفسیاتی اوڑھنی اتار پھینکنے کی ضرورت ہے۔ تعین کی جگہ عدم تعین، حتمیت کی جگہ غیر حتمیت اور حقیقت کی جگہ مجاز اب محض فکری دنیا کا استعاراتی اسلوب نہیں بلکہ فی الواقع مادی صورت حال ہے۔

یہ کتاب بنیادی طور پر ایک جاری فکری کشمکش کا اظہار بھی ہے۔ راقم کی ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر بالغان کی نفسیاتی پیچیدگیاں اور فکری رویے نابالغ ہی رہتے ہیں۔ بنیادی وجہ مطالعے میں کمی سے کہیں زیادہ مطالعے کا عدم تنوع ہے۔ اعتقادات پر اٹل فکری استحکام اور تشکیک و تفلسف کا نیم منفی سماجی قدر کے طور پر تعارف جاننے کی بجائے ماننے اور منوانے کے جوش کو زیادہ ہوا دیتا ہے۔ لہٰذا مدلل مباحثہ اور فکری تذبذب منفی، جب کہ باآواز بلند نعرۂ حق مثبت نفسیات کی علامت بن جاتا ہے۔

مزید برآں اس اضطراب کا اپنی ذات سے باہر پھیلاؤ اعتقادی صورت حال کے لیے قریب قریب ایسی فکری دہشت گردی مانا جاتا ہے جو معاشرتی غیض و غضب پیدا کرتی ہے کیوں کہ غور و فکر کا مقصد سوالات کی بجائے طے شدہ جوابات کی تشکیلی دہرائی مانا گیا ہے ۔ لہٰذا اس کتاب میں بنیادی طور پر نوجوان قارئین کو مخاطب کرنے کا مقصد اسلوبی سطح پراس طبقۂ قارئین سے ایک نفسیاتی فاصلہ قائم کرنا ہے جو مطمئن ہے اور نئے سرے سے سوالوں کی حاجت محسوس نہیں کرتا۔

قصہ مختصر یہاں حتمی جوابات نہیں بلکہ دو بظاہر متضاد قضایا کے درمیان نسبتوں کی دریافت اہم ہے۔ راقم سکہ بند ادبی تخلیق کار نہیں لہٰذا اسلوبی پیچیدگیوں کی وجہ تخلیقی ترجیحات نہیں بلکہ خودکلامی کی خاطر مسلسل نفسیاتی آمادگی کی کوشش ہے۔ اساتذہ کے بقول فلسفے کا علم محض تاریخ فلسفہ سے واقفیت نہیں بلکہ تفلسف اور فکری گتھیوں کو باضابطہ ڈھالنے کا نام ہے۔ راقم فلسفے کا تربیت یافتہ طالب علم بھی نہیں۔ لہٰذا یہ کتاب بس ادب اور تاریخ فکر کے ایک سنجیدہ قاری کا متن یوگا ہے۔

پہلا باب ہمارے سماج میں قیام رائے سے متعلق قطبی کشمکش کی ایک تمثیل ہے۔ اگلے دس باب اسی قطبی کشمکش کی چند چیدہ چیدہ مثالیں ہیں۔ فلسفے میں اساسی ثنویت پسندی پر مبنی متعدد معقولات مثلاً موضوع اور معروض، جبر و قدر، وحدت و کثرت، عینیت اور مادیت پسندی، حقیقت اور اسمائیت پسندی، ذہن و جسم، عقلیت اور تجربیت پسندی وغیرہ معروف ہیں۔ عوامی استدلال اور ادبی و فنی اظہار بظاہررسمی فلسفے کے ان خاکوں میں مقید نہیں ہوتا، لیکن تجزیے کا عمل مختلف نظریاتی پرتوں کی علیحدگی کے لیے انہیں استعمال میں لاتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں جابجا یہ تمام پرتیں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان کے فہم کے لیے فلسفے کا رسمی علم لازمی نہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ ابہام اس قدر نہ ہو کہ قاری کو دوسری کتابوں سے رجوع کرنا پڑے۔ امید ہے کہ اس قسم کی تمام ضرورتیں حواشی کے ذریعے پوری ہو سکیں گی۔

آخری اور طویل ترین باب میں مکالمے اور خودکلامی کی بجائے مضمون کا اسلوب حاوی ہے۔ اس ترجیح کی بنیادی وجہ کتاب کے عمومی بکھراؤ اور عدم تعین کی بجائے کچھ چنیدہ سوالوں اور گزشتہ ابواب کے مکالمے سے اخذ کردہ کچھ نیم حتمی نتائج کی ضابطہ بندی ہے۔ اس باب میں شامل پانچ اجزاء ابہام کی نوعیت اور خاکہ بندی کے امکانات، سائنس اور فلسفے میں مشترکہ حقیقت پسند رجحانات، سائنسی فلسفے، قیاسی حقیقت پسندی اور اساطیری معنویت کے نفسیاتی رجحانات کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔

راقم کی رائے میں یہ وہ کم سے کم امکانات ہیں جن کی بنیاد پر نہ صرف منفرد سماجی مباحث کا آغاز ممکن ہے بلکہ اس تخلیقی فکر کی تشکیل بھی کی جا سکتی ہے جو سچائی کی مستقل جستجو سے عبارت ہو۔ اس پس منظر میں اگر اس بکھری ہوئی عبارت آرائی کو کسی ایک رسمی کڑی میں پرونا ممکن ہو تو وہ بظاہر متضاد اور مختلف النوع استدلالی رجحانات میں نسبتوں کی تلاش ہے۔

کتاب میں شامل اقتباسات اور حوالہ جات کے متعلق دو ضمنی گزارشات اہم ہیں۔ بورخیس کی کہانی ”بابل کی لاٹری“ ، اینڈی وئیر کی کہانی ”انڈہ“ اور چیف سی ایٹل کی مشہور تقریر تین ایسے متون ہیں جو اپنی مکمل ترجمہ شدہ شکل میں اس کتاب کا حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں پریمو لیوی کی سوانح آشوٹز ”اگریہ انسان ہے“ کے چیدہ حصوں پر مشتمل ایک قدرے طویل ترجمہ آٹھویں باب ’ہست و نیست‘ کا غالب حصہ ہے۔ کتاب کی تشکیلی ساخت کے باعث ان چاروں متون کی کانٹ چھانٹ معنی خیزی پر سمجھوتہ ہوتا لہٰذا ان تراجم کو اس کتاب کا حصہ بنانا ایک مشکل لیکن اہم فیصلہ تھا۔ ان چاروں متون سمیت اس کتاب میں شامل تمام اقتباسات کے تراجم اور ان میں ممکنہ سقم کی ذمہ داری راقم ہی کی ہے۔

دوم، مروجہ تحقیقی روایت کے برعکس پیش کردہ حوالہ جات میں اس حد تک غیر رسمیت برتی گئی ہے کہ یہ متعلقہ نکتے کی سند ہی نہیں بلکہ کئی بار اس کے پھیلاؤ اور اس پر موجود کسی اہم تنقید کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ اس غیر رسمیت کی بنیادی وجہ ادبی ہے کیوں کہ مقصد قارئین کی تاریخ فکر میں کسی اہم تحقیقی قیاس سے شناسائی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس کاوش کا بنیادی مقصد قارئین کے سامنے کچھ محبوب تصورات کی وکالت نہیں بلکہ مختلف اور کبھی کبھار باہم متضاد تشکیلات کا تعارف ہے۔ خود کو اس مقصد تک محدود رکھنے کے باعث کئی جگہوں پر یہ محسوس ہونا لازم ہے کہ شاید قدرے اختصار سے کام لیا گیا یا بات کو بیچ میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ ایسے موقعوں پر حاشیے سے کوئی نہ کوئی متن نمودار ہو کر کسی شوقین قاری کا ہاتھ ضرور تھام لے گا۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments