مرتضی وہاب: کراچی کا نیا ایڈمنسٹریٹر


سندھ حکومت نے مرتضی وہاب کو کراچی کا نیا ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر شہر کی بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر ہونے کہ ساتھ ساتھ وہ وزیراعلی سندھ کے مشیر اور سندھ حکومت کے ترجمان بھی ہیں اس لیے ان پر اب بھاری ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں اب وہ ان ذمہ داریوں کو احسن انداز سے نبھاتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مرتضی وہاب پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک نوجوان چہرہ ہیں وہ محنتی اور با صلاحیت ہیں مرتضی وہاب کا تعلق بنیادی طور پر کراچی سے ہی ہے اس لیے وہ کراچی کے مسائل کو بھی بخوبی جانتے ہیں، مگر سندھ میں مسلسل تیسری دفع حکومت میں ہونے کے باوجود ان کی جماعت سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ وہ ڈلیور نہیں کرتی، مرتضی وہاب پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کام سے اس تاثر کی نفی کریں۔

کراچی ایک طویل عرصے سے حکمرانوں کی توجہ کا منتظر ہے ایک طویل عرصے تک دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار رہنے کے بعد شہر کا امن تو لوٹ آیا ہے مگر شہر میں گورننس نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی ہر جماعت اس کا الزام دوسری جماعت پر لگاتی ہے۔ شہر میں کام نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ شہر پر اختیار کی جنگ اور شہر میں کسی ایک جماعت کا اختیار نا ہونا بھی ہے، 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف شہر کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی مگر وفاق میں حکومت ہونے کہ باوجود کراچی کے حالات میں کوئی خاطر خوا بہتری نا لا سکے البتہ وفاقی ادارے ایس آئی ڈی سی ایل اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کچھ ترقیاتی کام ضرور کروائے مگر اگر کراچی کے حالات اور تحریک انصاف کو دیے گئے مینڈیٹ کو دیکھا جائے تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

وفاقی رہنما شہر میں کام نا ہونے کی سب سے بڑی وجہ وہ 18 ویں ترمیم کو قرار دیتے ہیں وفاقی رہنماؤں کے مطابق 18 ویں ترمیم کے بعد زیادہ تر انتظامی اختیار اب صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ سال 2020 میں اپنی چار سال مدت پوری کرنے والیا ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر کراچی وسیم اختر بھی اپنی پوری مدت اختیارات کا رونا روتے رہے اور کوئی کارکردگی نا دکھا سکے۔

اب تمام بلدیاتی محکمے سندھ حکومت کے پاس ہیں اور ایڈمنسٹریٹر بھی سندھ حکومت کا منتخب کردہ ہے۔ ایڈمنسٹریٹر صاحب کو چاہیے کہ اب وہ شہر کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی پوائنٹ اسکورینگ سے باہر نکل کر حقیقی معنوں میں کوشش کریں۔ سب سے پہلے پانی کے مسئلے پر توجہ دیں واٹر بورڈ کے افسران سے کام لیں بجائے عوام کو پانی کے لیے ہائیڈرنٹ پر لائنوں میں لگانے کہ انہیں لائنوں میں پانی دے کر باقاعدہ بل لیا جائے۔ شہر میں سڑکوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے اور سٹریٹ لائٹس کو روشن کیا جائے تاکہ جرائم میں کمی آئے۔

کراچی ٹرانسفرمیشن پلان اس شہر کے لیے بہت اہمیت کا حامل اس منصوبہ کے تحت وفاق اور صوبائی حکومت شہر میں سیوریج اور ڈرینیج سسٹم پر اربوں روپے خرچ کرر ہیں خاص کر کوشش کی جائے کہ شہر کے تین بڑے نالوں کے ساتھ باقی نالوں کو بھی بہتر کیا جائے اس کام میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو جلد از جلد پورا کرنا چاہیے اور ساتھ ہی تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران بے گھر افراد کی بحالی پر بھی کام کیا جائے۔ ان چند کہ علاوہ بھی شہر میں بے پناہ مسائل ہین جن سے ایڈمنسٹریٹر کراچی بخوبی آگاہ ہیں امید ہے وہ انہیں جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ شاید پیپلز پارٹی کے پاس کراچی میں ڈلیور کرنے اور کراچی کے مسائل کو حل کر کے آنے والے بلدیاتی الیکشن اور 2023 کے الیکشن میں کراچی سے ووٹ حاصل کرنے کا سب سے سنہری موقع ہے اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اس امتحان میں ناکام رہی تو شاید دوبارہ انہیں یہ موقع کبھی نا ملے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments