کابل سے دکھی باپ کی فریاد


موبائل فون پر گھنٹی بجی نام نمبر اور تصویر میرے پیارے دوست کی تھی۔ جو کابل ائرپورٹ پر خاندان کے ساتھ جان کی بازی ہار گیا۔ دوسری طرف درد بھری آواز سنی میں احمد کا بابا بول رہا ہوں۔ وہ کدھر چلا گیا۔ کب واپس آئے گا۔ اپنے ساتھ ہمارے چھوٹے چھوٹے کھلونوں کو بھی لے گیا۔ ہمارا دن ان کے ساتھ بہت اچھا گزر جاتا تھا۔ وہ بہت شرارتیں کرتے تھے۔ ہم نے اس کو کتنا روکا مگر اس کو جانے کی جلدی تھی۔ اب ہمارا کیا بنے گا۔

ہم یہ زندگی کے دن کیسے گزاریں گے۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں نہ جانے کتنے سوالات کر ڈالے۔ اور میرے پاس ان کے ان سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔ ان کی آواز میں بہت درد تھا۔ ایسے محسوس ہوتا جیسے کلیجہ باہر آتا ہے۔ غم سے نڈھال اور بے یارو مددگار۔ میں مسلسل کوشش کر رہا تھا کسی طریقے سے ان کو حوصلہ دوں۔ مگر ان کے سوالات کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا۔ ان کی زندگی کا سکون ختم ہو گیا زندہ رہنے کی وجہ ختم ہو گئی۔ اپنے پوتے کو سکول لے جانا اور پھر واپس لے کے آنا۔

ساتھ مسجد لے کے جانا کچھ بھی نہ رہا۔ زندگی کا مزہ ختم ہو گیا زندگی کا احساس ختم ہو گیا۔ زندہ رہنے کی آرزو نہ رہی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا یہ یقین ہے۔ سب فیصلے اللہ کے ہوتے ہیں۔ اللہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے۔ یہی چند جملے میں احمد کے بابا سے کہہ سکا۔ میں خاموشی سے ان کو سنتا رہا کچھ کہنے کی ہمت اور حوصلہ بھی نہ تھا۔ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی بہت کوشش کی۔ فون بند ہوا اور پھر جی بھر کر رویا۔ انسان اپنے بچوں کے لئے کیا کچھ کر جاتا ہے۔ زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کے لئے انسان اپنی جان کی بازی کھیل جاتا ہے۔ منزل کی جستجو میں کسی چیز کی فکر نہیں کرتا۔ اپنا آپ فنا کر لیتا ہے۔

منزل تو سب کی کابل چھوڑنا تھا مگر کسی کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے۔ زندگی عجب امتحان لیتی ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑنا اپنا گھر بار چھوڑنا سب سے بڑھ کر اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑنا۔ زندگی اور کتنے امتحان لے گی۔ جب اتنی قربانیوں کے بعد بھی منزل نہ ملے تو پھر شکوہ کس سے کیا جائے۔ افغانستان سے انخلا کے چند ہفتوں میں نہ جانے کتنے دردناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ مسلسل تین دن بغیر کچھ کھائے پئے لوگ اپنا وطن چھوڑنے کے لئے اللہ سے دعائیں کر رہے تھے۔ جو جہاز میں بیٹھنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کو زندگی کا احساس ہونے لگا۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے بہت بڑی قربانی ادا کی۔ اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کے لئے کتنی صعوبتیں برداشت کیں۔ لیکن کچھ کے نصیب میں ابھی بھی خوشیاں نہیں تھی۔ ابھی انہوں نے زندگی کے اور کتنے امتحانوں گزرنا ہے۔

ڈر اور خوف بہت بری چیز ہوتی ہے۔ یہ انسان سے بہت غلط فیصلہ کرا دیتا ہے۔ زندگی جانے کا ڈر سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اسی ڈر کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افغانی اپنا وطن چھوڑنا چاہتے تھے۔ ورنہ کون زی شعور اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ کر وطن سے دور جانے کا سوچ سکتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے امریکی اور اس کے اتحادی افواج کے لیے معاون کا کردار ادا کیا تھا۔ جن کو طالبان یہودی ایجنٹ کہتے ہیں۔

اس لئے ایسے لوگوں کے دل میں خوف زیادہ تھا۔ ابھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ترجیحی بنیاد پر ایسے ہی لوگوں کو وہاں سے نکالا ہے۔ کابل میں آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آ جائے گی۔ کابل کی رونقیں بحال ہوجائیں ہو سکتا ہے۔ افغانستان پہلے سے زیادہ مستحکم ہو جائے۔ امن قائم ہو جائے۔ خون خرابہ ختم ہو جائے۔ مہاجرین اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں۔ لیکن احمد کے بابا کہہ رہے تھے۔ شاید وہ واپس کبھی نہ آئے وہ بہت دور چلا گیا اور اپنے ساتھ میری کل کائنات لے گیا۔ زندگی اتنی دردناک کبھی نہ تھی۔ میرے پاس تو احمد کے بابا کو حوصلہ دینے کے الفاظ بھی نہ تھے۔ میں تو خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہوں۔ احمد لوٹ آؤ والدین تمہارے منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments