انسان اگر آزاد نہیں ہے تو انسان نہیں ہے


کہا جاتا ہے کہ انسان کی خواہش اگر اس پر غلبہ پا لے تو انسان اور جانور میں فرق نہیں رہتا اور اگر انسان اپنی خواہش کو زیر کر لے تو پھر وہ فرشتوں جیسا بن جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت نہ تو انسان جانور ہے نہ ہی فرشتہ بلکہ وہ ان دونوں سے بہترین مخلوق ہے۔ جانور میں عقل کی کمی رکھی گئی ہے اور وہ صرف ضرورت اور خواہش کے زیر اثر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ فرشتے کے پاس اختیار نہیں ہوتا اور وہ صرف ایک ہی طرز پر عبادت کرتا ہے جبکہ انسان کے پاس عقل کی بھی فراوانی ہے اور اس عقل کو استعمال کرنے کا پورا پورا اختیار بھی حاصل ہے۔

یہ ہی دو اوصاف ہیں جن کی بنا پر وہ تمام مخلوقات سے افضل ہے۔ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے یا تو نیکی کر لے یا بدی کر لے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور اپنی ہی فراست سے اپنی راہ کا تعین کرتا ہے۔ اب جانور چونکہ بے عقل ہے سو انسان کبھی بھی اپنی مرضی سے اس جیسا نہیں بننا چاہے گا۔ رہی بات فرشتہ بننے کی تو تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ سننے کو نہیں ملتا جس میں انسان اپنے نیک اعمال کی بنا پر فرشتہ بن گیا ہو۔

البتہ مذہبی لٹریچر میں انبیاء کی داستانیں تاریخ کا سب سے اہم حصہ سمجھی جاتی ہیں اور ان میں سے بھی بحیثیت انسان ہمیں جو قصہ سب سے زیادہ پر کشش لگتا ہے وہ ہے یوسف (علیہ السلام) کا قصہ۔ یوسف (علیہ السلام) کو غیر معمولی حسن عطا کیا گیا، زلیخا اور یعقوب (علیہ السلام) جیسے عاشقوں کے اشک ان کا نصیب بنے، مصر جیسی عظیم الشان سلطنت کی سربراہی ملی۔ لہٰذا ہم میں سے ہر کوئی ہر وقت شعوری اور لاشعوری طور پر یوسف ہی بننا چاہتا ہے اور اگر ہم خود نہ بن سکیں تو خود کو کسی دوسرے یوسف سے منسوب کرنا چاہتے ہیں۔

اس خواہش نے ایک رجحان پیدا کر دیا ہے کہ ہر انسان ہمہ وقت اپنے عروج اور کمال پر ہی نظر آئے۔ نتیجتاً ایک یوسفی Criteria کا پنجرہ بن چکا ہے جس میں ہم سب سانس لے رہیں۔ اس سوچ کے تحت زندگی گزارنے والا انسان آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہ معیار انسان کو اس کی فطرت سے روگردانی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ معیار ہماری شناخت کا استحصال کرتا ہے۔ یہ معیار کہتا ہے کہ انسان یا تو سب سے پاکباز ہو یا سب سے زیادہ وسائل سے مالا مال ہو یا یوسف جیسا ہی نور عین ہو یا پھر یہ سب ہو۔

اس سوچ کہ تحت انسان اپنے حصے کی غلطی کرنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یوسفی معیار زندگی میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر کوئی غلطی کرنے کی آزادی سے محروم کر دیا جائے تو وہ یوسف تو دور کی بات ہے انسان بھی نہیں رہتا۔ انسان میں خیر اور شر برابر مقدار میں موجود ہے۔ اس کے لئے غلطی کرنے کا امکان بھی اتنا ہی ہے جتنا غلطی نہ کرنے کا۔ انسان کو کسی ایک ہی امکان سے متصل کر دینا اس کی آدھی ذات کی نفی کرنا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کا ایک ہاتھ کاٹ دیں اور توقع کریں کہ وہ اتنی جلدی کام کرے جتنا چار ہاتھ مل کے کر سکتے ہیں۔ Perfection کے حصول میں ہم نے ایک ذہنی معذور نسل پیدا کر دی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ غلطیاں اور ان کے نتائج بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں جو ہر حال میں انسان تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ غلطی اگر اپنے وقت پر اور اپنے ہی حصے کی سرزد ہو جائے تو اس سے جڑے اسباق انسان کی آئندہ زندگی میں کام آتے ہیں۔ ہمیں اپنی ذات کے ساتھ اور دوسرے انسانوں کے ساتھ معاملات میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک عام انسان غلطی پہلے کرتا ہے اور سنبھلتا بعد میں ہے اور ہم سب ہی عام انسان ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ہر وقت ہر کسی کا یوسف نہیں بن سکتے۔

کبھی ہم زلیخا کی طرح گناہ پر مائل ہو سکتے ہیں، کبھی یعقوب کی طرح برسوں غمزدہ اور محروم رہ سکتے ہیں، کبھی ظالم بھائیوں کی طرح مطلبی بن سکتے ہیں اور کبھی اس ایک بنیامین کی مانند کسی کے یوسف کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم یوسف بھی بننا چاہیں تو راستہ آزادی اور مشکلات کا ہے۔ وہ نفس کی آزادی ہی تھی کہ کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر زلیخا کو انکار کیا۔ وہ ان کے حصے کی مشکلات تھیں جن کو جھیل کر انہوں نے سلطنت کی حکمرانی حاصل کی جبکہ اگر یوسف بھی کسی اور معیار کے ذہنی غلام ہوتے تو زلیخا کی خواہش پوری کر کے بہت آسانی سے اپنی مشکلات سے جان چھڑوا لیتے۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ انسان اپنی آزادی سے جب تک اپنے اختیار کو استعمال نہ کرے اپنے عروج کو نہیں پہنچ سکتا چاہے بظاہر آزادی کا سودا کرنے میں کتنا ہی فائدہ نظر کیوں نہ آئے۔ درحقیقت کنویں کی تاریکی اور زلیخا کے حربوں کو پار کیے بنا کسی بھی کمال کو پہنچنا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments