اولمپک میں شکست کا جشن


منصوبہ تو یہ تھا کہ جیسے ہی پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم اپنا جیولین ہوا میں پھینکتے، روحانیت کی فیکٹری سے ایک جن ہوا میں بلند ہوتا اور ٹوکیو کی فضاؤں میں پہنچ کر جیولین کو تھام کر کانسی کے تمغے کے لیے درکار فاصلے پر گرا دیتا۔ اب جن تو اڑا لیکن اسے اونچائی سے زمین پر کچھ ایسا نظر آیا جسے وہ غلط فہمی میں نواز شریف کی کرپشن سمجھا اور اس کی تحقیق کے لیے غوطہ لگا بیٹھا۔

زمین پر کرپشن کا اسے کوئی نشان نہ ملا، لیکن توجہ بٹنے کی وجہ سے دیر ہو چکی تھی۔ ارشد ندیم کا جیولین پانچویں درجے پر گرا اور قوم حالت ماتم میں چلی گئی۔ صرف میں نے ایک سمجھ دار محب وطن ہونے کے ناتے خوشی سے رقص شروع کر دیا۔ محلے میں مٹھائی بانٹنے کا بھی سوچا لیکن غدار یا غیر ملکی ایجنٹ کہلانے کے خوف سے یہ ارادہ ترک کر دیا۔

یقین مانئیے مجھ سے زیادہ ملک سے محبت کوئی نہیں کرتا۔ شکست کا جشن منانے کی وجہ جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹ کر 1936 کے برلن اولمپکس میں چلتے ہیں۔ اس وقت جرمنی کا حکمران ہٹلر تھا جو سمجھتا تھا کہ اس کی آریائی نسل دنیا کی تمام دوسری نسلوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت، زیادہ برق رفتاری، اور زیادہ لمبی چھلانگ کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کی سوچ کے آڑے آ گیا سیاہ فام امریکی ایتھلیٹ جیسی اووینز۔

اووینز اتنا تیز بھاگا اور اتنی لمبی چھلانگیں لگائیں کہ جرمن کھلاڑی اس کی دھول ہی چاٹتے رہ گئے۔ وہ چار سونے کے تمغے جیت گیا۔ ہٹلر نے تو پھر وقت اور حکومتی سرمایہ کاری لگا کر اپنے سفید فام ایتھلیٹ تیار کیے تھے۔ لیکن ایک غیر مراعات یافتہ سیاہ فام کے ہاتھوں (یا ٹانگوں ) اس کا ”آریائی برتری“ کا افسانہ زمین بوس ہو گیا۔ اس نے اپنی ہٹلری پھر بھی دکھائی لیکن دوسری جنگ عظیم چھیڑنے میں اسے مزید تین سال لگ گئے۔ وقتی طور پر ہی سہی، اس کی زبان تو بند ہوئی۔

ہم نے اپنے کھلاڑیوں پر نہ وقت کی سرمایہ کاری کی، نہ پیسے کی، ہم نے تو کھیل کے میدان بھی لینڈ مافیا کی نذر کر دیے، لیکن خدا نخواستہ اگر کوئی میڈل جیت لیتے تو ہم نے اتنی ہٹلری دکھانی تھی کہ ہٹلر دیکھ لیتا تو پولینڈ پر چڑھائی سے پہلے ہی شرم سے ڈوب مرتا۔ زبان تو ہماری بند ہی نہ ہوتی۔ ہمارے حکمران اپنی اعلیٰ کار کردگی کے ڈھول پیٹ پیٹ کر قوم کو بہرہ کر دیتے۔ اور اگلے چار سال پھر فنڈ کھانے کے سوا کوئی کام نہ ہوتا۔

چوہدری ہملر، شیخ گوئبلز اور ہٹلر کے دوسرے حواری میڈیا پر چنگھاڑتے ہوئے یہ ثابت کر دیتے کہ ارشد ندیم کا جیولین اس کے زور بازو سے نہیں بلکہ بنی گالا سے بھیجی گئی روحانی طاقت کی بدولت کانسی کے تمغے کے لیے مطلوبہ فاصلے تک اڑا۔

قوم کے تخیل میں یہ سوال آتا کہ بھائی، روحانیت نے ہی جیولین اڑانا تھا تو سونے کے تمغے کے فاصلے تک کیوں نہ اڑا؟ لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوتی یہ پوچھنے کی کیونکہ یہ سوال توہین کے زمرے میں آ جاتا۔

میڈل تو ایک دیوانے کے انفرادی جنون کا نتیجہ ہوتا لیکن اس میں تمام ادارے اپنی شرکت داری ثابت کرتے پھرتے۔

للو تو کسی ادارے کی ابھی بھی بند نہیں ہو رہی۔ کہیں وسائل کی کمی کا رونا، کہیں دوسرے اداروں کی مداخلت کا راگ، اور کہیں پرانے لوگوں کی کرپشن کی داستانیں۔ اور کہیں ذہنی پسماندگی کا یہ حال کہ پانچویں پوزیشن پر بھی فخر سے تنی ہوئی سریا زدہ گردنیں۔

عام شہریوں (سویلینز) کی گولیوں کی بھی بچت ہو گئی، ورنہ ہوائی فائرنگ ایسے کر رہے ہوتے جیسے سری نگر فتح کر لیا ہو۔ نئی نسل کے منہ میں کریہہ الصوت باجے ہوتے جن سے وہ اپنے اور دوسروں کے اعصاب تباہ کر دیتے۔ سویلینز کی نئی نسل کرے بھی کیا جن کے سکول، اصطبل اور کھیل کے میدان، پلازے بن چکے۔

ویسے سویلینز کی نا اہلی ہی اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ گزشتہ سترہ برس سے ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل (ان کے نام کے ساتھ ایک ”ر“ قوسین میں پایا جاتا ہے ) اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ کیونکہ تکنیکی طور پر ریٹائر ہو کر فوجی سویلین بن جاتا ہے اس لیے ثابت ہوا کہ سویلین نا اہل ہوتے ہیں۔

شکر کریں کہ ٹوکیو میں میڈل جیتنے کا قومی سانحہ نہیں رونما ہوا۔ ایک اور مثال 2007 کی ہے جب پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ میں آئر لینڈ کے ہاتھوں دو روپیائی کروا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تھا۔ اگر کچھ جیت جاتے تو بے عزت مآب جنرل کو اپنی ناجائز بادشاہی کا ایک مزید جواز مل جاتا۔

دنیا کی کالی، پیلی، کتھئی اقوام کو عمومی طور پر جیسی اووینز کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اور ہماری قوم کو خصوصی طور پر آئر لینڈ، ارشد ندیم اور ٹوکیو جانے والے دوسرے پاکستانی کھلاڑیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اپنی اوقات سے بڑھ کر نیزہ پھینکنے، وزن اٹھانے، اور دوڑ لگانے سے باز رہے۔

ورنہ 1992 ورلڈ کپ کی فتح کا خمیازہ تو آج تک ہم بھگت ہی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments