تسبیح: ہوشنگ مرادی کرمانی کی کہانی



خدا ریاضی کے ہر معلم کے ماں باپ کو، بلا استثنا، معاف فرمائے۔ اگر وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں تو خدا کا نور ان کی قبروں پر برسے۔ اگر بقید حیات ہیں اور سانس لیتے ہیں، تو خدا ان کی عمر اور عزت میں اضافہ فرمائے۔ ہر ممکن طریقے، خوش زبانی، مہربانی، نصیحت اور ملائمت، ڈانٹ ڈپٹ، سخت کلامی، کانوں اور گردنوں پہ تھپڑ، لکڑی کے فٹ سے ہتھیلیوں پر ضربوں، غرض یہ کہ ہر ممکن طریقے سے انھوں نے چاہا کہ کسی نہ کسی طرح میرے سر میں حساب اور ریاضی ڈال دیں۔ لیکن یہ ممکن ہونا تھا اور نہ ہوا۔ حساب اور جیومیٹری میرے دماغ میں نہیں آتے تھے۔

ریاضی کے پیریڈ میں، میں کلاس کے آخری بینچوں پر جا بیٹھتا اور بڑے، لمبے اور موٹے لڑکوں کے پیچھے خود کو چھپا لیتا۔ تاکہ معلم کی نظروں اور بلیک بورڈ کے پاس جانے سے بچ جاؤں۔ پیریڈ کے شروع ہونے سے آخر تک میرے دل کی دھڑکن گھٹتی بڑھتی رہتی۔ جب بھی معلم کی آواز آتی کہ ’بلیک بورڈ کے پاس آؤ‘ ، تو میرا دل بیٹھنے لگتا اور رنگ اڑ کر بالکل سفید چاک کی مانند ہو جاتا۔

سب معلم بھی ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑے تھے۔ جیسے ہی کلاس میں قدم رکھتے۔ گردن بلند کر کے کہتے، ”مجید کہاں ہے؟“ اور میں محض یہ بات سنتے ہی مرغابی کی طرح اپنے سر کو مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے لڑکے کے کندھوں سے اوپر اٹھا کر ڈری اور کانپتی ہوئی آواز میں کہتا، ”مجید حاضر ہے آغا!“ اور معمولاً یہ کام یہیں پر بخیر و خوبی اختتام پذیر نہیں ہو جاتا تھا۔ آغا مجھے بلیک بورڈ کے پاس کھینچ کر لے جاتے۔ جس سے مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

چند بار میں نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ اگر میں پہلی قطار میں پر اعتماد انداز میں سر کو بلند کر کے بیٹھوں تو شاید آغا سمجھیں کہ مجھے سبق پانی کی روانی کی طرح یاد ہے اور یوں ریاضی کا پیریڈ خیر و عافیت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔

لیکن بد قسمتی سے اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ چنانچہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے میں نے اپنے کان لپیٹے اور ٹھیک پہلے ہی کی طرح کلاس کے آخر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ لیکن کچھ فرق نہ پڑا۔ آغا اپنے گاہکوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور سیدھا میری ہی تلاش میں آتے تھے۔ میں ہو چکا تھا کلاس کا مشہور و معروف نالائق اور کند ذہن۔ آغا کو معلوم تھا کہ ہندسے اور اعداد میرے دماغ میں نہیں داخل ہوتے۔ ان کا یہ گمان غلط بھی نہیں تھا۔ کیونکہ یہ کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک بار بھی، بطور نمونہ ہی سہی، بلیک بورڈ سے باعزت طور پر لوٹا ہوں۔

اب آپ سے کیا چھپانا، میں نے بہت کوشش کی کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے گلیم کو حساب اور جیومیٹری سے باہر نکالوں۔ لیکن کیا فائدہ۔ کی گئی تمام زحمتیں ہوا میں زائل ہو گئیں اور میں اس کام میں، بلا نسبت، دلدل میں دھنسے ہوئے گدھے کی مانند وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔

میں شروع سے ہی ایسا تھا۔ مجھے اچھے طرح یاد ہے۔ ایک سادے سوال کو حل کرنے کے لیے کیلکولیٹر کے بجائے انگلیوں سے حساب کیا کرتا تھا۔ اگر رقم بڑی ہوتی اور جمع تفریق کرنا ہوتی، تو پاؤں کی انگلیوں کو بھی شامل کر لیتا۔ اگر وہ بھی کم پڑ جاتیں تو بی بی سے کہتا، ”بی بی اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں مجھے دو۔ میری انگلیاں کم پڑ گئی ہیں۔“

وہ بیچاری بھی پہلے دائیں ہاتھ اور پھر بائیں ہاتھ کی انگلیاں، صبر اور حوصلے کے ساتھ میرے حوالے کر دیتی۔ اللہ بخشے، اس کی انگلیاں کمزور استخوانی، بوڑھی تھیں اور کانپتی تھیں۔ اس کے اعصاب اب تندرست نہیں رہے تھے۔ جب اس کی انگلیاں میرے ہاتھوں میں لرز رہی ہوتیں تو میرا دھیان بھٹک جاتا اور میں یہ بھول جاتا کہ حساب کہاں تک پہنچا تھا۔ کبھی کبھی جب تین رقمی جمع تفریق کرنی ہوتی تو میں اس کے پاؤں کی انگلیوں کی طرف جاتا۔

پھر التماس اور قربان صدقے کرنے کے بعد ، اس کی جرابیں اتارتا اور پاؤں کی انگلیوں کو گننے لگتا۔ اور مزید یہ اپنی اور بی بی کی چالیس انگلیوں ایک جگہ اکٹھی رکھ کر ان پر حساب کرنا بھی بہت مشکل کام تھا۔ میرا دماغ اس پیچیدہ رقم کو گن نہ پاتا۔ اس کے اندر کا حساب بھی اڑن چھو ہو جاتا اور وہ سوال ویسا ہی ویسا ہی رہتا۔ تو میں رونے لگتا اور پھر سے اپنے اور بی بی کے ہاتھوں پاؤں کی انگلیوں کو گننے لگتا۔

آخر، بی بی بھی جب دیکھتی کہ کوئی سوال حل کر رہا ہوں تو کچھ کہے بغیر ہی، اپنی جرابیں اتار کر زمین پر بیٹھ جاتی۔ میرے بالکل رو بہ رو ہو کر، اپنے دونوں پاؤں ریاضی کی کاپی کی طرف کر کے کہتی، ”سوال جلدی سے حل کرو۔ مجھے ہزار دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔“

ایک بار، جب وہ کسی کام میں مصروف تھی اور بیٹھنا ممکن نہیں تھا، تو انگلیوں کے بجائے چالیس پچاس قند کے ٹکڑے میرے سامنے رکھ دیے تاکہ ان کی مدد سے حساب کروں۔ اور میں قند کے ٹکڑوں کو گن گن کر سوال حل کرنے کے بجائے حرص کی وجہ سے، انھیں ایک ایک دانہ کر کے منہ میں ڈالتا گیا۔ آخر میں سوال بھی نہ حل ہو پایا۔ جب بی بی نے دیکھا کہ قند کے ٹکڑے بھی ختم کر دیے ہیں اور کام بھی مکمل نہیں ہوا ہے تو وہ گئی اور میرے لیے دو مٹھی خشک کھجوریں لے آئی۔ وہ بھی قند کے انجام سے دو چار ہوئیں۔ پھر کچے چنے لے آئی۔ دوبارہ موقع ملنے پر زور لگا کر انھیں چبایا۔ لیکن سوائے دانتوں تلے کرچ کرچ ہونے کے کوئی مزہ نہ آیا اور نہ ہی سوال کا جواب سامنے آیا۔

اب جا کر میں سمجھا کہ بی بی بے چاری میری ریاضی کی بنیادیں مضبوط کرنے کے کے لئے کتنی بے ہودہ زحمتیں اٹھا رہی تھی تاکہ اس کے دنیا سے جانے کے بعد میں اپنی زندگی کا حساب و کتاب درست طریقے سے چلا سکوں۔

یہ تمام ماجرے ایک طرف اور تسبیح کا ماجرا ایک طرف۔ جب بھی یاد آتا ہے یا میری نظر کسی تسبیح، مخصوصاً بڑے دانوں والی اور زرد رنگ والی، پر پڑتی ہے تو میرا جسم بید کی طرح لرزنے لگتا ہے اور شرم کے مارے جسم پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے۔

اچھا، ماجرا کچھ یوں ہے کہ، ایک روز بلیک بورڈ پر لکھے ضرب کے پہاڑے کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ کب کی بات ہے؟ جب میں آٹھویں کلاس میں تھا۔

معلم نے کہا، ”مجید! میں تمھیں کل تک کا وقت دے رہا ہوں۔ کل ضرور پہاڑے پانی کی طرح یاد ہوں۔ یہ واقعی قابل شرم بات ہے کہ تم آٹھویں کلاس میں پہنچ گئے اور تمھیں ابھی تک پہاڑے یاد نہیں۔“

میں نے کہا، ”اچھا آغا! کل تک کی مہلت دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ یاد کر کے آؤں گا۔ ابھی جا کر بیٹھ جاؤں۔ آغا!“

”بیٹھ جاؤ۔“

میں جا کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ شام کے وقت بازار گیا۔ ایک کاپی خریدی جس کی پچھلی طرف ریاضی کے پہاڑے لکھے ہوئے تھے۔ گھر آیا اور اپنی بی بی سے کہا:

”بی بی! آج رات مجھے کوئی کام نہیں کہنا۔ مجھے سبق یاد کرنا ہے۔“
”ٹھیک ہے۔ صرف جا کر نان اور میرے لیے تمباکو خرید لاؤ۔ پھر بیٹھ کر اپنا سبق پڑھنا اور کام کرنا۔“

فوراً دوڑ کر گیا۔ نان اور تمباکو خریدا کر لایا۔ پہاڑوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور پڑھتا گیا اور پڑھتا گیا، وہ بھی اونچی آواز میں : پانچ چھ بار، تیس۔ پانچ سات بار، پینتیس۔ پانچ آٹھ بار چالیس۔

میرے ہونٹ اور زبان بول رہے تھے، آنکھیں ہندسوں کو دیکھ رہی تھیں۔ لیکن میرے دماغ میں کوئی چیز نہیں پڑ رہی تھی۔ چند پہاڑوں کو شروع سے لے کر آخر تک پڑا لیکن پلے کچھ نہ پڑا۔ رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بالآخر آدھی رات کے قریب میں بے حال ہو گیا۔ میرا دماغ گھوم گیا تھا۔ میں لیٹ گیا اور سو گیا۔

فجر کی اذان کے ساتھ بی بی نے مجھے جگایا۔ میں اٹھا۔ پڑھنے اور پہاڑے یاد کرنے لگا۔ سورج نکلنے تک پڑھتا رہا: آٹھ تین بار، چوبیس۔ آٹھ چار بار، بتیس۔ آٹھ پانچ بار، چالیس۔

لیکن خدا کی قدرت ایک ذرہ برابر بھی رقم میں دماغ میں نہ بیٹھی۔ اپنا بستہ اور اسباب اٹھا کر سکول چلا گیا۔

کلاس میں حسب معمول، آغا نے کمرے میں قدم رکھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ آواز دی، ”مجید آؤ۔ میں دیکھوں کہ تم نے آج کیا کام کیا ہے؟“

میں اٹھا۔ کاپی جس کی جلد کی پشت پر پہاڑے لکھے ہوئے تھے، اٹھا کر سامنے بلیک بورڈ کی طرف گیا۔ میری ٹانگیں بے جان سی ہو چکی تھیں۔ کانپ رہی تھیں۔ کافی مشکل سے میں نے خود کو آغا کے پاس پہنچایا۔ پہاڑوں کے چارٹ کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ”یہ دیکھیں آغا۔ میں نے کاپی خریدی ہے جس پر پہاڑے لکھے ہوئے ہیں۔“

آغا نے تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہاڑے تمھارے سر میں ہونے چاہیں۔ کاپی کی پشت پر نہیں۔“

پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ بڑے دانوں اور پیلی رنگ والی تسبیح نکالی۔ اس کے پھندنے کو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں میں تھاما۔ انھیں بالکل رسی کی طرح، میری آنکھوں کے سامنے لہرایا اور کہا، ”مجید۔ میں تم سے پوچھوں گا۔ اگر تم نے جواب نہ دیا یا غلط جواب دیا۔ تسبیح کا ایک دانہ گراؤں گا پھر بعد میں گن کر ان کے حساب سے اس فٹ کے ساتھ۔“

میں نے کہا، ”اچھا آغا۔ بقیہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ پہاڑے مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ آپ بس پوچھنا شروع کریں۔“ اور دل میں کہا، ”خدایا تو رحم کر“

میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ دل چاہتا تھا کہ کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں مت سوچوں تاکہ دھیان نہ بھٹکے اور توجہ صرف پہاڑوں پر ہی مرکوز رہے۔ چنانچہ اس وجہ سے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

آغا نے کہا، ”اپنی آنکھیں کیوں بند کیں ہیں؟“
میں نے کہا، ”تاکہ کچھ نظر نہ آئے اور میرا دھیان نہ بھٹکے۔“
آغا طیش میں آ گئے۔ غصے سے کہا، ”اپنی آنکھیں کھولو۔ تسبیح کی طرف دیکھو اور جواب دو۔“

میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ آغا نے تسبیح اپنے ہاتھ میں اس طرح پکڑ رکھی تھی کہ ایک انگلی دانوں میں سے ایک پر تھی اور وہ دانہ بس نیچے گرنے ہی والا تھا۔ اونچی اور محکم آواز میں کہا، ”آٹھ نو بار؟“

میں نے اپنے ہونٹ بھینچے۔ چھت کی طرف دیکھا۔ چھت پر ایک مکڑی جالے میں بیٹھی ’وز وز‘ کر رہی تھی۔ میرا دھیان بھٹک گیا۔ دوبارہ آنکھیں بند کیں۔ دماغ پر زور دیا۔ یاد کرنے کی کوشش کی: آٹھ نو بار کتنے ہوتے ہیں؟ مجھے کچھ یاد نہ آیا۔ کلاس خاموش تھی۔ بچوں نے اپنے سانس روک رکھے تھے۔ سب میری طرف دیکھ رہے تھے کہ میں اب کون سا گل کھلانے لگا ہوں۔

میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، ”آغا۔ آپ تسبیح کا ایک دانہ مہربانی کر کے گرا دیں۔ بعد میں دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔“

آغا نے اپنی انگلی کو تسبیح کے دانے پر سے اٹھایا۔ وہ دانہ تسبیح کے دوسرے دانوں سے جدا ہوا۔ میری کھلی ہوئی آنکھوں کے سامنے، دھاگے پر سے پھسلتا ہوا، آرام اور راحت کے ساتھ نیچے آیا۔

دوبارہ آغا کی محکم اور ڈرا دینی والی آواز کمرے میں گونجی، ”چھے نو بار؟“
”چھے نو بار۔ ہوتے ہیں۔ ہوتے ہیں۔“

آغا نے کوئی لمحہ ضائع کیا بغیر تسبیح کے ایک اور دانے کو اپنی انگلیوں کے نیچے سے حرکت دی۔ دانہ دھاگے سے ہوتا ہوا نیچے آیا اور اس دانے سے ٹکرایا جو اس سے پہلے آچا تھا۔ ’ٹک‘ کی آواز آئی۔

آغا نے پھر پوچھا: چار چھے بار۔ نو دس بار۔ چھے سات بار۔ اور میں حیران و پریشان ہوا یوں دیکھ رہا تھا جیسے بالکل گونگا ہو چکا ہوں۔ میرا سر خالی ہو چکا تھا۔ صرف آغا کی بلند آواز اور ٹک ٹک ٹک، دانوں کے گرنے کی آواز میرے کانوں اور سر میں گھوم رہی تھی اور انگلیوں کی حرکت سے بڑے اور زرد رنگ والے تسبیح کے گھسٹتے ہوئے دانے میری آنکھوں پر چھائے ہوئے تھے۔

آغا پوچھتے گئے اور پوچھتے گئے۔ تسبیح کے دانے گراتے گئے۔ میرا حساب بہت اوپر چلا گیا تھا۔ تسبیح کے آدھے سے زیادہ دانے گر چکے تھے۔ آغا نے گرے ہوئے دانوں کو گنا اور پھر ان کے حساب سے فٹ کی مدد سے میری ہتھلیوں پر پورے زور کے ساتھ نوازش کی۔ میرے کان میں فرمایا کہ، ”دو دن بعد پھر ریاضی کے پہاڑے سنوں گا اور تسبیح سے گنوں گا۔ اگر صحیح جواب نہ دیے تو پھر یہی پیالہ ہو گا اور یہی چمچہ ہو گا۔“

گھر جاتے ہوئے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا۔ ابھی بھی میری ہتھلیوں پر جلن ہو رہی تھی۔ اور ان میں دھک دھک ہو رہی تھی۔ بی بی کو میں نے کچھ نہ بتایا۔ اگر بتاتا کہ میرے سر پر آج کون سی بلا نازل ہوئی ہے۔ اندھے کو کیا چاہیے؟ دو روشن آنکھیں۔ تو اس کی اس نصیحت و ملامت سے میرے دل کا زخم ہرا ہو جاتا کہ، ”اچھا کیا ہے کہ مارا ہے۔ ان ہاتھوں پر قربان جاؤں۔ جب تک پٹائی نہیں ہو گی، تب تک تم بندے نہیں بنو گے۔ پڑھے لکھے نہ بن سکو گے پر کوئی میری طرح بے چارہ نہیں کہ اسے رنجیدہ بھی کیا جائے اور وہ آگے سے کچھ نہ کہے۔“ خلاصہ یہ کہ رات تک صحن اور کمروں میں یہ باتیں کرتی جاتی۔ مجھے ڈانٹتی اور معلم کی جان کو دعائیں دیتی جاتی۔ مختصر یہ کہ میں نے اس روز بی بی کو نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔

اگلے دو دن آرام کرنے اور کہانیاں پڑھنے میں گزارا۔ جب یاد آتا کہ پہاڑے یاد کرنے چاہیں۔ تو اپنے آپ سے کہتا، ”ضرور اس روز کوئی اتفاق ہو جائے گا۔ شاید زلزلہ آ جائے جس کی لپیٹ میں معلم اور میں آ جائیں گے۔ شاید ہمارے معلم کا تبادلہ ہو جائے یا اس کو کسی دوسری کلاس میں بھیج دیا جائے۔ خود کو خواہ مخواہ اذیت دینے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔“

دو دن بجلی کی سی تیزی سے گزر گئے اور وہ رات آ گئی جس سے اگلے دن کا وعدہ تھا کہ میں معلم کو تمام پہاڑے پانی کی سی روانی کے ساتھ سناؤں گا۔

اس رات سحر تک لگاتار پڑھتا رہا۔ اونچی آواز میں سر لگا کر آتے جاتے پڑھتا رہا: پانچ چھے بار تیس۔ چار پانچ بار بیس۔ پانچ نو بار۔ ”حتی کہ رات کا کھانا کھانے کے دوران بھی نہ رکا۔ لقمہ میرے منہ میں ہوتا۔ اس طرح کہ میں لقمے کو چبا رہا تھا اور ضرب کے پہاڑے کو، لقمے کی ملچ ملوچ کے ساتھ، اونچا اونچا اپنے لیے پڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ دادی کا حوصلہ جواب دے گیا۔

”سبق یاد کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ بس کرو۔ چپ کر کے آرام کے ساتھ چبا چبا کر کھاؤ۔“

میں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی اور پھر پڑھنا شروع کیا۔ لحاف کے نیچے بھی ”پانچ چھے بار اور سات نو بار۔“ پڑھتے پڑھتے سو گیا۔

صبح اٹھ کر معلوم ہوا کہ واقعی تھوڑی سے پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ کچھ یاد ہے۔ سکول جاتے ہوئے رستے میں بھی پڑھتا رہا۔ میرا دماغ ضرب کے پہاڑوں سے لبریز تھا۔ جب سکول پہنچا تو ابھی کافی بچے نہیں آئے تھے۔ میں نے سکول کے فراش کے کمرے میں جا کر ایک لمبی سے لکڑی اٹھائی اور کلاس میں چھت پر بنے ہوئے اس مکڑی کے جالے کو اتارا۔ تاکہ ضرب کا پہاڑا سناتے وقت، اس پر نظر پڑھنے سے میرا دھیان نہ بھٹکے۔ میں نے ان سب چیزوں کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔ بچوں میں سے کچھ نے مجھ سے پوچھا تو میں ان کا درست جواب دیا۔

آخر گھنٹی بجی۔ معلم کلاس میں داخل ہوئے۔ بلند آواز میں کہا، ”مجید آؤ۔“

میں اٹھا۔ پر اعتماد قدموں کے ساتھ اور گردن کو سیدھا کر کے کلاس کے سامنے آیا۔ آغا نے مجھ پر نگاہ ڈالی۔ ہاتھ کو جیب میں ڈال کر زرد رنگ کی بڑے دانوں والی تسبیح باہر نکالی۔ خدا برے دن نہ دکھائے۔ تسبیح پر نظر پڑتے ہی میری ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی۔

میں نے آنکھوں کو تھوڑا بھینچ کر ڈرتے ڈرتے کہا، ”آغا۔ میں اس تسبیح سے اچھا محسوس نہیں کرتا۔ اسے اپنی جیب میں ڈال لیں۔ ویسے ہی پوچھ لیں۔“

آغا نے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا اور اپنی گردن کو کھجلاتے ہوئے کہا، ”اگر یہ تسبیح نہ ہو تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ تم نے کتنی غلطیاں کیں ہیں؟“

میں نے گردن ٹیڑھی کر کے کہا، ”میں خود ہی اپنی غلطیاں گنتا جاؤں گا۔ میں اپنی انگلیوں سے گنوں گا اور کوئی کم بیشی نہیں کروں گا۔ جتنی بھی ہوئی سچ سچ بتاؤں گا۔“

کہا، ”شاید دس سے زیادہ غلطیاں ہوں۔ تمھارے ہاتھوں کی انگلیاں دس سے زیادہ نہیں ہیں۔“

میں نے کہا، ”ان بچوں میں سے ایک کی انگلیوں سے مدد لے لوں گا۔ بلکہ آپ کی انگلیوں سے ہی شمار کر لوں گا۔ تاکہ آپ کو تسلی رہی۔ ہاں ایک چیز اور ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ کنکریاں اکٹھی کر لاؤں، ان کی مدد سے شمار کر لیں لگے۔ لیکن آپ کو آپ کے بچوں کی جان کی قسم اس تسبیح کو اپنی جیب میں ڈال لیں۔“

میں یہ بات کر رہا تھا اور اس دوران بچے ہنس رہے تھے۔ ان کے ہنسنے کی آواز نے کلاس کو سر پر اٹھا لیا تھا کہ آغا طیش میں آ گئے۔ انہوں نے فٹ کو میز کے اوپر زور سے مارا اور کہا، ”خاموش!“ پھر میری طرف رخ کر کے کہا، ”بہانے بازی کو ایک طرف رکھو۔ جواب دو۔“ اور تسبیح کو ہاتھ میں تھام لیا۔ اپنی انگلی کو اس دانے پر رکھا جسے گرایا جانا تھا۔

”چھے نو بار؟“
میں نے زبان کو ہونٹوں پر پھیرا۔ مجھے مہلت نہ دیتے ہوئے کہا، ”چھ نو بار؟“

میں نے سر اوپر اٹھایا اور چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ مکڑی دوبارہ اپنا جالا بننے میں مصروف ہے۔

آغا نے اونچی اور محکم میں کہا، ”چھ نو بار؟“

میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا۔ دماغ بالکل خالی ہو چکا تھا۔ اس وقت میری نگاہ ضرب کے پہاڑوں کے اس چارٹ پر نہیں تھی۔ میری نگاہ مکڑی پر تھی۔ کچھ یاد نہ آیا۔ میں بالکل گونگا ہو گیا تھا۔ ’ٹک‘ کی آواز آئی۔ تسبیح کے دانے کے گرنے کی آواز سے میرے کان کے پردے لرزے۔

آغا کی آواز آئی، ”نو سات بار؟“

میں نے نگاہ چھت اور مکڑی سے ہٹا کر انگلیوں پر، تسبیح کے دانوں پر، آغا کے سیاہ ہونٹوں پر اور ان کی باریک مونچھوں ہر ڈالی۔ انھوں نے میری آنکھ کے منظر کو گھیر رکھا تھا۔ ان کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ صرف آغا کی کبھی کبھی آواز آ رہی تھی۔ کہہ رہے تھے، ”سات چھ بار؟ چار پانچ بار؟ نو دس بار؟“ اور ٹک ٹک ٹک تسبیح کے دانوں کے گرنے کی آواز، جولاہے کی کھڈی کے چلنے کی آواز، جو کھڑکی کے باہر سے آ رہی تھی۔ پھر فٹ سے پڑنے والی ضربوں کی آواز اور ہتھیلیوں پر ہونے والی جلن کا احساس۔

یہ قرار ہوا کہ اگر دوبارہ ضرب کے پہاڑے یاد نہ ہوئے تو پھر یہ حال ہو گا۔

رات کے وقت گھر میں، میں اس سوچ میں غرق تھا کہ کوئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ ابھی پڑھنے اور یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سب سے پہلے تسبیح کی شکل اور اس کے دانوں کے گرنے کی آواز کو سننے کا عادی ہونا زیادہ ضروری ہے۔ تاکہ میرے حواس، جواب دیتے وقت کھو نہ جائیں۔

چنانچہ بی بی سے کہا، ”بی بی اگر تم چاہتی ہو کہ میں سکول جاؤں۔ پڑھ لکھ کر ترقی کروں اور مالدار ہو جاؤں تو ضروری ہے کہ میرے لیے ایک بڑے اور پیلے رنگ کے دانوں والی ایک تسبیح کا بندوبست کرو۔“

جیسے ہی میں نے یہ بات کی تو بی بی بالکل اس طرح جیسے اسفند کو آگ میں ڈالیں تو وہ اوپر کو اٹھتی ہے، اپنی جگہ سے اٹھی اور میری طرف پلکیں جھپکائے بغیر دیکھنے لگی، اس نے اپنی انکھوں کو تھوڑا بھینچ کر کہا، ”مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ تسبیح کس کام کے لئے چاہیے؟“

میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور تمام بات، اول تا آخر بی بی کو سنائی اور اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ اس طرح کی تسبیح سبق اور ریاضی کے پہاڑوں کو یاد کرنے کے لئے آج رات کا کھانا کھانے سے بھی زیادہ واجب تر ہے۔

بے چاری اٹھ کر صندوق کے پاس گئی۔ پھر اپنی جائے نماز کے پاس، جتنی بھی تسبیحاں تھیں وہ تمام اٹھا کر لے آئی۔ تسبیحاں طرح طرح کی اور ڈھیر ساری تھیں۔ کالے دانے والی بڑی۔ چھوٹی دانوں والی بھوری جس کے سو دانے تھے، کربلائی تسبیح، تربتی تسبیح، پتھر کی تسبیح، رات کو چمکنے والی تسبیح اور لمبی تسبیح جس کے تین پھندنے تھے۔ ان میں سے کوئی تسبیح میرے کام کی نہ نکلی۔ میری نظر اس طرح کی تسبیح کی تلاش میں تھی، جیسی معلم آغا کے پاس تھی۔ پیلا رنگ، بڑے دانے اور مضبوط کہ جب اس کا ایک دانہ دوسرے دانوں سے ٹکراتا ہے تو ٹک کی آواز آتی ہے۔

اس رات، بی بی نے اپنی چادر سر پہ اوڑھی اور چراغ لے کر ہم دونوں اپنے محلے، ہمسایوں اور گلی میں رہنے والے لوگوں کے گھروں میں اس جیسی تسبیح تلاش کرنے نکلے۔ جہاں بھی پہنچے وہاں ہمارا تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری اور ایک گھر سے دوسرے گھر پھرتے رہے۔ اسی طرح پھرتے پھراتے ایک آدمی کے گھر پہنچے جس کا نام آغا سماواتی تھا۔ مختلف اقسام کی رنگا رنگ، معمولی اور قیمتی تسبیحاں جمع کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ قیمتی تسبیحوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا اور انھیں منہ بولے داموں خرید لیتا تھا۔ ان میں سے بعض تسبیحوں پر جان چھڑکتا۔ اور انھیں برے لوگوں سے بچائے رکھتا۔

اس وقت کہ جب مرغی کا ایک انڈا ’دس شاہی‘ میں مل جاتا تھا۔ وہ آدمی اس تسبیح، جیسی کہ آغا معلم کے پاس تھی، کے لئے دس تومان بی بی سے وصول کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بی بی پیسے دینے والے لوگوں میں سے نہیں تھی۔ اس بے چاری کے پاس دینے کے لئے پیسے ہوتے ہی نہیں تھے۔ اس وجہ سے التجا، التماس و عجز کرنا شروع کیا۔ قسمیں کھائیں۔ آیتوں کا حوالہ دیا۔ یہاں وہاں کی تمام باتیں کیں۔ آخر یہ بھی کہا کہ اسے اپنا بچہ سمجھ کے دے دو۔ مہربانی کرو کہ یہاں سے خالی ہاتھ نہ جائے۔ تاکہ اپنا سبق یاد کرے اور امتحان دے۔ قدیم کہاوت ہے ’بہت سے پرندے جنہیں ذبح کر کے کھایا جاتا ہے۔ ایک پرندہ ایسا بھی ہے جسے گوشت کھلانا پڑتا ہے۔‘

خلاصہ یہ کہ اتنا کچھ کہا، اتنا کچھ کہا کہ آخر وہ راضی ہو گیا کہ کچھ دنوں کے لیے، اللہ واسطے، وہ یہ تسبیح ہمیں امانت کے طور پر دے گا۔ اگر خدا نخواستہ کچھ ہوا اور تسبیح کسی مصیبت سے دوچار ہوئی تو اس کے لیے پہلے بتائی گئی قیمت کی آخری شاہی تک، تاوان کے طور پر دیں گے۔ وعدہ ہوا کہ اس کی ہمارے ساتھ کی گئی اس محبت کے صلے میں ہم، پہلی فرصت میں ہی اس کے لیے ’ملس‘ اناروں کا بندوبست کریں گے۔

چنانچہ تسبیح کو لیا اور خوش و خرم گھر کی طرف لوٹے۔ گھر پہنچے تو میں نے بی بی سے کہا کہ وہ کرسی پر بیٹھے۔ تسبیح اپنے ہاتھ میں پکڑے۔ اپنے انگوٹھے کو اس کے ایک دانہ پر بالکل تیار رکھے۔ میں اسے پہاڑا سناؤں گا اور ہر دفعہ جب غلطی کی یا مغالطہ لگا تو آنکھوں سے اشارہ کروں گا اور وہ اس دانے پر سے فوراً اپنا انگوٹھا اٹھا لے گی۔ وہ دانہ نیچے گر کر ٹک کی آواز دے گا۔ تاکہ راضی خوشی میری آنکھیں تسبیح کے دانے کو گرتے اور کان اس کے ٹک کی آواز کے عادی ہو جائیں اور معلم کے سامنے گھبرانا نہ پڑے۔ نہ میرے حواس گم ہوں۔ بی بی، جس نے میری پڑھائی اور میرے ملا بننے کے سلسلے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی، مان گئی۔ کرسی پر بیٹھ کر جیسا میں نے کہا ویسا کرنے لگی۔ پھر تسبیح کے گرے ہوئے دانوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ گنا۔ لیکن، مرحلہ آخر، یعنی ہتھیلیوں پر فٹ کی ضربوں کی مار کو حذف کر دیا۔

سات آٹھ بار بی بی کے ساتھ، ضرب کے پہاڑے سنانے کی اس ساز و سامان کے ساتھ مشق کی۔ بی بی تھک گئی اور اس کے ہاتھ اور بازو دکھنے لگے۔ اس نے کہا، ”بس کرو۔ مجھے اب سونے دو۔“ مجھے اس کی حالت پر رحم آیا۔ اسے جانے دیا۔ وہ جا کر سو گئی۔ میں بھی تسبیح کو ہاتھ میں لیے لحاف کے نیچے جب تک مجھے نیند نہ آئی، میں خود ہی پہاڑوں کی دہرائی اور تسبیح کے دانوں کو گرانے لگا۔

اتفاق سے اس رات، معلم کے غصہ اور ناراضگی کے خوف سے مجھے بخار ہو گیا۔ نیند اور نیم بیداری کی ملی جلی کیفیت میں تسبیح کے دانوں کی ٹک ٹک ٹک کی آواز سن رہا تھا۔ اس خراب حالت میں جاگا۔ پانی پیا۔ اور تسبیح کو تکیے کے پاس سے اٹھا کر کمرے کی الماری میں رکھا کہ اس سے دور رہوں۔ لیکن پھر وہی ٹک ٹک سنائی دینے لگی۔ لحاف کے نیچے سے دائیں بائیں کروٹیں لیں۔ کانوں کو بند کیا تاکہ آواز سنائی نہ دے۔ مجھے نیند نہ آئی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کمرے میں چکر لگانے لگا۔ پھر وہی ٹک ٹک کی آواز آئی۔ تب معلوم ہوا کہ ٹک ٹک کی آواز پرندے کے پنجرے سے آ رہی ہے جو اپنی چونچ کو پنجرے سے مار کر رات کی خاموشی کی چادر کو چیر رہا ہے۔

میں نے کرسی رکھی۔ اس کے اوپر کھڑا ہوا۔ پنجرے کو دیوار پر لگی کیل پر سے اتارا اور سٹور میں رکھ کر واپس بستر پر آیا۔ اب آواز نہیں آ رہی تھی۔ جیسے ہی نیند سے دوبارہ آنکھیں بند ہونے لگیں، دوبارہ ٹک ٹک کی آواز آئی۔ اب یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ غور سے سننے کی کوشش کی۔ میں آواز کی سمت چلا۔ باہر ہوا چل رہی تھی۔ ناشپاتی کے درخت کی ایک خشک ٹہنی، دروازے کے اوپر لگے شیشے کے ساتھ یوں ٹکرا رہی تھی جیسے کوئی شیشے پر انگلی مار کر کھٹکھٹا رہا ہو۔

میں چراغ لے کر صحن میں پہنچا۔ سیڑھی اٹھائی۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اوپر چڑھا۔ میں جب خشک ٹہنی کو توڑنے کے لئے زور لگا رہا تھا تو بی بی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے سمجھا کہ شاید کوئی چور آ گیا ہے۔ ڈری ہوئی آواز میں بولی،

”کون ہے؟“ دوبارہ کہا، ”مجید۔ مجید۔ اٹھ کر دیکھو کہ باہر صحن میں کون ہے۔“

میں نے اونچی آواز میں کہا، ”ڈرو مت بی بی۔ کوئی نہیں ہے۔ میں ہوں۔“ اور شاخ کو توڑنے کے بعد کمرے میں آ گیا۔

بی بی سہمی ہوئی تھی اور اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ میں نے پرندے اور ناشپاتی کے درخت کی ٹہنی کی بابت بتایا۔ وہ تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ مسکرائی۔ پھر ہم سو گئے۔

دوبارہ ٹک ٹک کی آواز سنائی نہ دی۔
دو دن گزر گئے اور پھر ریاضی کے معلم سے سامنا ہوا۔

اس روز میں تسبیح اپنے ساتھ لے گیا۔ کلاس میں دوسرے بچوں سے چھپا کر، میز کے نیچے تسبیح کے دانے گرانے اور پڑھنے لگا: آٹھ پانچ بار، نو آٹھ بار، چھے چار بار۔

آغا نے کلاس میں داخل ہوتے ہی سب بچوں پر نگاہ ڈالی۔ جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی، تو فوراً کہا، ”مجید آؤ۔ ہم آج دیکھتے ہیں کہ تم نے سبق کیسا یاد کیا ہوا ہے۔“

میں خوش و خرم، جیسے کوئی شہر فتح کر لیا ہو، اٹھا اور تسبیح کو ساتھ لے کے معلم آغا کے پاس پہنچا۔ آغا میز کے کونے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا قد میرے قد کے بابر آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر تسبیح نکالتے، میں نے پہل کرتے ہوئے تسبیح کے پھندنے کو دو انگلیوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا۔ ٹھیک ان کی آنکھوں کے برابر۔ ایک شیریں مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”یہ دیکھیں آغا۔ میں نے جا کر آپ کی تسبیح جیسی ہی ایک تسبیح ڈھونڈ لی ہے۔“

جیسے ہی یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے تو آغا نے جلدی سے ایک جھپٹا مارا اور تسبیح کو میرے ہاتھ سے کھینچا، ”مجھے دو“

میں نے کہا، ”آغا۔ یہ تسبیح میری نہیں ہے۔ خدا کی قسم، میں نے امانت کے طور پر لی ہوئی ہے۔ تاکہ اس کی آواز کی عادت ہو اور میرے حواس قائم رہیں۔“

بے خودی اور غصے سے آغا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ مجھے تلخ نگاہوں کے ساتھ دیکھا۔ تسبیح کو اپنی مٹھی میں دبایا۔ ہونٹ بھینچے۔ ہونٹ بالکل سرخ ہو چکے تھے۔ ان کی گردن لمبی اور پتلی تھی۔ انھوں نے منہ میں جمع شدہ تھوک کو نگلا۔ نرخرہ اوپر نیچے ہوا۔ وہ لمبے تھے میں کوتاہ۔ اگر میں اپنا سر آگے کروں تو میری پیشانی ان کے پیٹ میں لگے۔

وہ طیش میں تھے اور ناک سے بہت زور زور سے سانس لے رہے تھے۔ شیر کی طرح دھاڑ کر بولے، ”میرے ساتھ مسخرگی کرتے ہو۔ احمق، گھامڑ۔“ اور پھر وہی تسبیح میری جان کے درپے ہوئی۔ ”چار پانچ بار؟“ میرے چہرے پر تسبیح سے ضرب لگائی۔ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ گیا۔ اس کے دانے بکھر گئے۔ پوری کلاس میں ہر جگہ دیوار کے ساتھ، کونوں کھدروں میں، بینچوں کے نیچے، بچوں کے پیروں کے درمیان گم ہو گئے۔ تسبیح کا پھندنا، خالی دھاگے کے ساتھ، معلم کے کانپتے ہوئے ہاتھ میں باقی رہ گیا۔ میں نے جھک کر تسبیح کے دانوں کو جمع کرنے لگا۔ بچوں نے میری مدد کی۔ وہ بینچوں کے نیچے اور معلم کی کرسی میز کے نیچے ڈھونڈنے لگے۔

کلاس درہم برہم ہو گئی۔ معلم کی آواز کلاس میں گونجی، ”خاموش! اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاؤ۔“ اور پھر پھندنے اور دھاگے کو میز پر رکھا۔

میں اسی طرح دانوں کے پیچھے پیچھے انھیں اکٹھا کرنے میں لگا ہوا تھا۔ میں بینچ کے نیچے بیٹھ کر دیوار کے ساتھ پڑے ہوئے ایک دانے کو ہاتھ بڑھا کر اٹھانے والا تھا۔ آغا نے میرے پیچھے سے کوٹ کے دامن کو پکڑا اور مجھے بینچ کے نیچے سے باہر نکالا اور کہا، ”دانوں کو جمع کرنے کا کام تفریح کے وقت کرنا۔ ابھی کلاس کو ڈسٹرب نہ کرو۔ وقت ضائع نہ کرو۔“

میں کھڑا ہوا۔ پتلون پہ لگی گرد کو جھاڑا۔ تسبیح کے چند دانے میری مٹھی میں تھے۔ نگاہیں بینچوں کے نیچے اور کلاس میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ آغا نے دیکھا کہ میرا دھیان تسبیح کے دانوں کو ڈھونڈنے پر ہے اور ہوش و حواس کھو بیٹھا ہوں۔ تو پہاڑے سننے کا کام رہنے دیا اور کہا، ”جاؤ بیٹھ جاؤ۔“ وہ پرسکون انداز میں بولے تھے۔ ان کا جوش اور غصہ کم ہو گیا تھا۔

میں بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، ”آغا! آپ نے اپنی تسبیح کتنے کی خریدی تھی؟ کہاں سے خریدی تھی؟“
”خریدی نہیں ہے۔ کسی نے تحفہ دی ہے۔ یادگار کے طور پر۔“

میں نے کہا، ”وہ آدمی آغا سماواتی، جو تسبیحاں جمع کرتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اس کی قیمت دس تومان ہے۔ اس سے کم میں نہیں دوں گا۔ اس کی یہ تسبیح امانت تھی۔“

دو تین بچوں کی کلاس کے ایک کونے سے، ہنسنے کی آواز آئی۔ آغا نے دوبارہ بھویں سکیڑتے ہوئے کہا، ”مجید! اٹھو۔ باہر جاؤ۔“

تفریح کے دوران بہت کوشش کی کہ تسبیح کے تمام دانوں کو ڈھونڈ لوں۔ کچھ دانوں کے سرے ٹوٹ چکے تھے۔

اگلے روز، بی بی روتی ہوئی سکول آئی۔ سیدھا دفتر میں گئی۔ کچھ دیر بعد باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں آغا معلم کی تسبیح تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments