مرد تکلیف میں ہے



مینار پاکستان پر جو واقعہ پیش آیا برا ہوا۔ بغیر اگر مگر چونکہ چنانچہ اس واقعہ اور اس جیسے تمام واقعات کی مذمت لازم ہے۔ یہ واقعہ کیوں ہوا، یہ جاننا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ایک بار پھر مرد نے دست درازی کی ہے۔

تاہم، یہ واقعہ جس روز ہوا اس روز بشمول ان 400 افراد کے تمام اہل وطن آزادی منا رہے تھے۔ لیکن کہنا چاہوں گا اس واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ خاص طور پر ہم مرد ابھی تک اپنی حیوانی جبلت کے ہاتھوں غلام ہیں۔ ایسے میں جغرافیائی یا سامراج سے آزادی لا یعنی ہوجاتی ہے۔

اس پدر سری معاشرے نے مرد کے ساتھ جو بڑا ظلم کیا وہ یہ کہ جنسی جبلت کو مرد کی پرورش کا مرکزی نقطہ بنانا ہے۔ اور یہی مرکزی نقطہ اب مرد کی سوچ کا مرکز ہے۔ جس نے در اصل مرد کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ اور اسی وجہ سے مرد ایک انجانی تکلیف میں مبتلا ہے۔ عورت اس مرد کے ہاتھوں نتیجتاً ظلم کا شکار ہے۔

جبکہ مرد اس قدر تکلیف میں ہے کہ اسے خود بھی ادراک نہیں ہے۔ ادراک ہو بھی تو مانتا نہیں۔ مان لے تو تدارک کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

کیا یہ کم تکلیف ہے کہ ہماری تمام تر سوچ ایک حیوانی جبلت کی تسکین تک محدود ہو گئی ہے؟ کیا یہ تکلیف دہ بات نہیں کہ ہم محض جنس مخالف کے جسم کو دیکھنے۔ چھونے اور محسوس کرنے کے لیے اپنے تمام تر انسانی وقار کو داؤ پر لگا دیتے ہیں؟ سوچیے کہ یہی مرد جو ہر دوسرے معاملے میں اپنی انا اور عزت نفس کو سینے پہ سجا کے پھرتا لیکن جنسی خواہش کے معاملے میں مکمل بے بس کیوں ہے؟

کیونکہ جاگتی آنکھوں کے خواب بھی محض جنس مخالف کے جسم کے حصول تک محدود ہو چکے ہیں۔ ہر دیگر سرگرمی ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جنس غالب ہے۔ بیماری کی حد تک غالب ہے۔ اسی سوچ نے ہماری تخلیقی استطاعت ہم سے چھین لی ہے۔ اور ہمیں دو پیروں پہ چلنے والی، دماغ رکھنے کے باوجود ایسی مخلوق بنا دیا ہے جو کچھ اور سوچنے سے قاصر ہے اور شدت کرب سے جنس مخالف پر حملہ آور ہے۔

ہمیں انکار پسند نہیں، انکار ہمیں شدید ترین تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف جنس کا حصول ہمارے لیے افضل رکھا گیا دوسری طرف ہمیں انکار سننے سہنے اور اسے ایک نارمل رویہ سمجھنے جیسے بنیادی اصول سے روشناس ہی نہیں کروایا گیا۔ یہ کیا کم ظلم ہے کہ انکار کو ہمارے لیے نارمل نہیں رہنے دیا گیا؟ چند لمحوں کی سرگرمی کو ہی ہماری سوچ کا محور بنا دیا گیا ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے اٹھتے بیٹھتے سوچتے حتی کہ کھاتے پیتے بھی ہم جنس کو مد نظر رکھتے ہیں۔

یہ کم تکلیف دہ بات کہ مرد کو خود اپنے وقار، اپنی انا اور اپنی عزت نفس کا خیال تک نہیں رہتا۔ ہماری زبانیں ہر وقت لٹکی اور آنکھیں للچائی ہوئی ہیں۔ ہم کتنے پست قد ہو چکے ہے ہیں ہمیں خود اس بات کا اندازہ نہیں۔ اور یہ بات محض غیر شادی یا جنسی گھٹن کا شکار افراد تک محدود نہیں ہے، شادی شدہ سے لے کر جنسی تسکین کے تمام اسباب رکھنے والوں تک سب کسی نہ کسی شکل میں اس کے متاثرین میں شامل ہیں۔

پدر سری معاشرہ اس کی وجہ ہے یا جنسی گھٹن یا دین سے دوری۔ آپ جو دل کرے نام دے لیں لیکن حقیقت یہ ہے عورت، جنس، اور انکار جیسے پہلو مرد کے لیے نارمل نہ ہونا اس کے ساتھ ظلم ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خود تو تکلیف میں ہی لیکن اس کا نشانہ عورت بن رہی ہے۔

ہمارے اوپر جنس مخالف کے حصول کی سوچ کا تسلط ہے۔ تسلط غلامی کو جنم دیتا ہے، غلامی تکلیف دہ امر ہے۔ جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اہل خرد علاج تجویز کریں۔ کم از کم مجھے اس تکلیف سے نجات درکار ہے۔

پس تحریر: اس تحریر کا مقصد کسی بھی واقعہ میں ملوث مرد کے لیے ہمدردی حاصل کرنا ہر گز نہیں ہے۔ تاہم، تحریر میں اپنی عقل کے مطابق بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments