جھنگ میں ہیر رانجھا کا مزار۔۔۔۔حکومتی عدم توجہی کا شکار


تاریخی اہمیت کے حامل شہر جھنگ میں مشہور لوک داستان کے مرکزی کرداروں ہیر اور رانجھا کا مزار واقع ہے جس کے بارے بہت سی عجیب و غریب اور متضاد افواہیں بھی پھیلائی گئی ہیں جن میں سے سب سے اہم اور بڑی افواہ یہ ہے کہ اس مزار کی چھت کھلی ہونے کے باوجود بھی رومانوی کرداروں کی قبروں پر بارش نہیں ہوتی ہے، دیکھا جائے تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہے کیونکہ اصل وجہ اس چھت کا اس طرح بنایا جانا ہے کہ اوپر سے برسنے والی بارش اندر قبروں کے اوپر نہ آتی ہے، بہرحال یہ قصہ پنجاب کے شیکسپیئر قرار دیے جانے والے وارث شاہ کی نہ صرف بے پناہ شہرت کا باعث بنا بلکہ اس نے انہیں امر کر کے رکھ دیا ہے حالانکہ یہ قصہ وارث شاہ کی تخلیق بالکل بھی نہ ہے بلکہ یہ ان سے پہلے کئی شعراء رقم کرچکے تھے جن کے اسمائے گرامی دمودر داس کھتری، احمد کوی، شاہ جہاں مقبل اور چراغ دین اعوان وغیرہ ہیں اور ان کے بعد والے شعراء میں سائیں مولا شاہ، حامد شاہ عباسی، سید فضل شاہ نواں کوٹی، احمد یار، محمد دین سوختہ، سردار کشن سنگھ، مولا بخش کشتہ، میراں شاہ جالندھری، کاہن سنگھ اور علی حیدر کے نام اہم ہیں اس قصے کو Tragedyرنگ میں احمد کوی اور comedy رنگ میں دمودر اور مقبل نے لکھا تھا۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1851 میں امرتسر سے شائع ہوا تھا۔ اس قصے میں 36 کردار ہیں جن میں سے سب سے مشہور تین کردار ہیر رانجھا اور کیدو قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ہیر رانجھے کا قصہ عربی اور سندھی میں بھی نظمایا گیا اور بلوچی زبان میں سارا تو نہیں لیکن پیر غلام محمد بلوچانی نے اس کے کچھ حصے بلوچی میں ترجمہ ضرور کیے ہوئے ہیں جو تھوڑی سے تلاش کے بعد ڈھونڈے جا چکے ہیں۔ اگر ہم اردو کی طرف آئیں تو ممتاز شاعر انشا اللہ خان انشا نے اس قصے کے حوالے سے ایک لافانی شعر کہہ کر گویا پورا قصہ ہی بیان کر دیا کہ

سنائی ایک کہانی جو ہیر رانجھا کی۔
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا۔
اردو میں مقبول احمد، محمد اسلم، فضل حسین تبسم، میاں رفیق اور حافظ عبداللہ نے اسے ترجمہ کیا،

اس شہرہ آفاق قصے کو انگریزی زبان میں مسز ایم لونگ ورتھ ڈیجز نے غلام محمد بلوچانی سے سن کر ترجمہ کیا اور سر رچرڈ ٹمپل نے بھی اس کی نقل کی اور پھر ایچ اے روز اور جے ایس اوس بورن نے بھی اسے انگریزی قالب میں ڈھالنے کا اعزاز حاصل کیا ہوا۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں بھی ہوا ہے اور فارسی میں بھی اس کے ترجمے بہت ہوچکے ہیں

لیکن یہاں اس قصے کے حوالے سے خاکسار نے جو گزارش کرنی ہے اس کا تعلق اس شہرہ آفاق قصے کے مرکزی کرداروں کے جھنگ میں واقعہ مزار کی طرف سے حکومتی بے اعتنائی ہے جو کہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، المیہ ہے کہ وارث شاہ جو کہ اصل میں اس قصے کا ”اصلی تے وڈا“ خالق بھی نہ ہے کے جنڈیالہ شیر خان ضلع شیخوپورہ میں واقعہ مزار پر ہر سال ایک بھرپور عرس کا اہتمام ہوتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں حالانکہ وارث شاہ کی ساری شہرت اور کمائی اس قصے کے مرہون منت ہے اور خاکسار اپنے پچھلے بلاگ میں یہ انکشاف کرچکا کہ جسے ”ہیر وارث شاہ“ کہا جاتا ہے اس میں کئی دوسرے لوگوں کے اشعار بھی شامل ہیں جن میں

میاں پیراں دتہ کے 1292 مصرعے
عبدالرحمن کے 650 مصرعے
محمد دین سوختہ کے 7945 مصرعے
اشرف علی کے 500 مصرعے
اور میاں احمد دین کے 1673 مصرعے شامل ہیں

ہیر رانجھا کا مزار جھنگ میں ہے اور اس کے حوالے سے حکومتی عدم توجہی اس سطح کی ہے کہ دیکھ اور سن کر حیرت ہوتی ہے۔ المیہ ہے کہ جس جگہ کو حکومت پبلسٹی کر کے کمائی کا ذریعہ بنا سکتی ہے اس کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے ورنہ اس پر ٹکٹ لگا کر خاصا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جس طرح کہ ہندوستان میں تاج محل پر مقامی شہریوں کے لیے ٹکٹ کم رکھی گئی ہے اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے زیادہ اور سب جانتے ہیں کہ تاج محل پر کتنا زیادہ رش ہوتا ہے اور حکومت ہندوستان اس ثقافتی اور تاریخی جگہ کی پبلسٹی کر کے کتنا زیادہ ریونیو اکٹھا کر رہی ہے۔

کیا ہم یہ نہیں کر سکتے ہیں؟ اس محبت کے مرکز کو خاص و عام کے لیے مرکز نگاہ بنانے کے لیے کیا کوئی پلاننگ نہیں کی جا سکتی ہے؟ متعلقہ محکمے آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ایک مغربی ملک میں ایک درخت کے بارے مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہاں جاکر کی جانے والی ہر دعا قبول ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے مغربی ملک کے ایک پل پر جنگلوں کے ساتھ تالے لگا کر نوجوان محبت کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی محبت بھی ان کی مٹھی میں قید ہو چکی ہے اور اس کی چابی اب ان کے پاس ہی ہے، کہتے ہیں کہ اس پل کے جنگلوں سے روزانہ منوں ٹنوں کے حساب سے حکومتی اہلکار آ کر تالے کھولتے ہیں۔

ان دو جگہوں پر سیاحوں کی بے پناہ آمد سے ان شہروں کی ہوٹل انڈسٹری بھی فائدہ اٹھا رہی ہے اور ٹرانسپورٹ والے اور مقامی شہری بھی، لیکن افسوس کہ ہم ہیر رانجھے سی جگہ تک سے اب تک فائدہ نہ اٹھا سکے ہیں۔ کم ازکم دنیا بھر کے کروڑوں پنجابی تو اس قصے سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اس ضمن میں ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے کہ خاکسار کے جالندھر میں رہنے والے ایک بزرگ دوست ڈاکٹر جگتار سنگھ جب کچھ عرصہ قبل پاکستان آئے تھے تو بقول ان کے، وہ صرف لاہور ہی تک محدود رہ سکتے تھے لیکن ہیر رانجھے کے مزار کو دیکھنے کی خواہش جب انہوں نے اپنے پاکستانی میزبانوں کے سامنے ظاہر کی تو وہ خطرہ مول لے کر انہیں ایک کار میں ڈال کر جھنگ لے آئے تھے۔

اس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ڈاکٹر جگتار سنگھ کی طرح اور بھی بہت سے لوگ اس شہرہ آفاق رومانوی داستان کے مرکزی کرداروں کے مزار کو دیکھنے کے خواہشمند ہوسکتے ہیں اور یہاں آنے والے نوجوان جوڑے عموماً درختوں پر رنگ برنگ کے دھاگے باندھ کر منتیں مانگتے ہیں اور اردگرد بسنے والوں کے نزدیک مرادیں پاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان فی الفور اس تاریخی اور ثقافتی مقام کی طرف توجہ کرے اور ماضی میں فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اس مزار کے کرداروں کو امر کیا جا چکا ہے اور اب بھی یہی طریقہ استعمال کر کے کم ازکم فرقہ واریت کے حوالے سے بدنام اس شہر جھنگ کا سافٹ امیج تو ابھارا جاسکتا ہے جس کے بارے شاعر بھی کہہ چکا ہے کہ

جلوے اگر آغوش بصارت میں نہ آئے۔
پھر جھنگ میں لوٹ آئیں گے ہم عرش پر جاکر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments