قدیم رومن سلطنت۔ مختصر تاریخ


(حضرت عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے صدیوں قبل اٹلی کے دریائے ٹائبر (Tiber) کے کنارے سات چھوٹی پہاڑیوں پر مٹی کے بنے سات گاؤں آباد تھے جو وقت کے ساتھ ترقی کر کے ”روم“ نام کے ایک چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگلی صدیوں میں اس کا بتدریج بحیرہ روم کے اردگرد اور دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے 500 سال تک ایک طاقتور سلطنت کا مرکز بن جانا دنیا کی تاریخ کا ایک دل آویز داستان ہے۔

اپنے عروج کے دور میں یورپ۔ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک پر مشتمل 23 لاکھ مربع میل کے رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماضی کے شاندار تہذیبوں ( میسوپوٹیمیا، مصر اور بالخصوص قدیم یونان کے ثقافتی ورثے کی نہ صرف امین اور محافظ رہی۔ بلکہ طرز سیاست، انتظام حکومت، قانون اور تعمیرات اور پبلک ورکس کے میدانوں میں شاندار اضافے بھی کیے۔ جدید مغربی تہذیب کی ثقافت۔ قانون۔ ٹیکنالوجی، فنون، زبان۔ مذہب۔ طرز حکومت و سیاست۔ افواج اور طرز تعمیر پر قدیم رومی سلطنت کے دیرپا اثرات ہیں۔ یہاں اس قدیم رومن سلطنت کی مختصر سی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔

اٹلی کے قدیم باشندے۔
۔ ۔

اٹلی ایک جزیرہ نما ہے۔ جو یورپ کے جنوبی جانب بحیرہ روم میں واقع ہے۔ شمال میں کوہ آلپس کے بنا باقی یورپ سے علیحدہ ہے۔

2000 ق م میں سوئزر لینڈ سے بعض آریائی باشندے یہاں اٹلی کے شمال میں دریائے پو کی وادی میں آباد ہو گئے

اس کے بعد سے آریائی نسل باشندوں کی آمد جاری رہی۔ جو وسطی اور جنوبی اٹلی میں آباد ہوتے گئے۔ یہ قبیلے اطالوی کہلائے۔ ان میں مشہور قبیلہ لاطینی کہا جاتا تھا۔ ان اطالوی قبیلوں کے علاقے کا نام لاطیم ( Latium) پڑ گیا۔ 1000 ق م میں ایشیا کوچک سے مخلوط النسل قبیلے جو ایٹرو سکن (Etruscan) کہلاتے تھے، اٹلی میں آباد ہو گئے۔ یہ پہلے باشندوں سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تجارت پیشہ لوگ تھے۔ انہوں نے اٹلی میں شہری ریاستیں قائم کیں۔

7 ویں صدی ق م میں اٹلی کے ساحلی علاقوں ( سسلی وغیرہ ) میں یونانی آباد ہو گئے۔ یوں 6 ویں صدی ق م تک اٹلی میں تین اہم لوگ اباد ہو گئے تھے۔ ( 1 ) شمالی اٹلی میں ایٹرو سکن۔ ( 2 ) وسط اور جنوب میں اطالوی قبیلے اور ( 3 ) جنوبی ساحلی علاقوں میں یونانی النسل باشندے۔

ان میں ایٹرو سکن باشندوں نے اپنے علاقے میں شہری ریاستیں بنا کر بادشاہت قائم کر لی تھی۔ جبکہ اطالوی قبیلے آپس میں بر سر پیکار تھے۔

روم کا قیام
۔

لاطیم اور ایٹرو سکن علاقوں میں تجارتی تعلقات کے باعث آمد و رفت کے نتیجے میں لاطیم کی پہاڑی سرحد پر سات گاؤں بس گئے۔ جو بتدریج روم کے شہر میں تبدیل ہو گئے۔ اس شہر کا انتظام لاطینیوں کے پاس تھا اور یوں یہ ان کا اہم شہر بن گیا۔ علاقہ لاطیم کے 30 کے قریب شہری ریاستوں کے اتحاد لا طیم لیگ کا بالآخر روم قائد بن گیا۔ ایک زمانے میں ایٹرو سکنس قبیلے نے روم پر قبضہ کر لیا۔ مگر 509 ق م میں اس کے آخری بادشاہ کو نکال کر روم کے باشندوں نے دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لی۔

روم کی بحیثیت جمہوریہ اور مستند تاریخ کا آغاز 509 ق م سے ہوتا ہے۔ اور شاہی دور کا خاتمہ ہوتا ہے۔

اگرچہ روم کے شاہی دور ( 509 ق م سے قبل ) میں بادشاہ کے ساتھ سینٹ اور اسمبلی جیسے اداروں کی موجودگی میں محدود بادشاہت اور محدود جمہوریت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ مگر ایٹرو سکن بادشاہوں کے دور میں سینٹ اور اسمبلی کی اہمیت حتم ہو گئی تھی۔

ابتدائی جمہوریت میں سینٹ صرف بالائی طبقے پر مشتمل تھی۔ تاہم عوام اور امراء کے درمیان طویل کشمکش کے بعد 449 ق م میں ایک ضابطہ قوانین کے ذریعے عوام کو کافی سماجی حقوق دیے گئے۔ پھر عوامی مطالبے پر امراء کی اسمبلی کے ساتھ عوام کی اسمبلی کے قیام سے قوانین بنانے کے بعض اختیارات بھی عوام کو مل گئے۔ مزید اختیارات کے لیے عوام کی جدوجہد جاری رہی۔

376 ق م میں لی سینس ( Licinius laws ) نامی قوانین سے عوامی قونصل ( Council ) کی تقرری کے علاوہ مالی اور زرعی اصلاحات، اور مذہبی عہدوں میں امراء کے ساتھ عوام کی برابری کے ساتھ عوام اور خواص کی کشمکش حتم ہو گئی 287 ق۔ م میں عوامی اسمبلی سینٹ کے دست نگر بھی نہ رپی۔ یوں تقریباً دو سو سال ( 494 ق م تا 287 ق م ) کی جدوجہد کے بعد روم کی جمہوریت میں عوام کو سیاسی، سماجی، معاشی، اور مذہبی حقوق مل گئے۔ بلکہ بعض حوالوں سے عوام کے اختیارات امراء سے زیادہ ہو گئے۔ سلطنت کی انتظامی معاملات کی ذمہ داری عوامی اسمبلی کی ہو گئی تھی۔

رومن سلطنت کا آغاز
۔ ۔

روم میں 509 ق م میں ایٹرو سکن بادشاہت کے خاتمے سے جمہوریت کی ابتدا ہو گئی تھی۔ جس کے ساتھ امراء اور عوام کے درمیان اندرونی سطح پر حقوق کی جنگ بھی جاری رہی تھی۔ ( 495 ق م تا 287 ق م کے دوران مختلف عوام دوست قانون سازی سے عوامی بالا دستی ( جمہوریت) کافی مستحکم ہوتی رہی ) ۔ جبکہ اسی دوران روم کی ریاست کو بیرونی حملہ آوروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اطالوی شہروں کا اتحاد (Latium League) 493 ق م سے ریاست روم کی زیر قیادت قائم تھا۔

390 ق م میں اس اتحاد کا اٹلی کے شمال کے ایک بر بر قوم ”گال“ ”کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے علاقے کے کافی بڑے حصے کو جلا دیا۔ اس مصیبت کے فرو ہونے کے بعد روم کی از سر نو تعمیر کی گئی۔ روم نئی طاقت کے ساتھ ابھر کر ہمسایہ علاقوں پر قبضہ کرنے لگا۔ روم کی بڑھتی طاقت کے باعث لاطینی اتحاد کی دوسری ریاستوں کے ساتھ جنگوں کا آغاز ہوا۔ 339 ق م تک جاری ان جنگوں میں روم کی فتح یابی سے بقیہ لاطینی شہروں پر روم کی بالادستی قائم ہو گئی

”۔ یوں یہاں سے روم کی سلطنت کا آغاز ہو گیا۔“

روم اٹلی کی اہم ترین ریاست بن گیا۔ ( اس کے اگلے سال ( 338 ق م) میں مقدونیہ کے فلپ دوم ( سکندر اعظم کے باپ) نے یونانی ریاستوں کو فتح کر کے مضبوط ریاست قائم کر لی تھی )

343 ق م سے 290 ق م تک سلطنت روم وسطی اٹلی کے پہاڑوں پر قابض اطالوی نسل سامینی قبیلہ کے ساتھ جنگوں میں پھنسا رہا۔ 290 ق م Sentinumکے مقام پر روم نے ان کو فیصلہ کن شکست دی اور پورے وسط اٹلی پر روم کا اقتدار قائم ہو گیا۔ شمال کے کچھ حصوں پر ”گال“ قابض رہے اور جنوب میں یونان کی نو آبادیات قائم تھیں۔ آیت رسکن قبیلے کا اقتدار بالکل حتم ہو گیا۔ اس کے بعد روم کے مقابلے صرف دو طاقتیں رہ گئی تھیں۔ ایک۔ یونانی نو آبادیات اور دوسری۔ کارتھیج کی نوآبادیات

۔
”یونانی نو آبادیات پر روم کا قبضہ ( 280 ون سے 270 ق م )
۔ ۔

سامینی قبیلے سے نمٹنے کے بعد روم نے یونانی نو آبادیات پر حملے شروع کیے۔ اٹلی میں یونان کے اہم شہر Trentumپر حملے کے موقع پر یونانیوں نے سرحدی ریاست Epirus کے حکمران Pyrrhus کی مدد سے رومیوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ تاہم زیادہ نقصان کے باعث وہ جنوبی اٹلی کے علاقوں سے سسلی پہنچ گیا۔ اس کا کچھ حصہ کارتھیج کی نو آبادیات تھا۔ جو بحیرہ روم میں سب سے طاقتور تھے۔ کارتھیج نے ان کے بحری بیڑے کو شکست دی۔ جب کہ رومی کی بڑی افواج نے پی رہس ( Pyrrhus) کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ان شکستوں کے بعد وہ یونانی نو آبادیات کو روم اور کارتھیج کے درمیان چھوڑ کر اپنی ریاست واپس چلا گیا۔ 270 ق م تک روم۔ نے اٹلی کے تمام یونانی نو آبادیات پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ سسلی کے پورے جزیرے پر کارتھیج قابض ہو گیا۔ اس لیے اب روم کا مقابلہ اسی بقیہ طاقت۔ کارتھیج۔ سے ہونا تھا۔

رومن اور کارتھیج جنگیں۔
۔ ۔

ایشیاء کوچک کے مغربی ساحلوں پر ایک چھوٹی سی قوم فنیقی آباد تھی۔ جو 1000 ق م سے کامیاب تاجر بن گئے تھے۔ اور بحیرہ ایجیئن کے جزائر، افریقی ساحلوں اور بحیرہ روم کے جزیروں پر نوآبادیات قائم کر دی تھیں۔ اسپین کے جنوبی ساحل اور افریقہ ساحل پر ان کی نوآبادیات نے بڑی تیز ترقی کی تھی۔ افریقہ ساحل پر کارتھیج کا شہر 875 ق م میں انہی فنیقی قوم کے باشندوں نے آباد کیا۔ جو جلد ایک طاقتور تجارتی شہر بن گیا۔ اور اٹلی کے قریب سسلی اور سارڈینا کے جزائر پر قبضہ کر لیا۔

روم کے ساتھ کارتھیج کے تعلقات کچھ عرصہ تو خوشگوار رہے مگر تجارتی برتری کے لیے کشمکش کے باعث دونوں طاقتوں کے درمیان 264 ق م سے 156 ق م تک تین جنگیں لڑی گئیں۔ جو punic wars۔ یا کارتھیج جنگیں کہلائی جاتی ہیں۔ 118 سال کی ان طویل جنگوں میں بالآخر روم فتح یاب ہوا۔ اور یوں کارتھیج کے زیر اثر تمام ساحلی علاقوں پر روم نے قبضہ کر لیا۔ دوسری پیونک جنگ۔ ( 218 ق م تا 202 ق م ) کے دوران اسپین کے مشہور کارتھیجی گورنر ہنی بال نے روم کو کئی شکستیں دیں جن میں ایک کنائے 216 ق م ) کی لڑائی ہے۔ اس نے روم کا محاصرہ بھی کر دیا تھا تاہم زاما کی لڑائی ( 202 ق م ) میں وہ رومی جرنیل سیپو (Scipio) سے شکست کھا گیا۔ اور اسپین روم کا صوبہ بن گیا۔

تیسری پیونک جنگ ( 149 ق م تا 146 ق م ) میں کارتھیج شہر کو آگ لگا کر رومیوں نے تباہ کر دیا۔ یوں سارے بحیرہ روم کے ساحلوں پر روم کا تسلط قائم ہو گیا۔

( اس کے بعد مشرقی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستوں ) ۔ کی فتوحات کا مرحلہ آتا ہے۔ )

مشرق میں یونانی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستیں ) ۔ پر روم کا قبضہ اور غلبہ
۔ ۔

دوسری پیونک جنگ میں مقدونیہ (یونان حاص) کے حکمران فلپ پنجم نے ہنی بال کی مدد کر کے روم کی دشمنی مول لی تھی۔

(اسکندر اعظم کے بعد یونان کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی) ۔

روم نے 197 ق م میں مقدونیہ پر حملہ کر کے شکست دی۔ اور یوں مقدونی حکمران کے علاقے روم کے تسلط میں آ گئے۔

2۔ 133 ق م میں ایشیا کوچک میں سیلوقس (Selecus ) کی یونانی حکومت روم کا مقابلہ نہ کر سکی۔ اس کا بڑا حصہ رومی سلطنت میں شامل ہوا۔ اور یوں یونان کے زیر اثر بحیرہ روم کا تمام ساحلی علاقہ روم کے زیر اقتدار آ گیا۔

3۔ یونان کی تیسری سلطنت مصر میں بطلیموسی (Ptolemy) حکومت تھی۔ جو یونانی تہذیب کا مرکز تھی۔ بتدریج یہاں یونانی کمزور ہوتے گئے۔ اور 128 ق م میں مصر نے یونان کی برتری تسلیم کر لی۔ بیرونی معاملات میں روم کا حکم چلنے لگا۔ ( روم کے دور شہنشاہیت میں مصر رومن سلطنت کا صوبہ بن گیا )

۔ ۔
روم پر فتوحات کے اثرات
۔ ۔

کارتھیجی غلبے کے خاتمے اور یونانی حکومتوں کی مغلوبیت سے روم کو بحیرہ روم میں غالب بحری طاقت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ جس کے باعث سلطنت کی توسیع اور وسیع علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ نتیجتاً روم کی دولت اور سیاسی طاقت میں اضافہ کا باعث بنا۔

اسی طرح یونانی مملکتوں پر غلبے سے روم پر یونانی تہذیب و تمدن کے مختلف جہت اثرات بھی پڑے۔ تاہم ان فتوحات کے بعض منفی اثرات کا سامنا بھی روم کو کرنا پڑا۔ دولت کی فراوانی سے بعد میں کئی سماجی اور معاشی مسائل پیدا ہوئے۔ سینٹ اور عوامی اسمبلی میں طویل کشمکش شروع ہو گئی۔ اس میں امراء ( سینٹ) کو بالادستی حاصل ہو گئی۔ جس کی وجہ سے سلطنت کا جمہوری ڈھانچہ بگڑنے لگا۔ سینٹ اختیارات کی رسہ کشی کا اکھاڑہ بن گیا اور بد انتظامی سے وسیع سلطنت میں خانہ جنگیوں اور بغاوتوں اور تشدد کا سلسلہ شروع ہوا جس کے تدارک میں سینٹ ناکام ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ بالآخر اگلے دور میں آئینی اور جمہوری حکومت کے خاتمے اور آمریت ( شہنشاہیت ) کی صورت میں نکلا۔

سولا (Sulla ) کی موت کے بعد عوام نے اس کے قوانین کی مخالفت شروع کر کے عوامی اسمبلی کے اختیارات کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ اس دفعہ کو عوام کو یہ درس مل گیا تھا کہ فوجی حمایت رکھنے والے فرد کے بغیر عوامی اختیارات کی واپسی مشکل ہوگی۔ اس لئے عوام نے اپنی جانب سے ایک فوجی کمانڈر پومپے ( Pompey) کو 70 ق م میں قونصل منتخب کیا۔ جس سے عوامی اسمبلی مضبوط ہو گئی۔ چونکہ پومپے بنیادی طور پر فوجی کمانڈر تھا اس لیے اس کی دلچسپی فوجی مہمات پر زیادہ مرکوز تھی۔ اس سلسلے میں اس کی فتوحات میں ایشیا کوچک کے علاقے۔ شام، آرمینیہ، فلسطین بشمول یروشلم وغیرہ کو سلطنت روم کا حصہ بنانا شامل ہیں۔

اسی زمانے میں روم میں ایک اور عوامی لیڈر۔ ماریوس کی طرز سیاست کی حمایت اور سولا قوانین کی مخالفت کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔ یہ لیڈر۔ جولیس سیزر Julies Cesar۔ تھا۔ جو سلطنت روم کی تاریخ کا ایک اہم ترین کردار ہے۔

پومپے جب مشرقی فتوحات سے واپس روم آیا تو ذاتی اقتدار کے حصول کے بجائے فوج کی کمان سے دست بردار ہوا۔ تاہم سینٹ سے مفتوحہ علاقوں میں اپنے آئینی انتظامات نیز متعلقہ فوجیوں کے لیے رہائشی زمین کے مطالبے کر دیے۔ مگر دو سال تک وہ اس کی منظور نہ کروا سکا۔ اسی دوران پومپے اور سیزر کو کراسس۔ (Crasses ) کی صورت میں ایک دولت مند حامی مل گیا۔ ان تینوں نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت طے کر لیا کہ سیزر کو قونصل منتخب کروا کر کے مذکورہ مطالبات کے منوانے کی کوشش کی جائے گی۔

59 ق م میں جولیس سیزر قونصل منتخب ہوا یوں روم ان تین با اثر شخصیات کے زیر انتظام ا گیا۔ سیزر کی عوامی مقبولیت، پومپئی کے فوجی کارنامے اور کرسسس کی دولت عوامی اسمبلی کو سینٹ کے مقابلے طاقت ور بنانے کے لیے کافی تھی۔ یہاں سے آگے جولیس سیزر کا اہم دور شروع ہوتا ہے۔

جمہوریت سے شہنشاہیت تک گامزنی۔ پس منظر
۔ ۔ ۔

376 ق م میں کیے گئے لی سینی قوانین ( lecinus Laws ) سے عوام کو سیاسی اور معاشی حقوق ملے تھے۔ سینٹ کے علاوہ ایک عوامی اسمبلی بھی تھی۔ سینٹ کا ایک قونصل عوامی نمائندہ ہوتا تھا۔ مگر کارتھیج اور دوسری جنگوں کے دوران سینٹ اور امراء کے اختیارات عوامی اسمبلی کے مقابلے میں بڑھ گئے تھے۔ جنگوں سے واپسی کے بعد عوام مزدور بن گئے۔ ان کی معاشی حالت خراب ہونے لگی۔ جبکہ امراء طبقہ ان کا سیاسی اور معاشی استحصال کر کے طاقتور ہو گیا۔

ان حالات میں عوام کو اپنے حقوق کے لیے نئی جدوجہد کرنی پڑی۔ جس کا آغاز 133 ق م میں ٹریبیوں کے منتخب عوامی نمائندے۔ ٹھبریس گر سیچس (Tiberius Gracchus) نے کیا۔ اس نے زرعی اصلاحات کے حق میں آواز اٹھائی مگر اگلے سال اس کو قتل کیا گیا۔ جس کے بعد روم کی اندرونی سیاست میں تشدد شروع ہوا۔ 10 سال بعد 122 ق م میں ٹھبریس کے بھائی گائیس گریگس (Gaius Gracchus) عوامی ٹریبیون منتخب ہوا۔ اس نے اسمبلی سے عوام کے مفاد میں زرعی اور نوآبادیات میں حقوق کے قوانین پاس کروائے۔ تاہم روم کے امراء نے ان کے خلاف عوام کو بھڑکایا۔ سینٹ نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ گائیس اور اس کے حامیوں کو قتل کیا گیا۔ گریگس برادران کے ناکامی سے عوام نے یہ سبق حاصل کیا کہ عوامی انقلاب کی کامیابی کے لیے فوجی طاقت کا حصول ضروری ہے۔

خانہ جنگی۔ ماریوس ( Maieusاور سولاSulla)
کشمکش
۔ ۔

گائیس گریگس کے قتل کے بعد سینٹ پھر سے طاقتور اور بالادست ہو گیا۔ اور بدعنوانی بڑھنے لگی۔ اسی زمانے میں افریقی ریاست نومیڈیا کے حکمران ”جو گر تھا“ کے رومن نوآبادیات پر حملوں کے مقابلے میں رومی فوج ناکام ہو گئی تھی۔ تو روم کی عوامی اسمبلی نے ماریوس نامی نمائندے کو سپہ سالا ( ) بنا کر افریقہ بھیجا۔ اس نے جوگرتھا ”کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ ماریوس کو عوامی اسمبلی نے دوبارہ قونصل نامزد کیا۔ جس کے بعد اس نے فوج میں عوام کی بھرتی اور تربیت شروع کی۔

اسی اثنا جرمنی کی جانب سے بربری گال قبائل نے روم کی سرحدوں پر حملے شروع کیے ۔ ماریوس نے ان قبائل کو شکست دی۔ اس پر عوام نے اس کو 100 ق م چھٹی بار قونصل نامزد کیا۔ عوامی نمائندے ہونے کے باعث امراء کے ساتھ اس کی کشمکش شروع ہو گئی۔ تاہم عوامی اسمبلی کے بجائے سینٹ طاقتور اور بالادست ہو گیا۔

اسی زمانے میں اٹلی کے شہروں نے روم کے برابر شہریت کے حصول کے لئے بغاوتیں کیں۔ جو بالآخر دی گئیں اور ان بغاوتوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اطالوی شہروں کے بغاوتوں کے خاتمے کے بعد ایشیا کوچک کے مشرقی آزاد علاقوں کے حکمران ”متری دا تیز“ ( ) نے روم کے خلاف بغاوت کی۔ جس سے نمٹنے کے لیے سینٹ نے ”سولا“ کو فوج کا کمانڈر نامزد کیا۔ جو اطالوی ریاستوں کے خلاف کامیاب مہم سے لوٹا تھا۔ مگر ابھی روم داخل نہیں ہوا تھا۔ جبکہ دوسری طرف عوامی اسمبلی نے ”ماریوس“ کو فوج کا سپہ سالار۔ نامزد کیا۔ یوں ان دونوں میں اس مسئلے پر مخالفت ہو گئی۔

سو لا کے پاس چونکہ فوج تھی۔ اس لیے اس نے ”ماریوس“ کی نامزدگی پر روم پر حملہ کر دیا۔ ماریوس نے روم سے نکل کر افریقہ میں پناہ لی۔ سولا کی اس کامیابی سے سینٹ پھر سے طاقتور ہو گئی۔ اس کے ساتھ سو لا فوج لے کر ایشیا کوچک کی بغاوتوں کے دبانے کے لیے نکل پڑا۔ اور کئی فتوحات حاصل کیں۔ جبکہ اسی دوران ماریوس افریقہ سے روم واپس آیا۔ عوام کی مدد سے امراء اور سینٹ کے خلاف اعلان جنگ کر کے ان کو کچل دیا۔ اور ساتویں بار قونصل کے عہدے پر منتخب ہوا۔ مگر ان کا جلدی انتقال ہو گیا۔

ادھر سولا ”کا ایشیا کوچک سے واپسی پر عوامی پارٹی نے اس کو روم میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اس کے مقابلے کے لیے فوج تشکیل دی۔ مگر سولا کی تجربہ کار فوج کے مقابلے میں شکست سے دو چار ہوئی۔ یوں سولا 83 ق م کو روم میں داخل ہوا۔ اور اس پر قبضہ کر کے ڈکٹیٹر بن گیا۔ وہ روم کی تاریخ میں پہلا فرد تھا جس نے فوجی طاقت سے ڈکٹیٹر شپ حاصل کر لی تھی۔ اس نے اقتدار پر قابض ہو کر سینٹ کے مخالفین ( ماریوس کے حامیوں ) کو قتل کیا۔ عوامی قوت کے خاتمے اور سینٹ کو انتظام سلطنت سنبھالنے کے قابل بنانے کے بعد سولا 79 ق م میں سینٹ کے حق میں سبکدوش ہو گیا۔

گریگس برادران کے اصلاحات کا مقصد سینٹ کے مقابلے میں عوامی اسمبلی کو آئینی اور انتظامی اختیارات دینا تھا۔ جبکہ ”سولا“ نے یہ اختیارات سینٹ کو واپس دلائے۔ سولا نے فوجی طاقت کے ذریعے ڈکٹیٹر شپ قائم کر کے شخصی حکومت کا راستہ کھول دیا۔

جولیس سیزر کی فتوحات۔

۔ ۔ جولیس سیزر ایک دور اندیش سیاست دان کی حیثیت سے جانتا تھا کہ روم میں طاقت ور ہونے کے لیے فوج کا کمان بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے سرکش گال قبائل اور ان کے آزاد علاقوں ( فرانس وغیرہ ) کو فتح کر کے رومی سلطنت میں شامل کرنے لے لیے عوامی اسمبلی سے خود کو فوج کا سپہ سالار اور گال کے علاقے کا گورنر نامزد کروایا۔ فرانس اور جرمنی پر چھائے ہوئے بر بر گال قبائل کو شکست دے کر سیزر نے خود کو بحیثیت فوجی کمانڈر بھی منوایا۔ تمام موجودہ فرانس اور بلجیئم کو فتح کرنے کے علاوہ وہ سمندر عبور کر کے انگلستان کے جزائر تک پہنچا۔

سیاست دان اور فوجی کمانڈر کے ساتھ جولیس سیزر ایک بلند پایہ نظر نگار بھی تھا۔ اپنی ان فتوحات پر کتاب لکھ کر روم بھیجی جس سے روم کے عوام میں اس کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔ تاہم سینٹ کو سیزر سے یہ لاحق ہو گیا کہ روم واپس آ کر وہ فوج کی کمان نہیں چھوڑے گا۔ سیزر مزید پانچ سال کے لیے گال کے علاقوں کا گورنر نامزد ہو گیا تھا۔ ان کی مغرب میں جاری فتوحات سے وہ اپنی فوج میں بے حد مقبول تھا۔

اسی دوران کراسس ( Crasses ) مشرقی مہمات میں مر گیا تھا۔ جبکہ پومپے روم میں تھا۔ سینٹ نے سیزر کی طاقت کے توڑ کے لیے پومپے کو سپہ سالار نامزد کر کے سیزر کو کمان سے دست برداری کا حکم۔ بھیجا۔ سیزر حالات کو جان گیا تھا۔ اس لیے گال قبائل میں اپنی مہمات کو چھوڑ کر فوجیوں کو اٹلی کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے روم پر فوجی طاقت سے قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

49 ق م میں اٹلی اور الپس کے پہاڑوں کے درمیان واقع دریائے روبیکن (Rubicon۔ ) میں اپنا گھوڑا ڈالتے ہوتے ہوئے یہ مشہور فقرہ کہا تھا کہ۔ ”اب پانسہ پھینک دیا ہے۔“ ۔ تاریخ نے ثابت کیا۔ کہ یہ پانسہ صحیح پھینکا گیا تھا۔ روم میں سیزر کی برق رفتار آمد کے باعث پومپے کی فوج مقابلہ نہ کر سکی۔ وہ اور سینٹ ممبران یونان بھاگ نکلے۔ سیزر نے اسپین پر حملہ کر کے وہاں سینٹ کے حامی فوجوں کو شکست دی۔ اسی دوران پومپے یونان سے اپنے حامیوں سمیت روم پر قبضہ کرنے کے روانہ ہوا۔

تاہم۔ سیزر تیزی سے اسپین سے واپس آیا اور یونان کی طرف بڑھا۔ 48 ق م میں صوبہ تھیسلی میں فار سیلیس کے مقام پر پومپے کو شکست دی۔ اس کے تعاقب میں مصر جا کر اس کو قتل کیا۔ پومپے سے تو جان چھوٹ گئی لیکن سیزر مصر کی حکمران ملکہ قلوپطرہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ مصر میں وہ اکتوبر 48 ق م سے جون 47 ق م تک رہا۔ جہاں سے اس نے روم کے افریقی اور اسپینی مقبوضات پر اپنا اقتدار مستحکم کیا۔ ان مشرقی فتوحات کے بعد سیزر روم واپس آ گیا۔

سیزر بحیثیت ڈکٹیٹر
۔ ۔

روم واپس آ کر سیزر نے خود کو تمام زندگی کے لیے نامزد کیا۔ تمام بڑے عہدوں پر فائز ہو گیا۔ حتی کہ مذہبی اقتدار بھی اپنے ہاتھ لیا۔ تمام بڑے اقدامات میں اسمبلی کو نظر انداز کرتا۔ اس کے خیال میں اسمبلی اور سینٹ کے درمیان کشمکش مضر تھی۔ اور جہموریت سے روم کی برتری کا حصول نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اس لیے تمام۔ اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھے۔ اس نے سلطنت کی ترقی کے لیے کئی اصلاحات کیے ۔ تاہم اس کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے باعث مخالفین بھی پیدا ہو گئے۔

سینٹ کو با اثر بنانے کے حامی اور سیزر کی اصلاحات سے منفی طور پر متاثر ہونے والے امراء اس کے دشمن بن گئے۔ 60 امراء نے سیزر کو قتل کرنے کی سازش تیار کر لی۔ ان میں نمایاں کیشش اور بروٹس (Brutus) تھے۔ 15 مارچ 44 ق م کو جشن بہار کے دوران سینٹ کے حال میں داخل ہوتے ہی اس پر حملہ کر کے قتل کیا گیا۔ جولیس سیزر کے قتل سے روم کی دم توڑتی جمہوریت زندہ ہونے کے بجائے وہاں شہنشاہیت کا آغاز ہوتا ہے۔

دور شہنشاہیت کی آمد
۔

جولیس سیزر کے قتل کے بعد عوام نے جہموریت پسندوں کے بجائے سیزر کی حامیوں کا ساتھ دیا۔ اور یوں اس کا خاص مشیر ”انٹونی“ روم پر قابض ہو گیا۔ جبکہ سیزر نے اپنی وصیت میں اپنے بھانجے ”اکٹوین“ (Octavian) کو جانشین مقرر کیا تھا۔ انٹونی نے اس کو نظرانداز کیا۔ مگر۔ اکٹوین نے سیزر کے وفادار فوجیوں کی حمایت سے اپنی اہمیت جتلانی شروع کی۔ 43 ق م میں وہ قونصل منتخب ہوا۔ انٹونی کے ساتھ جنگ کی صورت پیدا ہوئی۔ تاہم ایک معاہدے کے تحت روم کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم کی گئی۔

روم اور اس کے مغربی حصے پر اکٹوین، ۔ مشرقی حصے بشمول مصر میں انٹونی۔ اور افریقی مقبوضات پر سیزر کے ایک قریبی ساتھی لی پیڈس ( Lepidus) کی حکمرانی تسلیم کی گئی۔ ان تینوں نے مل کر سیزر کے قاتلوں اور ان کے حامیوں کو یونان اور مقدونیہ میں شکستیں دیں۔ اور اس کے بعد اپنے اپنے متعلقہ علاقوں میں اپنا اقتدار سنبھال لیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد اکٹوین اور افریقی حصے کے حکمران لیپیڈس میں ٹھن گئی۔ اکٹوین نے اس کو شکست دے کر افریقہ کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔

مشرقی سلطنت میں انٹونی قلوپطرہ ( Cleopatra) کے حسن میں گرفتار تھا۔ روم میں یہ افواہ تھی۔ کہ قلوپطرہ انٹونی کی حمایت سے رومن سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یوں انٹونی اور اکٹوین میں جنگ ناگزیر ہو گئی۔ 31 ق م میں یونان کے مغربی ساحل Actium پر اکٹوین نے دونوں کو فیصلہ کن شکست دی۔ یوں مشرقی حصے پر قابض ہو کر اکٹوین تمام رومن سلطنت کا حکمران بن گیا۔

اکٹوین۔ اگسٹس (Octavian Augustus ) دور حکومت۔ 31 ق م تا 13 عیسوی )
۔ ۔

اکٹوین نے اگرچہ سلطنت کی ظاہری جمہوری ہیئت بر قرار رکھی تاہم اصل طاقت اس کے پاس تھی۔ اگرچہ خود کو ڈکٹیٹر کے بجائے Princeps۔ (پہلا شہری ) کہلانا پسند کیا۔ مگر شخصی حکومت (شہنشاہیت) قائم کی۔ سینٹ نے اسے آگسٹس۔ Augustus کا خطاب دیا۔ تاریخ میں اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

آگسٹس نے سلطنت کو وسعت دینے کے بجائے اس کے انتظام پر توجہ دی۔ کئی اچھے اقدامات کیے۔ شمال میں دریائے رائن ( Rhine ) اور دریائے ڈینیوب (Danube) ، مشرق میں بحیرہ اسود اور دریائے فرات، جنوب میں صحارا کا ریگستان اور مغرب میں بحر اوقیانوس کو سلطنت کے حدود قرار دیا۔ روم کی خوبصورتی پر بھر پور توجہ دی۔ اس کی زیر سرپرستی تاریخ دان لیوی۔ ( Livy) نے روم کی تاریخ لکھی۔ ورجل اس کے دور کا بڑا مشہور شاعر گزرا ہے۔ حضرت عیسی علیہ سلام کی پیدائش بھی آگسٹس کے زمانے میں ہوئی۔

آگسٹس کے دور سے لے کر 180 عیسوی تک کا زمانہ Pax Romana ( رومی امن) روم کا بہترین دور کہلایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ دور امن و استحکام اور خوشحالی کا تھا۔

اگسٹس کے جانشین
۔ ۔

44 سال حکمران رہ کر 14 عیسوی کو آگسٹس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کے چار حکمران روم پر حکومت کرتے رہے۔ جو ”جولین سیزر“ حکمران کہلائے ان میں آخری حکمران بدنام زمانہ نیرو Nero تھا۔

نیرو نے 69 ع میں خودکشی کر لی۔
فلاوی ( Flavi ) حکمران
۔

نیرو کی خودکشی کے بعد روم پر 69 ع سے 96 ع تک فلاوی (Flavian ) خاندان کی حکومت رہی۔ اس کے پہلے حکمران وسپاسیان ( Vespasian ) نے فوجی طاقت کے ذریعے حکومت حاصل کی۔ اپنے بیٹے Titus کو نامزد کر کے شہنشاہیت کو موروثی بنا لیا

ٹیٹس (Titus) کے دور میں یہودیوں کی بغاوت کے باعث یروشلم کو فتح کر کے تباہ کیا گیا۔ اس کے بھائی ڈومیشین (Domitian) کے دور میں کچھ فتوحات ہوئیں۔ عیسائیوں پر مظالم کی انتحاہ بھی کی گئی۔ 96 ع میں اس کو قتل کر کے فلاوی دور کا حاتمہ ہوا۔

۔ ۔
پانچ عمدہ بادشاہوں کا دور۔ ( 96 ع تا 180 ع)
۔ ۔

یہ دور روم کا بہترین زمانہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بہت سکون اور خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور کے آخری دو شہنشاوں کا تعلق انٹونین خاندان سے تھا۔ اسی بنا اس کو۔ انٹونی ”دور بھی کہا جاتا ہے۔

اس دور کے دوسرے شہنشاہ ٹراجن (Trajan) کے زمانہ حکومت ( 98 ع تا 117 ع) میں دریائے ڈینیوب کے شمالی علاقوں اور آرمینیا اور دجلہ و فرات کے علاقے رومن سلطنت میں شامل کیے گئے۔ ٹراجن اپنی فتوحات اور امن و امان کی وجہ سے بڑے شہنشاوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے بعد جتنے شہنشاہ آئے انہوں نے انتظام سلطنت اور شہریوں کے حقوق پر زیادہ توجہ دی۔ ان میں ہیڈریان Hadrian ( 117 ع تا 138 ع) اور انٹونیئس ( 138 ع تا 161 ع) کے ادوار کافی خوشحالی اور امن کے تھے۔

ان کے بعد مارکیوس اگزلوس ( Marcus Auxellius) آیا۔ وہ ایک جرنیل کے علاوہ ایک فلسفی بھی تھا۔ جنگوں کے دوران ”Meditations“ کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کے دور میں کئی اچھے اقدامات کیے گئے۔ تاہم اس کے دور میں عیسائیوں کا قتل عام بھی ہوا۔ 180 ع میں اس کی موت کے بعد روم میں خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روم کا Pax Romana ) رومی امن) کہلایا جانے والا دور بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

شہنشاہیت کا زوال۔
۔ ۔

180 ع میں مارکس اریلی ایلس (Marcus Aurelius) کے بعد سلطنت روم خانہ جنگی کا شکار رہا۔ شاہ کے حفاظتی دستوں اور صوبائی فوجوں کی حمایت سے حکمران بنتے رہے۔ بعض اوقات تو بیک وقت کئی شہنشاہ سلطنت کے حاکم رہے۔ ان کی باہمی لڑائیاں عوام کے لیے سخت مصیبت کا باعث بنی رہیں۔ خانہ جنگی کی یہ حالت 180 ع سے 395 ع تک اگلے دو سو سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے باعث سلطنت کمزور ہو کر شمالی یورپ اور جرمن قبائل کے حملوں کا نشانہ بنا۔ حتی کہ جرمن روم کے شہنشاوں سے خراج لینے لگے۔

285 ع میں ڈیو کلشین (Diocletian ) روم کا شہنشاہ بنا۔ اس کے دور میں سینٹ کی حیثیت محض شہری کونسل کی ہو گئی۔ اور اپنے لیے سورج دیوتا کا خطاب اختیار کر لیا۔

سلطنت کے انتظامی اکائیوں (Units ) کی تنظیم نو کی۔ جانشینی کے مسلے کے حل کے لیے اس نے یہ تدبیر آزمائی کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ مشرقی حصہ اپنے پاس رکھا جبکہ مغربی حصے پر اپنے ساتھی میگزیمین ( Maximian ) کو حکمران بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد دونوں شہنشاہوں نے اپنے اپنے جانشین مقرر کر کے سلطنت کے حصوں کو ان میں تقسیم کیا۔ یوں رومن سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ڈیو کلیش کے دور تک ان چاروں کے مابین تعلقات خوشگوار رہے۔ بیرونی حملوں کو روکا جاتا رہا۔ اگرچہ روم کی مرکزی حیثیت نہیں رہی تھی۔ 305 ع میں ڈیو کلیش نے تحت و تاج سے دستبردار ہو کر ملکی معاملات سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جس کے بعد پھر سے خانہ جنگی کا دور شروع ہوا۔

شہنشاہ قسطنطین Constantine کا دور ( 313 ع تا 337 ع)
۔ ۔

چونکہ 305 ع میں ڈایکلوشن (Diocletian ) کی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے اس کا جانشینی کے لیے مرتب کردہ سسٹم موثر ثابت نہ ہوا۔ اور خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ حالت یہ بن ہو گئی تھی کہ 310 ع میں شہنشاہیت کے بیک وقت پانچ دعویدار بن گئے تھے۔ مگر ان میں قیصر کوئی نہیں تھا۔ خانہ جنگی اور اقتدار کی اس رسہ کشی میں قسطنطین کامیاب ہوا

وہ پہلا رومی شہنشاہ تھا جس نے آبائی مذہب ( دیوتاؤں کی عبادت ) چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی۔ اس نے 313 ع میں ضابطہ میلان۔ (Edict of Milan ) کے تحت عیسائیت کو قانونی مذہب کا درجہ دیا۔ اس سے نہ صرف عیسائیوں پر مظالم کا سلسلہ بند ہوا۔ بلکہ عیسائیت کی تبلیغ و ترویج بھی شروع ہو گئی۔

قسطنطین سے پہلے سلطنت کی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے دنوں سے رومن سلطنت کی حکمرانی مشرق منتقل ہو چکی تھی۔ اس لیے اس نے Byzantium کو دارالسلطنت بنایا۔ جو اس کے نام پر Constantinople ( قسطنطنیہ ) کہلایا۔

قسطنطین نے ٹکڑوں میں منقسم سلطنت کو پھر سے متحد کیا۔
سلطنت کی تقسیم۔ اور قدیم مغربی رومی سلطنت کا حاتمہ تک کا دور ( 395 ع تا 476 ع)
۔ ۔

337 ع میں شہنشاہ قسطنطین کی موت کے بعد دو مشترکہ شہنشاہوں ( ایک برائے مشرق اور دوسرا برائے مغرب) کی حکمرانی میں سلطنت اگلے لگ بھگ 60 سال تک متحد رہی مگر شہنشاہ تھیوڈوسس ( Theodosius) کے بعد 395 ع میں سلطنت مستقل طور پر دو علیحدہ حصوں (مغربی اور مشرقی سلطنتوں ) میں تقسیم ہو جاتی ہے

۔

مغربی رومن سلطنت جرمنی اور شمالی یورپ کی جانب سے بر بر قبائل کے حملوں کی زد میں رہی۔ 378 ع سے 476 ع تک سو سالوں کے عرصے میں جرمن اور بر بر قبائل ( ہن، وسی گاتھ، گال، ونڈل وغیرہ ) کا سلطنت روم پر حملوں کے نتیجے میں اٹلی، افریقہ، اسپین، گال اور برطانیہ کے علاقوں پر قابض ہو گئے۔

روم کے آخری حکمران 6 سالہ رومولس آگسٹلس ( Romulus Augustus ) کی تحت نشینی ( 475 ع ) کے ایک سال بعد 476 ع میں جرمن قبائل نے روم پر قبضہ کر کے مغربی رومن سلطنت کا آخری نشان بھی مٹا دیا۔

اس کے بعد اگلے 300 سال تک رومن سلطنت کے مختلف حصوں پر جرمن قبائل کی حکومتیں رہیں اسی زمانے میں یہ قبائل عیسائی چرچ کی کاوشوں سے عیسائیت بھی قبول کرتے رہے

( سقوط روم کے بعد اگلے دور میں یورپ میں عیسائی چرچ مذہبی کردار کے علاوہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی بڑا اہم رول ادا کرتا رہا جس کی الگ تاریخ ہے )

۔ ۔

8ویں صدی عیسوی میں روم کو پھر اس وقت اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جب فرانکس بادشاہ شارلیمن جرمن قبائل کو عیسائی مذہب کی بنیاد پر متحد کر کے شہنشاہیت قائم کرتا ہے اور اس کی تاج پوشی روم میں پوپ کرتا ہے۔ روم کی یہ سلطنت ”مقدس رومن سلطنت“ کے نام سے مشہور ہے۔ تاہم یہ دور چونکہ یورپ کے زمانہ وسطی سے ہے اس لیے یہ یورپ کی قدیم تاریخ میں شامل نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس سلطنت سے پہلے کے قدیم رومی سلطنت کی نوعیت کئی حوالوں سے مختلف تھی۔

قدیم رومن سلطنت یا روم کی سیاسی تاریخ کا خاتمہ رومن سلطنت کے مختلف حصوں پر جرمن قبائل کے بتدریج تسلط اور آخر 476 ع میں روم پر ان کے قبضے سے ہوتا ہے۔

۔ ۔

مشرقی سلطنت (قسطنطنیہ ) بازنطینی کہلائی۔ (ان میں شام، مصر ایشیا کوچک، تھربس کے علاقے (جنوب مشرقی یورپ) یونان کے ممالک شامل تھے ) ۔ تقسیم کے بعد سے اہنے خاتمہ تک اس کی اپنی ایک اہم تاریخ ہے۔

مختلف نشیب و فراز پر مبنی ایک ہزار تاریخ کے دوران زیادہ تر عرصے میں فوجی۔ سیاسی۔ معاشی اور ثقافتی لحاظ سے بڑی زبردست اہمیت کی حامل سلطنت رہی ہے

مشرقی رومن یا بازنطینی کو پہلے ایران اور ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا۔

15 ویں صدی کے وسط ( 1453 ع ) کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ کے فتح کرنے سے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments