پاکستان اور طالبان حکومت تعلقات


افغانستان میں جنگ اور انتشار ہمیشہ پاکستان کے لیے مضر ثابت ہوئے ہیں اس لیے وہاں امن و استحکام کا قیام اس کے اپنے مفاد میں ہے۔

1979 میں روسی مداخلت کے بعد سے افغانستان مسلسل جنگوں اور بدامنی کا شکار چلا ہے۔ جن سے خطے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان رہا۔ روس کے نکلنے اور نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان نے کوشش کی کہ افغانستان میں پاکستان دوست ٹولہ برسراقتدار آئے مگر وہاں مسلسل خانہ جنگی کے باعث خاص کامیابی نہ ملی۔

پھر خانہ جنگی کے اس فضا میں قندھار میں کئی درجن طالبان مقامی جنگجوؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بدامنی سے اکتائے افغان عوام طالبان کی حامی بن گئے۔ یہی طالبان ملا عمر کی سربراہی میں جلد کابل سمیت افغانستان کے 90 فی صد علاقے پر قابض ہو کر 1996 میں طالبان حکومت قائم کر لیتے ہیں۔ طالبان کے اس کامیابی میں پاکستانی حکومت کے سپورٹ کا بھی کافی رول تھا۔

پاکستانی حمایت کے محرکات تزویاتی، سیاسی اور معاشی تھے۔ مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کی مستحکم حکومت پاکستان دوست ہوگی۔ اور یوں ( 1 ) اپنی مغربی سرحد کی طرف سے عدم تخفظ کا خطرہ ختم ہو جائے گا ( 2 ) ۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے تحت وسطی ایشیا سے تجارت میں آسانی ہوگی ( 3 ) طالبان کو بھارت پر دباو ڈالنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا ( غالباً اسی فیکٹر کی وجہ سے طالبان کو تزویاتی سرمایہ ( Strategic Assets ) کہا جاتا رہا۔

پرو طالبان پالیسی کا آغاز تو بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہوا تھا مگر بعد کے نواز شریف حکومت نے بھی اس کو برقرار رکھا بلکہ طالبان حکومت کو تسلیم بھی کیا۔ نواز شریف کے بعد پرویز مشرف نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا۔ سادہ الفاظ میں یہ حکومت کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی پالیسی تھی۔

9/ 11 کے بعد خطے کی صورت حال نے ایک بڑا ٹرن لیا۔ طالبان حکومت کے حامی اور مددگار پاکستان نے بھی امریکی دباو کے تحت طالبان کے خلاف بادل نخواستہ ٹرن لیا۔ افغانستان پر امریکی یلغار اسامہ بن لادن اور اس کے القاعدہ نیٹ ورک کے خلاف تھا۔ مقامی طالبان سے اس کا کوئی خاص مسئلہ یا عناد نہ تھا۔ پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے انتہائی کوشش کی کہ اپنے تزویاتی اثاثے ( طالبان حکومت ) کو بچائے۔ لیکن طالبان اسامہ اور القاعدہ کو نکالنے پر تیار نہ ہوئے۔

یوں امریکہ نے حملہ کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ مگر برے دن پاکستان پر آ گئے۔ طالبان کے خلاف امریکہ کا ( مجبوراً ) ساتھ دینے کے ردعمل میں بعض طالبان عناصر نے یہاں دہشت گردی شروع کردی۔ پاکستان پر اس کے مختلف جہت منفی اثرات پڑے خصوصاً خیبر پشتونخوا کے سوات اور قبائلی علاقوں کے عام لوگوں کو جن المناک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک الگ داستان ہے۔ کئی سال تک جاری خود کش حملوں اور شدید دہشت گردی کو بالآخر پاک فوج نے کافی حد قابو تو کر لیا مگر غیر یقینی صورت حال برقرار ہے۔

افغانستان سے امریکہ فوج کے انخلا کے بعد غیر واضح حالات کے باعث ممکنہ خدشات بڑھ گئے ہیں

اگرچہ کابل پر طالبان کا قبضہ پرامن انداز میں ہوا ہے۔ طالبان کی طرف سے معتدل طرز عمل اور پالیسی اپنانے کی یقین دہانی بھی اچھا شگون ہے تاہم کئی عوامل باعث تشویش ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں پائدار امن کے لیے ایک مستحکم حکومت کا قیام تب ہو سکتا ہے جو وسیع البنیاد ہو یا شفاف جمہوری طریقے سے معرض وجود آئی ہو۔

طالبان دوسرے متعلقہ گروہوں کو حکومت میں شریک کرانے پر بظاہر راضی نظر آتے ہیں مسئلہ مگر طرز حکومت کا بھی ہے۔ طالبان امارت اسلامی کے قیام کے علم بردار ہیں اور بعض رعایتوں کے سوا افغانستان میں اپنی فہم شریعت پر مبنی طرز حکومت سے زیادہ انحراف پر تیار نہ ہو سکیں۔ جبکہ کئی دوسرے گروہوں یا جماعتوں کی طرز فکر اور نقطہ نظر مختلف ہے۔ یوں ان سب پر مشتمل سیٹ اپ میں پالیسیوں میں غیر آہنگی کا فقدان ٹکراو کا باعث بن کر نتیجتاً سیاسی عدم استحکام ہوگا۔

پاکستان کی یقیناً یہ کوشش ہوگی کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے حالات کو ساز گار بنائیں۔ موجود حالات میں پاکستان شاید طالبان کی زیر قیادت سیٹ آپ کو بوجوہ اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہو۔ تاہم اس کے ممکنہ منفی مضمرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ طالبان چونکہ ایک مذہبی سوچ اور نظریے کے تحت منظم، متحد اور سرگرم ہیں۔ نظریہ ان کی تحریک کی اساس ہے۔ شریعت کے نفاذ کے علاوہ جہاد بھی اس کا ایک جز ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ افغانستان میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی جہادی اور عسکری گروپس موجود ہیں۔ جو امریکہ کے خلاف جنگ میں افغان طالبان کے در پردہ حامی اور مددگار رہے ہیں۔

یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان اپنے شریعتی و جہادی مقاصد اور سرگرمیاں اپنے ملک تک محدود رکھیں۔ لیکن وہاں موجود بعض تنظیموں یا گروہوں پر شاید زیادہ اثر انداز ہونے کے پوزیشن میں نہ ہوں۔

طالبان اگرچہ متعلقہ بیرونی ممالک کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ اپنی سر زمین پر انتہا پسند عسکری گروپس یا عناصر کو پناہ نہیں دیں گے۔ مگر کئی اسباب کے بنا اس پر عمل کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔

پہلا سبب تو افغان طالبان کا نظریہ ہو سکتا ہے۔ ان کا اپنے نظریاتی ہمنوا اور مددگار گروپس یا تنظیموں کے خلاف ہو جانا اپنے نظریاتی مسلک کے خلاف جانے کے مترادف ہوگا۔

دوسرا یہ کہ ان میں بعض گروپس خاصا اثر و رسوخ اور اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر ان کے خلاف ایکشن لینا بھی چاہے تو یہ مختلف جہت پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی تنظیموں میں ایک تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) بھی ہو سکتی ہے۔ کئی سال پہلے تک اسی تنظیم نے پاکستان کو شدید دہشت گردی کا نشانہ بنائے رکھا اگرچہ کئی سالوں سے ان کی کارروائیاں رک دی گئیں ہیں لیکن افغانستان کی بدلتی صورت حال میں اس کا پھر نئے سرے سے متحرک ہونے کے آثار دہشت گردی کے حالیہ چند واقعات اور ان کے رہنماؤں کے بعض بیانات سے نظر آ رہے ہیں۔

جو پاکستان کے لیے کافی باعث تشویش ہو سکتا ہے۔ اگر طالبان انتظامیہ نے اپنے وہاں اس کے خلاف موثر عملی اقدامات کے بجائے زبانی کلامی بیانات سے کام چلانا چاہا یا کچھ ظاہری وقتی چھوٹے موٹے اقدامات کر کے بعد میں نرمی دکھانی شروع کی تو اس صورت میں پاکستان کا اس ( طالبان انتظامیہ) کے ساتھ تناو کا احتمال ہو سکتا ہے۔ جس کے اپنے منفی مضمرات ہوں گے۔

پاکستان کے اکثر حلقوں میں بوجوہ ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے اپنے لوگ ہیں۔ بلکہ ان کو اسٹرٹیجک اثاثہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

بلاشبہ افغان طالبان پاکستان کے لیے بوجوہ دوستانہ سوچ رکھتے ہوں گے۔ مگر یہ سمجھنا غلط فہمی ہوگی کہ افغان طالبان پاکستان کے تابعدار اور وفا دار بندے ہیں۔ ان کے طرز فکر اور عمل کا منبع ان کا اپنا نظریہ ہے۔ ان کی وفاداری بنیادی طور اسی سے ہے۔

اسی طرح بین الاقوامی سیاست کا ایک اصول ہے کہ آج کا دوست کل کا دشمن بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں دوستی اور دشمنی کی بنیاد مفادات ہوتے ہیں۔

اس لیے افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے ساتھ پاکستان کے مقتدر فیصلہ سازوں کو طالبان حکومت کے ساتھ کسی ممکنہ تناو یا کھچاو کے احتمال کو مدنظر رکھنا ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments