آخر غریب مزدور ہی کیوں؟


آج کے پرفتن اور انتہائی گراں دور میں مزدور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ شبانہ روز محنت اور ہزاروں جتن کرنے کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کے لیے بہ مشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر پاتا ہے۔ اس کے بچے محرومیوں میں زیست بسر کرتے ہیں۔ روزی، روٹی کی فکر ہی غریب مزدوروں کے دل و دماغ پر سوار رہتی ہے، اس سے آگے کی سوچنے کی انہیں فرصت ہی کہاں ہے۔ 27 اگست 2021 بھی ایسا ہی روز تھا، جس کا سورج جب طلوع ہوا ہوگا تو ملک کے طول و عرض میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کی طرح مہران ٹاؤن فیکٹری کے دو درجن کے قریب مزدور بھی فکر معاش میں بیدار ہوئے ہوں گے۔

ان کی آنکھوں میں بھی اپنے اہل خانہ خصوصاً بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب ہوں گے۔ وہ بھی ہزاروں امیدیں لیے روزگار پر گئے ہوں گے۔ انہیں بھی ان کے بزرگوں نے دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا ہوگا۔ ان کے بچوں نے بھی جاتے وقت کچھ فرمائش کی ہوگی۔ آہ، انہیں زیست نے مہلت نہ دی اور وہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کی نذر ہو گئے۔ ہزاروں خواب بکھر گئے، سب کچھ ختم ہو گیا۔

وطن عزیز کے طول و عرض میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جن میں کئی افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہاں آگ بجھانے کے ضمن میں سہولتوں کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ کبھی آگ پر قابو پانے میں گھنٹوں بیت جاتے ہیں تو کبھی آگ دنوں کے گزر جانے کے باوجود کنٹرول میں نہیں آ پاتی، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس افسوس ناک واقعے کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ کراچی کے علاقے مہران ٹاؤن میں واقع کیمیکل فیکٹری میں آگ لگنے کے نتیجے میں 17 مزدور جاں بحق ہوئے، ایک ہی خاندان کے 5 افراد بھی لقمہ اجل بنے، جن میں تین سگے بھائی، چچا بھتیجا اور داماد شامل ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری کو لپیٹ میں لے لیا۔ آگ بجھانے کی کوشش کے دوران 2 فائر فائٹرز اور ریسکیو کے دوران ایدھی کا ایک اہلکار زخمی ہوا۔ مزدور مدد کے لیے چیختے رہے۔ فیکٹری کا ایگزٹ گیٹ ایک ہی تھا، جسے فیکٹری مالک نے تالا لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ ریسکیو حکام کے مطابق مجموعی طور پر فیکٹری کی عمارت میں 20 سے 25 مزدور موجود تھے۔ زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیمیکل فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی اور لیبر ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

یہ بڑا ہی افسوس ناک سانحہ ہے، کئی گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس خاندان کے باسیوں کا کیا حال ہوگا، جس کے پانچ ارکان اس سانحے کے نتیجے میں ایک ہی دن اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے غم کو وہی جانتے ہیں، کوئی کتنا بھی کچھ کہے، ان کے دکھ کو نہیں سمجھ سکتا۔ فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے میں درج ایف آئی آر میں فیکٹری کے مالکان، انتظامیہ اور سیکیورٹی کے عملے کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

مقدمہ قتل بالسبب کی دفعہ کے تحت سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں فیکٹری کے مالک، منیجر، 2 سپر وائزرز اور چوکیدار کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق فیکٹری میں ایمرجنسی صورت حال میں نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا جب کہ فیکٹری میں جانے کا ایک ہی راستہ تھا۔ ضروری ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائے اور جو اس کا ذمے دار ہو، اس کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ کوئی کتنا ہی اثر و رسوخ کا مالک ہو، اس کے بچ نکلنے کے تمام راستے مسدود کیے جائیں۔

سندھ حکومت نے اس سانحے میں جاں بحق افراد کے ورثاء کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ان کے پیارے واپس آ جائیں گے۔ یہ زخم کبھی نہیں بھر سکے گا۔ حکمرانوں کی جانب سے افسوس کے بیانیے سامنے آرہے ہیں۔ ضروری ہے کہ افسوس کے دو بول بولنے کی ریت ترک کی جائے بلکہ ان وجوہ کا پتا لگایا جائے جن کے سبب یہ حادثات ہوتے ہیں اور پھر ان کا موثر تدارک کیا جائے۔

آخر مزدور ہی کیوں فیکٹریوں، کارخانوں میں آگ لگنے یا دیگر حادثات کے باعث مرتے اور زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات غریب مزدوروں کا مقدر زندگی بھر کی معذوری بھی بن جاتی ہے۔ کبھی کوئی فیکٹری یا کارخانے کا مالک ان مقامات پر کسی حادثے سے دوچار نہیں ہوا۔ کیا غریب ہی آگ و حادثات کی نذر ہوتے رہیں گے؟ آخر کام کی جگہوں پر غریب مزدوروں کی زندگیوں کو تحفظ دینے ایسے اقدامات کا فقدان کیوں ہے؟ ملک کے تمام حصوں میں اس حوالے سے سیفٹی اقدامات کیوں نہیں یقینی بنائے جاتے؟

حکومتیں فیکٹری اور کارخانہ مالکان کو سیفٹی انتظامات کرنے کا پابند کیوں نہیں کرتیں؟ اگر وہ سیفٹی اقدامات نہیں کرتے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالکان اپنے ہاں کام کرنے والے غریب مزدوروں کے بل بوتے پر کروڑوں اور اربوں کماتے ہیں، لیکن یہ ان غریب مزدوروں کے تحفظ کے لیے چند لاکھ روپے صرف کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، ان کو بہت معمولی اجرت دیتے، انہیں صحت و دیگر مراعات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔

محرومیاں در محرومیاں اس ملک کے غریب مزدوروں کا مقدر ہیں۔ سب کے دلوں میں یکم مئی کو ہی مزدوروں کا درد جاگتا اور بڑے بڑے بیانات سامنے آتے ہیں، جیسے ہی یہ دن گزرتا ہے، سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ بہت ہو چکا، اب یہ سلسلہ رک جانا چاہیے، حکومتیں اپنی عمل داری یقینی بنائیں، کام کی جگہوں پر مزدوروں کے لیے سیفٹی انتظامات ہر صورت ممکن بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، جو مالکان ایسا نہیں کرتے، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

دوسری طرف ملک بھر میں فائر بریگیڈ کے نظام کو موثر اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آگ بجھانے کے جدید آلات اور مشینریز کا بندوبست ناگزیر ہے، تاکہ آگ پر جلد قابو پانے میں مدد مل سکے۔ فائر فائٹرز کے معاوضے میں معقول اضافہ کیا جائے۔ دوسروں کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دینے والوں کے لیے بہتر مراعات متعارف کرائی جائیں۔ ان کی سیفٹی کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ بھی اسی قسم کے حادثات رونما ہوتے رہیں گے اور ان میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سامنے آتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments