فزکس کے اینٹی میٹر سے سیاست میں اینٹی سٹیٹ تک


درویش سمیت ہم میں سے بیشتر احباب جدید سائنس کی باریکیوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن اتنا بہرصورت معلوم ہے کہ بیسویں صدی میں نظری اور عملی سائنس میں ایسے نئے تصورات سامنے آئے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے سائنسی نظریات پیش پا افتادہ نظر آنے لگے۔ فزکس ہی کو لیجئے۔ آئن سٹائن نے 1905 میں نظریہ اضافیت پیش کیا، جو تصدیق اور ترمیم سے گزر کر کائنات کے ایک بالکل نئے تصور پر منتج ہوا۔ ایک آدھ پیش رفت عرض کرتا ہوں۔ 1928 میں برطانوی طبیعیات دان پال ڈائریک (Paul Dirac) نے نظریہ اضافیت (خصوصی) اور کوانٹم تھیوری کے امتزاج سے اینٹی پارٹیکل کا تصور پیش کیا۔ 1955 میںanti-proton اور 1956 میں anti-neutron دریافت ہو گئے۔ اس تحقیق کے پس پشت یہ خیال کارفرما تھا کہ مادہ (matter) اور خلاف مادہ (Anti-matter) ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے تو دونوں تباہ ہو جائیں گے اور بے پناہ ہلاکت خیزی کا باعث بنیں گے۔ بالآخر 1964 میں امریکا کی بروک ہیون لیبارٹری میں James Cronin اورVal Fitch  نامی دو سائنسدانوں نے میٹر اور اینٹی میٹر میں متناسب فرق کو تجرباتی سطح پر ثابت کر دیا۔ یہ تحقیق رکی نہیں۔ یہ جو ہم آپ جنیوا کے قریب CERN لیبارٹری میں تجربات کی خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں، یہ اسی تحقیق کا پھیلاؤ ہے۔ اقبال یاد آ گئے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید / کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں۔

علامہ اقبال کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے سائنسی، علمی اور تمدنی مکالمے کا سرگرم حصہ تھے۔ اردو شعر میں یہ معجزہ غالب کے بعد اقبال کے حصے میں آیا۔ حیف کہ ہم اقبال کو کاٹ پیٹ کے اپنی کوتاہ قامتی کے برابر لے آئے۔ اقبال اس خدشے سے آگاہ تھے اسی لئے تو سر عبدالقادر کو مخاطب کیا تھا، ’جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، انہیں مذاقِ سخن نہیں ہے‘۔ خیر اب تو مذاق سخن بھی جاتا رہا، سخن سازی البتہ باقی ہے۔ جب دنیا مادہ اور خلاف مادہ عناصر کی جستجو میں سرگرداں تھی، ہمیں لطیفہ غیبی سے آزادی مل گئی۔ آزادی قوم کی تعمیر کا اثباتی تصور مانگتی ہے۔ ہم نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔ البتہ ریاست کو گھر سنگھوا لیا کہ عوام کی حاکمیت اور جواب دہی سے ماورا ریاست پیوستہ مفادات کی زرخیر کھیتی بن جاتی ہے۔ ریاست پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ہمہ وقت ایک دشمن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہم نے ان عناصر کو اینٹی سٹیٹ قرار دے دیا جو عوام کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے تھے۔ یہ اعزاز پہلے پہل حسین شہید سہروردی اور عبدالغفار خان کے حصے میں آیا۔ راولپنڈی سازش کیس کے ملزموں کے لئے سترہ اخبارات نے مشترکہ اداریے میں پھانسی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور پھر اینٹی سٹیٹ اعزازات کا یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اس دولت دشنام کو زوال نہیں۔ الحمدللہ کہ عوام اس ملک کے ایسے سرکشیدہ ہیں کہ ایک اینٹی سٹیٹ ستارہ ماند پڑتا ہے تو اک نیا سورج نکال لاتے ہیں۔

محترم بھائی فواد چوہدری کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سیاست، قانون، صحافت سے لے کر سائنس تک کسی گھر بند نہیں ہیں۔ ان دنوں اطلاعات کا قلم دان سنبھال رکھا ہے۔ اس وزارت میں ایک ڈیجیٹل میڈیا ونگ تشکیل دیا ہے۔ بڑے دھارے کی صحافت کے منہ زور دریا کو اپنی مہارت اور کچھ مہربانوں کے تعاون سے 2018ء ہی میں ایک تنک سی آبجو میں بدل دیا تھا۔ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند۔ اب سوشل میڈیا پر آنکھ ہے۔ سوشل میڈیا کے دو حصے ہیں۔ ایک بڑا حصہ تو عام شہریوں کے تبصروں سے تعلق رکھتا ہے جسے عوامی جذبات کا غیر رسمی اظہار کہنا چاہیے۔ ماضی میں جو کام چائے خانوں اور تھڑوں پر ہوتا تھا، اب فون اور لیپ ٹاپ پر بے درنگ اظہار پاتا ہے۔ بے شک اس میں کسی پیشہ ورانہ احتیاط اور ذمہ داری کی توقع کرنا فضول ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آپ کس کس کی زبان پکڑیں گے۔ ملک کے اندر اور باہر، ان گنت صارفین ہیں۔ سمجھ دار ریاست اور حکومت اس ذریعے سے عوام کی نبض جانچنے کا کام لے سکتی ہے۔

سوشل میڈیا کا دوسرا حصہ ان شہریوں پر مشتمل ہے جو اپنے نام سے سامنے آتے ہیں اور اپنے لکھے یا بولے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ صحافت کی بنیادی تعریف بھی یہی ہے کہ ایسا اظہار جس کی ذمہ داری قبول کرنے والا موجود ہو۔ اسی لئے صحافت میں لائسنس نہیں بلکہ ڈیکلریشن یعنی اعلان کی اصطلاح رائج رہی ہے۔ اس صحافت کی ضمانت دستور کی شق 19 میں دی گئی ہے۔ اس کے لئے مناسب قانون سازی ہونا ابھی باقی ہے۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نام کی ایک تجویز گردش میں ہے جسے پبلک سیفٹی ایکٹ 1949، سیکورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952 اور پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس 1963 کے ڈسے ہوئے صحافی آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کا شکنجہ سمجھتے ہیں۔ ماہ رواں کی سات تاریخ کو کسی بیرونی ملک سے پاکستان کے بارے میں ایک معاندانہ ٹرینڈ شروع کیا گیا۔ سائبر کی دنیا میں یہ ایسا رجحان ہے جس نے امریکا اور روس جیسے ممالک میں بھی تلخی پیدا کر رکھی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے لوگوں نے اس پر اپنی رائے دی اور بیشتر حب الوطنی سے عبارت۔ اس پر فواد چوہدری کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ کو جوش آ گیا۔ راتوں رات ایک نیم پختہ رپورٹ نکال دی جس کا عنوان ہی متنازع تھا۔ غضب یہ کیا کہ اینٹی سٹیٹ عناصر کی فہرست میں پاکستان کے شہریوں کو شامل کیا گیا۔ اب بھائی فواد کہتے ہیں کہ کسی پاکستانی کو اینٹی سٹیٹ قرار نہیں دیا۔ برادر، سانپ تو نکل چکا۔ عرض ہے کہ افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر اور بشریٰ گوہر کی پاکستان کے لئے خدمات اور قربانیوں کی تاریخ چار سے پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ یہ افراد اینٹی سٹیٹ نہیں، سٹیٹ کا اثاثہ ہیں۔ اگر کسی کو سٹیٹ اور اینٹی سٹیٹ کی سائنس کا ایسا ہی لپکا ہے تو فزکس میں میٹر (matter) اور اینٹی میٹر (anti-matter) کے تعامل پر غور کر لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments