پاگل کتوں کا راج اور ہمارا مائنڈ سیٹ


وہ اکیلی بھی نہیں تھی اس کے ساتھ چند ساتھی تھے اس کے باوجود وہ ہجوم کی وحشت کا شکار ہو گئی۔
اجی ٹک ٹاکر تھی واہیات حرکتیں اپنی ویڈیوز میں کرتی تھی اس دن بھی اپنی حرکتوں کا خمیازہ بھگتا کیوں گئی تھی وہاں؟

اور وہ جو لاہور میں سانحہ موٹر وے پر ہوا تھا وہ عورت اپنے بچوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں سوار تھی۔ اجی اس کا بھی قصور تھا کیوں اس نے پٹرول چیک نہیں کیا اور رات کو اکیلے سفر کرنے کی تک کیا تھی!

یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جس سے لڑائی ہے، لڑائی اکہری نہیں دوہری ہے۔ جب تک آپ جرم و گناہ کے جواز و تاویلات تراشتے رہیں گے آپ بدترین جرم کا ارتکاب کرتے رہیں گے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ عورت کوئی بھی تھی اس ملک کی آزاد شہری تھی جسے نقل و حرکت کا بنیادی حق حاصل تھا۔ اس وقت اس مسئلے پہ معاشرہ خود تقسیم ہے وہ ٹک ٹاکر کی ویڈیوز اور گفتگو سے حظ اٹھا کر چٹکی لے رہا ہے جیسے اندر ہی اندر خوش ہو کہ اس کے ساتھ جو ہوا وہ اچھا ہوا۔

جس معاشرے کی خواتین بھی اس معاملے میں عورت کی جانب نہ کھڑی ہوں وہاں مرد سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس کا مقدمہ لڑے گا یہ کیسی عبث آرزو ہے یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو نیچے سے لے کر ایوان وزیر اعظم تک براجمان ہے جہاں وزیر اعظم فرماتا ہے کہ عورتوں کا لباس ہی محرک ہے وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ وہ اس رعایا کا نگران ہے ذمہ دار ہے جس میں ہر طرح کے مرد و زن بلکہ تیسری صنف بھی شامل ہے جن کی جانب سے کوتاہی کی صورت وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

لڑنے کی ضرورت اس سوچ سے ہے جو ظلم کے لیے جواز تراش رہی ہے اور جواز کیا ہیں وہ ٹک ٹاکر تھی اس نے مجمعے کو اپنی ریٹنگ کے لیے اکٹھا کیا گر یہ قصہ بھی ہے تو بھی سوال اٹھتا ہے سیکیورٹی پہ کہ ایسی حرکات کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہیں جو کسی مجمع کو مشتعل کردے یا انتشار کا سبب بنے۔ تین گھنٹے کم مدت نہیں ہوتی یہ کوئی گاؤں یا دور افتادہ دیہات نہیں تھا یہ شہر کا معروف و مصروف حصہ ہے۔

فرض کیجیے یہ سب سوچا سمجھا پلانٹڈ کیس تھا تو ایسے میں بھی آپ کی ہمدردی بھوکے پاگل کتوں کے ساتھ ہونا خود اپنی جگہ ایک بڑا سوال ہے۔ مجھے کچھ سال پہلے کی ایک انڈین مووی ’پنک‘ یاد آ رہی ہے جس کا تھیم یہ تھا کہ انکار اگر طوائف بھی کرے تو اس کا مطلب انکار ہی ہے۔ وہ ٹک ٹاکر تھی وہ اپنی ریٹنگ کے لیے وہاں گئی تھی۔ اس نے اپنے فینز کو وہاں بلا رکھا تھا۔ یہ سب بے معنی ہے یہاں معنی ہے تو اس بات کا کہ وہ وہاں بھوکے کتوں کے غول میں پھنس گئی تھی۔ وہ مجمع نہیں تھا ہلکے ہوئے کتوں کا غول تھا اور ان کتوں کو بھگانے کے لیے جس لاٹھی کی ضرورت تھی وہ دور دور تک نہیں تھی۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وہ تین گھنٹے وہاں اذیت جھیلتی رہی اور سیکورٹی و پولیس گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھی۔ ریسکیو 15 پر بار بار فون کرنے کے باوجود کوئی نہیں آیا۔

یہ جواز تراش کر کہ اس کو ہجوم میں نکلنے کی ضرورت کیا تھی اس نے اپنے فینز کو وہاں خود بلایا مجرم معاشرے کے ہاتھ مت مضبوط کیجئے۔ صفائی کی ضرورت پہلے ذہنوں کو ہے جو ظلم کو ظلم سمجھیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پہ اکثریت پاگل کتوں کو جواز فراہم کر کے ان کے پاگل پن میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ کیا کہا۔ جی پاگل کتے۔ جی کتے اگر پاگل ہوجائیں تو ان کا ایک ہی علاج ہوتا ہے اور یہاں اسی علاج کی ضرورت ہے۔ یہاں ایسی جگہوں پہ شدید سیکورٹی کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے سانحات سے بچا جا سکے۔ یہ کوئی معمول کا دن نہیں تھا آزادی کا دن تھا وہ پاکستانی پرچم پہن کر آئی تھی۔ درندے اسے نوچتے کھسوٹتے رہے لیکن نگہبان وہاں موجود نہیں تھے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہیں تھے؟

یاد رکھئیے یہ پاگل کتے ایک دن اتنے مضبوط ہوجائیں گے کہ آپ کی اپنی بچیاں ہسپتالوں، شاہراوں، مالز، سکولز، کالجز، پارکس ہر جگہ غیر محفوظ ہوجائیں گی۔

اپ کب تک پاگل کتوں کے خوف سے عورتوں کے حق نقل و حرکت پہ قدغن لگاتے چلے جائیں گے۔ اس قسم کے سانحے جانے کتنے لوگوں کو گھروں میں خوفزدہ ہو کر دبک جانے پہ مجبور کر دیتے ہیں کتنی عورتوں پہ مزید قدغن عائد کردی جاتی ہے۔ ہم شاید اس کا احساس نہیں کر پاتے مگر آخر کب تک۔ کب تک ہم یہ بودے جواز تراشیں گے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں اور یہاں راج پاگل کتوں کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments