بادشاہ خان، بے نظیر اور سرزمین افغانستان


سرزمین ہندوستان اسلام وعلیکم یہ مکالمہ ہندوستان کے فلم لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن نے اپنی فلم خدا گواہ کے لئے ادا کیا، اس فلم میں ان کے کردار کا نام بادشاہ خان تھا جو اپنی محبوبہ بے نظیر کے پتا جی کے قاتل کو افغانستان سے مارنے ہندوستان جاتے ہیں، ہندوستان پہنچ کر اپنا تعرف کراتے ہوئے بادشاہ خان کا مزید کہنا تھا میرا نام بادشاہ خان ہے عشق میرا مذہب اور محبت میرا ایمان ہے، فلم میں بادشاہ خان نے اس مذہب کی دیگر تفصیلات کا مزید ذکر نہیں کیا، دیگر تفصیلات کسی اور دوست کو ملیں تو ضرور شیئر کریں، فلم خدا گواہ میں موصوف افغانستان سے بندوق اٹھائے گھوڑے پر سوار ہو کر سیدھا ہندوستان میں داخل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔

نہ کسی پاکستانی چیک پوسٹ پر روکا گیا نہ ہندوستان میں داخل ہوتے ہو کسی نے پوچھا کون صاحب ہیں آپ اور بندوق اٹھائے یوں کہاں جا رہے ہیں آپ؟ اس پر ایک کمیشن تو بنانا چاہیے تھا، کیسے یہ صاحب اتنا آگے چلے گئے؟ چلیں چیک پوسٹ پر تو چلیں ادھر ادھر سے ہوشیاری کر کے نکل گئے درمیان میں پاکستان کب کراس کیا نہیں پتہ چلا، لیکن یہ عادت جو فلم سے یقیناً فلم کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے شروع ہوئی شاید ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہی بن گئی۔

یعنی پاکستان کو درمیان میں لائے بغیر افغانستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے افغانستان آنا جانا، یہ 1947 تک ہی ممکن تھا، پھر شاید ہندوستانیوں کی خواہش بن گئی، دوستوں کو بتا تا چلوں یہ فلم خدا گواہ بنی تو افغانستان کے پس منظر میں تھی لیکن اس کی عکس بندی نیپال کے صحرا میں کی گئی تھی، جیالے دوستوں سے معذرت کے ساتھ فلم میں بے نظیر وہ والی بے نظیر ہرگز نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، اس فلم میں ہیروئن کے نام بے نظیر ضرور تھا اور انکے والد کا قتل بھی ہوا، لیکن یہ ایک مماثلت ہی ہے، پاکستان کی اصل بے نظیر سے جو واقعی بے نظیر تھیں کی زندگی سے اس کہانی کا کوئی تعلق نہیں، یہ کردار بھارت کی ایک مقبول اداکارہ سری دیوی نے نبھایا، فلم ایک لو اسٹوری تھی، لیکن میری یہ تحریر اس فلم کے حوالے سے یقیناً نہیں، فلم پر پھر کبھی بات ضرور ہوگی۔

تصویر : امیتابھ بطور بادشاہ خان

آج طالبان افغانستان میں دوبارہ اہم پوزیشن میں آ گئے ہیں، تو بھارت میں افغانستان کے حوالے سے خاصی پریشانی ہے۔ اچھی بات ہے ہونی بھی چاہیئے لیکن بھارتی حکومت سناٹے میں کیوں ہے، افغانستان سے سکھ اور ہندوٴوں کو ہی کیوں بلانا چاہتے ہیں (ا) کم از کم ایک واضح ترجیح ضرور دی جا رہی ہے، کل کو یہ بھی کہیں گے کے افغانیوں کو شرن (پناہ) ہم نے یعنی بھارت نے دی جب کے یہ پیشکش باقی افغانیوں کے لئے نہیں ہے، مطلب بادشاہ خان اور بے نظیر افغانستان میں ہی رہیں بھارت آنے کا کشٹ (تکلف) نہ کریں، بھارت میں بے نظیر کور اور بادشاہ سنگھ کی ہی گنجائش ہے، یہ سوال افغان قوم سے تعلق رکھنے والے ذہنوں میں بھی اٹھنا چاہیے، بلکہ اگر چالیس لاکھ افغان یہاں پاکستان آرہے ہیں توان سے بیس لاکھ ہندوستان بھی جا کر دیکھ لیں، ہندوستان کو افغانستان میں اپنے کاندھے فراہم کرنے والوں سے یہی درخواست ہے، کبھی تو لاکھو کی تعداد میں بھارت کو بھی مہمان نوازی کا موقع فراہم کریں، پھر بھی پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کوبرا بھلا کہنا ہی ہے تو اس فہرست میں امریکہ روس بھارت کے بعد پاکستان کا نام لیا کریں۔ کیوں کہ نہ روس پاکستان سے پوچھ کر افغانستان میں داخل ہوا، نہ امریکہ اور نہ بھارت نے آپ کی سرزمین کا استعمال ہم سے پوچھ کر کیا، ہاں الٹا ہم نے ایثار کا ثبوت ضرور دیا اور جواب میں جو کچھ ہمیں ملا، اس کے حق دار کم از کم ہم نہیں تھے۔

ہندوستان اور افغانستان کے تعلق کو تھوڑا سمجھنے کی ضرورت بھی ہے ہمیں، افغانستان کو تو ظاہر ہے بھارت ایک مضبوط معیشت کے طور پر نظر آتا ہو گا، لیکن بھارت کو افغانستان میں کیا نظر آتا ہے ہم کو ضرور جاننا چاہیے۔ چانکیہ کہتا ہے ”جب دشمن سے جنگ لڑنے میں فائدہ نہ ہو یا جنگ میں کامیابی کا امکان کم ہو تو دشمن کے ساتھ دوستی کر لو“ (چانکیہ جین مت سے تعلق رکھنے والا ایک مفکر تھا جو ہندوستان کے ہندو راجہ چندر گپت موریہ کا اتالیق یعنی ایک طرح کا استاد تھا) ، چانکیہ مزید کہتا ہے کہ دشمن کے پڑوسی سے خاص کر اچھے تعلقات استوار کرو۔

تصویر : افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک

خطے میں اب جو صورتحال ہے اس میں چانکیہ فلسفے کی رو سے بھارت جب دشمن (یعنی پاکستان اور چین ) کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تو وہ کچھ عرصے میں دوستی کی پینگیں بڑھائے گا، چین کو ہندو چینی بھائی بھائی بتایا جائے گا اور پاکستان کو کہا جائے گا کہ ہمارا تو کلچر ایک ہے ہمیں تو سرحد ہی ختم کر دینی چاہیے، ایسے جملے ہمیں آیا روز سننے اور دیکھنے کو ملیں گے، خیر وغیرہ وغیرہ۔

میں نے یہ جملہ کہ ”بھارت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا“ اس لئے تحریر کیا کہ چین کے ہاتھوں اس کو لداخ میں ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا اور افغان طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کو ختم ہو تا دیکھنے کی رسوائی اٹھانا پڑی، بھارت کے لئے اب تھرڈ پارٹی (افغانستان کے راستے ) پاکستان میں مداخلت کا امکان ویسے ہی کم ہو جائے گا، اور کھلی ایٹمی جنگ ظاہر ہے نہ ہمارے مفاد میں ہے نہ بھارت کے، تو کیا ہوگا امن کی آشا کا ڈھول پھر پیٹا جائیگا۔ افغانستان میں کیا ہو گا میں نہیں جانتا، لیکن ٹی ٹی پی کب آئی ایس آئی ایس یعنی داعش کے روپ میں سامنے آتی ہے یہ ضرور دیکھنا ہوگا، امریکا میرے خیال میں جنگ سے ابھی نہیں بھاگا، اس نے جنگ نجی شعبے (بلیک واٹر داعش یا نئے ممکنہ نام) کے سپرد کی ہے یہ میرا تجزیہ ہے اس میں غلطی کا 100 فیصد امکان ہے۔

تصویر: افغانستان اور اس کے صوبے
طالبان اور نیا افغانستان کچھ سوالات، کچھ تجزیہ

کیا طالبان بدل گئے میں نہیں جانتا، ان کا بغیر گولی چلائے کابل میں آجانا ایک اہم معاملہ ہے، چین روس، پاکستان اور ایران سے ان کے تعلقات قائم رہنا بھی اچھا اشارہ ہیں، طالبان کتنا ان معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھالتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا، پاکستانی حکومت کی طرح میرا موقف وہی تھا، اور آج بھی ہے کہ افغانستان میں ایک پر امن تصفیہ ہو جائے، جس میں سب نہ بھی شامل ہوں تو اکثریت کو ٹھوس تسلی ضرور حاصل ہو، میں نہ طالبان کے ٹیک اوور کے حق میں تھانہ ہوں، نہ سابقہ افغان گورنمنٹ کے ساتھ مجھے ذاتی ہمدردی تھی، یہ معاملہ افغان شہری کی تسلی سے جڑا ہے اور پاکستانیوں کی مرضی سے پہلے اس کا اطمینان مقدم ہے، طالبان کتنے تبدیل ہوئے میں نہیں جانتا، لیکن اشرف غنی کی حکومت کون سا کابل سے باہر چلتی تھی، امریکی اور نیٹو فورسز کے بغیر اشرف غنی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ سابقہ افغان نیشنل آرمی کے پاس تین لاکھ کی نفری

بتائی جاتی ہے، یہی فگر امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی شیئر کیا، اسی حوالے سے میرے کچھ سوالات ہیں
سوال نمبر 1 یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی جس کو ائر فورس کی سپورٹ حاصل تھی پسپا کیوں ہوتی چلی گئی؟
سوال نمبر 2 افغان انٹیلی جنس کیا جھک مار رہی تھی؟
سوال نمبر 3 افغان ائر چیف کہاں تھے، ہندوستان سے حاصل شدہ گن شپ ہیلی کاپٹر، کہاں پرواز کر رہے تھے؟
سوال نمبر 4 کیا افغان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے افغان صدر کو صحیح صورتحال سے آگاہ نہیں کیا؟
سوال نمبر 5 اشرف غنی کے زمانے میں ہمیں کون سے تحفے مل گئے جو لوگ اس کے جانے پر افسردہ ہیں؟

سوال نمبر 6 ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو سپورٹ افغانستان سے ہی مل رہی تھی، سابقہ افغان حکومت نے کیا کیا جب پاکستان نے اس حوالے سے ان سے بات کی؟

سوال 7 ٹی ٹی پی کے حوالے سے نئی ممکنہ افغان حکومت کیا رویہ اختیار کرے گی؟
، یقیناً ہمیں اس افغان طالبان سے بات کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے حوالے سے با قاعدہ بات کرنی ہو گی،

طالبان کے یوں کابل تک آنے کی افغانستان کی اپنی فوج نے ہی جب مداخلت نہیں کی تو ہمارے کچھ دوست کیوں ہلکان ہو رہے ہیں؟

، اشرف غنی جس انداز میں فرار ہوئے سوال یہ بھی ہے کیا کوئی لیجٹمیٹ آدمی اس طرح فرار ہو تا ہے؟
سوال نمبر 8 اگر آئی ایس آئی نے ہی کیا ہے تو سی آئی اے، را ء، این ڈی ایس کیا کر رہی تھی؟

سوال نمبر 9 اگر مذاکرات کی ٹیبل پر دیکھا جائے تو اشرف غنی کو جب ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا جب امریکی پاکستان پر طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے، بعد طالبان کے مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے بعد بھی افغان حکومت کو طالبان سے بات کرنے سے جس نے بھی روکا، نقصان تو افغان حکومت کا ہی ہوا، سابقہ افغان حکومت نے کیوں دیر کی؟

حل کیا اور کیسے ہو سکتا ہے اب اس صورتحال میں اس حوالے سے پاکستان کو کوئی جلدی میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں، چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان پڑوسی ہیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ان ممالک کے ساتھ مشترکہ کارروائی ڈالی جائے، روس، ترکی، قطر، سعودی عرب، عرب امارات اور امریکہ اور برطانیہ کا ردعمل بھی لے نا چاہیے، پھر کسی فیصلے پر پہنچنا چاہیے۔

طالبان کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے فرقہ ورانہ معاملات پربھی کڑی نظر رکھی جائے، سابقہ فاٹا، پاٹا اب کے پی میں ہی آتے ہیں، کے پی میں فرقہ ورانہ مثالی ہم آہنگی خطے کے لئے اہم ہو گی، چین کی مستقبل میں سرمایہ کاری، روس گیس پائپ لائن سب کا تعلق کے پی میں امن سے جڑا ہے، افغانستان میں امن سے جڑا ہے۔ پھر بلوچستان کے مسئلہ کو افغانستان سے اب کوئی ایندھن فراہم نہیں کرے گا، بلوچستان میں حکومت پاکستان، صوبائی حکومت اور ناراض لوگوں کو ساتھ بیٹھنا ہوگا، اسی میں سب کا فائدہ سب کی ترقی ہے۔

بھارت کے افغانستان سے تعلقات اچھے رہنے میں پاکستان کو مسئلہ نہیں ہے، لیکن افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال سے روکنا اہم ترین کام ہے، خاص کر افغان سرزمین پر غیر ضروری سفارتی مراکز کونسلیٹ جو ماضی میں پاکستان کے خلاف بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیے گئے، آئندہ نہ کیے جاسکیں، انٹیلی جنس کا کردار اب زمانہ امن میں اور اہمیت اختیار کر جائے گا۔

(1) https://www.nytimes.com/2021/08/17/world/asia/india-afghanistan-visas.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments