کابل میں تبدیلی اور منانا جشن صالحین کا


افغان طالبان اب بدل گئے ہیں۔

کیا واقعی بدل گئے ہیں؟ اچھا کتنا بدل گئے ہیں؟ ٹھیک ہے۔ بدل ہی گئے ہیں تو کب تک بدلے رہیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد تاہم ان سوالات کے جواب ڈھونڈنا نہیں ہے۔

اس مضمون میں صرف ”طالبان کے بدلنے پر“ صالحین کے فخر و انبساط سے لبریز جذبات اور ان کی جانب سے لبرل حلقوں پر ہونے والی طنزیہ جملے بازی کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ افغان طالبان واقعی بدلے بدلے سے نظر آتے ہیں۔ کابل پر قبضے کے بعد قتل و غارت گری سے گریز کیا گیا ہے۔ خواتین کے ملازمت کرنے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ بچیوں کے سکول بھی کھلے ہیں اور تصفیہ طلب مسائل پر مشاورت ہی نہیں افغان عوام کے تمام نمائندوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام اعلانات و اقدامات بلاشبہ خوش آئند ہیں اور اگر ان پر عملدرآمد بھی ہو گیا تو افغانستان سمیت خطے کے دیرینہ مسائل کا حل بھی نکل سکتا ہے۔

لیکن دین اور اعلی سماجی اقدار کے اکلوتے علمبردار ہونے کے دعویدار دوست اس پیشرفت کو لبرل طبقے کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ کابل پر طالبان کا پرامن قبضہ سیکولر طبقے کے لیے ”مایوسی“ کا باعث ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ساری صورتحال جدید ذہن رکھنے والے افراد کے لیے پریشان کن ہے۔

کیا یہ عجیب سی بات نہیں؟ سیکولر تو ہمیشہ امن کی بات کرتے ہیں۔ امن کے قیام سے وہ بھلا مایوس کیوں ہونے لگے؟

صالحین دراصل کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ اگر طالبان اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ماضی کی طرح قتل عام کرتے، خواتین پر زندگی کے تمام دروازے بند کر دیتے، میڈیا، بچیوں کی تعلیم اور اختلاف رائے پر مکمل پابندیوں کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کی ہر روش سے ناتا توڑ لیتے تو پاکستانی لبرل طبقے کو ان کے خلاف واویلا کرنے کا موقع مل جاتا۔ اور اب چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا (اور پہلے یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے ) لہذا لبرل عناصر کو طالبان کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں مل رہا اس لیے وہ مایوس اور پریشانی کا شکار ہیں۔

دلیل کا کھوکھلا پن کیا ہوتا۔ کوئی جاننا چاہے تو یہاں جان سکتا ہے۔

طالبان کا ہر وہ حالیہ اقدام جسے لبرل طبقے کے لیے مایوسی کا باعث قرار دیا جا رہا ہے دراصل لبرل طبقے کا ہی دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ وہ اس پر کیوں پریشان ہوں گے۔ آخر کوئی ایسی پیشرفت سے کیسے پریشان ہو سکتا ہے جو اس کے دیرینہ موقف کو ہی درست ثابت کرتی ہو؟ اگر طالبان خوفناک ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے ہی ہم وطنوں پر جینے کے تمام دروازے بند نہ کرتے تو کیا کوئی لبرل ان کی مخالفت کرتا؟ کبھی نہیں۔

سیکولر طبقے نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ طالبان وسیع البنیاد جمہوری حکومت قائم کرنے پر آمادہ ہوں، مخالفین اور خواتین کو بھی انسان سمجھیں، تعلیم کو عام ہونے دیں اور دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھیں۔ اس وقت رجعت پسند انہیں مغرب نواز امریکی ایجنٹ اور لا دین کہتے تھے۔ اب جب کہ طالبان خود بار بار اعلانات کے ذریعے دنیا کو یقین دلانے کی سعی کر رہے ہیں کہ اب وہ ان تمام جدید نظریات پر عمل کریں گے تو صالحین اپنی اندھی عقیدت کی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے اسے سیکولر طبقے کے لیے مایوسی کا باعث قرار دے رہے ہیں۔

یہ ردعمل دراصل جدید سوچ کے تنقیدی انداز سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

کیا طالبان کے رویوں میں مثبت تبدیلی درحقیقت لبرل نظریات کی جیت نہیں ہے؟ کیا یہ جیو اور جینے دو اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کا سبق دینے والے طبقے کی فتح نہیں کہ طالبان خود کہہ رہے ہیں کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے؟

یہ مایوسی کا کون سا دورہ ہے جو اپنے موقف کی مخالف کیمپ میں پذیرائی کے بعد پڑتا ہے؟

اگر بے معنی اور احمقانہ الزام تراشی سے فرصت ملے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس لمحے سینہ تان کر یہ پرمسرت اعلان کیا جاتا ہے کہ اب طالبان بدل گئے ہیں اسی لمحے وہ اعلان خود چیخ چیخ کر پوچھتا ہے کہ اگر اب بدلے ہیں تو پھر پچھلے پچیس برسوں میں یا کم از کم دو ہزار ایک میں امریکی حملے سے پہلے وہ جو کچھ کرتے رہے اس کا جواز کیا تھا۔ اور ہمارے رجعت پسند کن بنیادوں پر ان کا پرزور دفاع فرماتے تھے؟

تازہ افکار رکھنے والوں کو طالبان کے وجود سے نہیں بلکہ ان کے طرز سیاست، طرز معاشرت اور انداز حکمرانی یا گورننس کے طریقہ کار سے اختلاف تھا۔ وہ طالبان کی ان خامیوں پر تنقید کرتے تھے جن کا خمیازہ افغان قوم اور پورے خطے نے بھگتا۔

اور اب اگر وہ واقعی ایک پرامن ریاست کے قیام کی راہ اختیار کرتے ہیں، سفارتی قوانین کی پابندیاں کرتے، بین الاقوامی برادری سے تصادم کی بجائے تعاون کی روش اپناتے اور اسلام جیسے آفاقی دین کی اجتہادی صورت پر عمل پیرا ہو کر دنیا کے لیے تعمیر و ترقی کا پیغام ثابت ہوتے ہیں تو اطمینان رکھیں کوئی ”کافر“ اس پیشرفت سے مایوس نہیں ہوگا۔

 

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments