افغان صورت حال پر اظہار مسرت قبل از وقت ہے


افغانستان کے حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ ساری دنیا حیران ہے ان سطور کی اشاعت تک کابل کا فیصلہ ہو چکا ہوگا آخری لمحات میں امریکہ نے کوشش کی کہ انتقال اقتدار پر امن طریقے سے ہو جائے اس مقصد کے لئے طالبان لیڈر ملا برادر کو اچانک کابل طلب کیا گیا تاکہ وہ عبوری حکومت کے سربراہ کو نامزد کردیں آخری لمحات کے مذاکرات میں یہ طے ہونا ہے کہ اشرف غنی کس طرح اقتدار سے دستبردار ہوجائیں اور انہیں باہر جانے کے لئے محفوظ راستہ دیا جائے اگر دیکھا جائے تو معاملات کافی پراسرار ہیں ایسا لگتا ہے کہ طالبان اور امریکہ ملے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ طالبان کابل کا کنٹرول سنبھالنے والے ہیں ایک بار پھر بلکہ 20 سال بعد افغانستان کا قبضہ حاصل کر رہے ہیں ماضی کی نسبت ایک مختلف افغانستان ان کو مل رہا ہے امریکہ نیٹو اور دیگر اتحادیوں نے ملک کا جدید انفرا اسٹرکچر تیار کر دیا ہے اور یہ سب کچھ طالبان کو مال غنیمت کے طور پر حاصل ہو رہا ہے بادی النظر میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی شکست 21 صدی کا ایک بڑا واقعہ ہے جسے انقلاب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ افغانستان کے کنٹرول کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ طالبان کس طرح کی پالیسی بنائیں گے پڑوسیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ان کی معیشت کیا ہو گی اور سیاست کیا ہو گی۔

فتح کابل کے ساتھ اسلام آباد کے گوشہ اقتدار میں جشن کا سماں ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران صحافی اور دانشور کابل کی فتح کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں اس خوشی کی کیا وجہ ہے یہ ہمارے حکمران بھی سمجھنے سے قاصر ہیں اور انہیں اندازہ نہیں کہ طالبان کا انقلاب محض ایک آغاز ہے اور بالآخر اس کا خسارہ اگر کسی ملک کو ہوگا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان نہ صرف افغانستان کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے بلکہ سرحد کے دونوں طرف پشتون رہتے ہیں جو ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں اگر پاکستان کے پشتون بوجوہ تکلیف میں آ گئے تو سرحد پار کے پشتون ضرور ان کی مدد کریں گے ایک بین الاقوامی سرحد ہونے کے باوجود پشتونوں کوایک دوسرے سے جدا نہیں جا سکتا جہاں تک پاکستانی حکمرانوں کی خوشی کا تعلق ہے تو اس کی وجہ وقتی کامیابی ہے مثال کے طور پر انڈیا کا افغانستان میں رول ختم ہونا امریکہ کا اس خطے سے رخصت ہوجانا مغربی سرحدوں کا محفوظ ہوجانا جس کے بعد پاکستان کی ساری توجہ مشرقی سرحدوں پر ہوگی لیکن طالبان کے مستحکم ہونے کے بعد نئے مسائل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے اگر افغانستان میں شرعی نظام نافذ ہوگا تو پاکستان پر بے پناہ دباؤ آئے گا سرحد کی اس طرف تحریک طالبان پاکستان کو روحانی سیاسی اور عسکری تقویت ملے گی جس کے بعد وہ پاکستان کو بھی افغانستان جیسی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے۔

کئی سال پہلے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ طالبان مرگلہ پہاڑ پر بیٹھ کر اسلام آباد کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ جب چاہیں اسلام آباد میں داخل ہوسکتے ہیں

لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان پر جو قہر ڈھایا اس کی وجہ سے طالبان کا عروج اور اقتدار ختم ہو گیا جس کے نتیجے میں اسلام آباد کو لاحق خطرات کم ہو گئے جو پاکستانی حکمران اور میڈیا کے لوگ طالبان کے آنے سے شاداں اور فرحان ہیں وہ بھول گئے ہیں کہ طالبان نے کس طرح سوات پر قبضہ کر کے وہاں پر اپنی عملداری قائم کی تھی وہ صوفی محمد کی تحریک اور فاٹا پر طالبان کے قبضہ کو بھی فراموش کرچکے ہیں اگرچہ ریاست پاکستان کی صورتحال مختلف ہے لیکن طالبان کے پاس جو پاورفل نظریہ ہے اس کے حامی اس ریاست میں بھی بہت ہیں وہ ضرور کوشش کریں گے کہ پاکستان برائے نام اسلامی جمہوریہ کی بجائے امارت اسلامی بن جائے اس طرح پاکستان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اسی طرح افغانستان کے شمالی ہمسائیوں تاجکستان اور ترکمانستان میں بھی اس کے اثرات پڑیں گے اور یہ ممالک دوبارہ روس کی گود میں جا کر گریں گے کیونکہ طالبان سے انہیں روس کے سوا اور کوئی نہیں بچا سکتا جلد یا بدیر ایران کے ساتھ طالبان حکومت کا مناقشہ شروع ہو جائے گا۔ اس رسہ کشی کا فائدہ امریکہ ضرور اٹھائے گا کیونکہ امریکہ ایران کے ملا صاحبان کی حکومت سے عاجز آ چکا ہے اگرچہ طالبان کو استحکام کے لئے طویل عرصہ درکار ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں طالبان سے شکست کے باوجود امریکہ طالبان کو اپنا معاون یا پراکسی بنائے گا امریکہ عرب اتحادیوں اور طالبان کو ملا کر ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرے گا اس تمام تناظر میں پاکستان کی ہمہ جہتی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا جلد یا بدیر جب افغانستان پاکستان سے اپنے معاملات طے کرے گا تو نئی مشکلات سامنے آئیں گی البتہ یہ اطمینان کی بات ہے کہ کابل کے پرامن سقوط سے افغان پناہ گزینوں کے آنے کا جو خطرہ تھا وہ ٹل گیا ہے اگرچہ شمالی اتحاد نے اس بار لڑے بغیر جو سرنڈر کیا ہے وہ بظاہر شکست تسلیم کرنا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب لسانی بنیاد پر افغانستان کے مسائل سر اٹھائیں گے جس کی وجہ سے یہ ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اگر ایک متحدہ افغانستان قائم اور دائم رہے تو یہ خطہ اور عالمی امن کے لئے نیک شگون ہوگا لیکن افغانستان کی ماضی جنگ جدل اور پرآشوب واقعات سے بھرپور ہے لسانی تضادات بڑھے تو شمال کے لوگ آخر کار ایک مختلف حکمت عملی اختیار کریں گے اور وہ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔

میں ذاتی طور پر اس دن سے ایک ”خانہ جنگی“ کا شکار ہوں جب میں نے ایک کالم میں رئیسانی برادران کا ذکر کیا تھا مجھے بتایا گیا کہ ہمارے تعلقات رئیسانی خاندان سے تین نسلوں سے قائم ہیں ہمارا تعلق ”ادا“ سے ہے حاجی صاحب سے ہے جبکہ جس شخص سے ان کی بے وفائی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لہٰذا ان سے اعتذار کرنا چاہیے۔ عجیب صورتحال ہے کہ مجھ پر سنسر شپ عائد کردی گئی ہے کہ میں ڈاکٹر مالک کے بارے میں کچھ نہ لکھوں اختر مینگل کا ذکر نہ کروں مجھے ایسی سنسرشپ کا اس سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا ہم نے تو حکومتی پابندیاں پریس ایڈوائس اور خبروں پر سنسر شپ دیکھی ہے کہا جاتا ہے کہ اس وقت میڈیا پر جو پابندیاں ہیں ان کی نظیر موجود نہیں میڈیا پر اتنی سختیوں کی وجہ حکومتی اداروں کا اندرونی خوف ہے حالانکہ اس حکومت کو اس وقت کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ اپوزیشن دوبارہ صف بندیوں میں مصروف ہے لیکن اس کا مقصد حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنا نہیں بلکہ آئندہ انتخابات کی تیاری کا آغاز کرنا ہے تاکہ بروقت حکومت کے مقابلہ کی تیاری کی جاسکے یہ عمل قبل از وقت ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد ناممکن ہے تمام جماعتیں الگ الگ انتخاب لڑیں گی البتہ انتخابات کے بعد وہ اتحاد کر سکتی ہیں اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو حکمرانوں کی کوشش ہوگی کہ نون لیگ کا احاطہ کیا جائے اور اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے مسدود کیے جائیں سیاسی مبصرین کے مطابق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر ساؤتھ پنجاب کی اکثریتی نشستیں حاصل سپل برگ جس کے بعد حسب منشا ایک مخلوط حکومت تشکیل دینا آسان ہوگا یہ تو معلوم نہیں کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان کے حالات پر کس طرح اثرانداز ہوگی لیکن جے یو آئی ضرور زور مارے گی حالانکہ طالبان اور فضل الرحمن گروپ کے تعلقات فی الحال اچھے نہیں ہیں اس کے علاوہ پشتونخوا میپ اور پی ٹی ایم کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی ہی مشکلات پیپلز پارٹی اور اے این پی کے بارے میں بھی پیدا ہوں گی کیونکہ مسلح گروپ ان جماعتوں کو آسانی کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیں گے گزشتہ انتخابات کی مثالیں سامنے ہیں نہ جانے انتخابات تک کیا کچھ ہو گا کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی اور کون کون اس کی زد میں آئے گا کیونکہ حکمران بے شک بغلیں بجائیں لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد دور رس تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے یہ ایک غیرمعمولی انقلاب ہے۔ جس کے اثرات سے اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوگا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ غزنوی غوری اور ابدالی کے وارث تو طالبان ہیں لیکن نصابوں میں وہ ہمارے ہیرو ہیں اگر وہ ہمارے ہیرو ہیں تو ان کے وارثوں کو ان کا ورثہ لوٹانا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments