معاشرتی رواداری اور مکالمے کی فضا


ہمارے معاشرے کے اندر مکالمہ کا گلا گھونٹ کر ایک ایسا ہجوم تخلیق کیا گیا ہے جس نے انسانی احساسات اور جذبات کا احترام سے

عاری ایک ایسی بھیڑ پیدا کی ہے، جو کہ دوسرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ بات چاہے مذہبی اقدار کی ہو یا اخلاقی اقدار، کی تنزلی کا شکار ہوتا سماج اپنی بنیادی انسانی اقدار کو درپیش مسائل سے لاعلم ہے۔

ہمیں ایک ایسے ہجوم میں تبدیل ہو گئے ہیں جو کہ اپنے حصے کی سچائی کو ہی ابدی سچ مان کر دوسری طرف کی سوچ کا گلا گھونٹنے کے درپے ہے۔

چاہے وہ مذہبی اقدار ہو یا سماجی روایات، ہر طرف ہی ایک اجتماعی انحطاط نظر آتا ہے۔ ایسے میں مکالمے کی فضا نہ ہونا اور فکری سوچ کی نمو کی کے لیے موافق ماحول کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی زوال کی وجوہات سوچنے کی فرصت کسی کو بھی میسر نہیں ہے۔

ہم اس بات کو سمجھنے میں بھی ابھی تک طفل مکتب کا رویہ اپنائے ہوئے ہے کہ اس دنیا میں جتنے نظریات ہیں اتنی ہی سچائیاں ہیں، چاہے وہ مذہبی اقدار ہو یا معاشرتی روایات، چاہے وہ لبرل سوچ ہو یا قدامت پسندی، ہمارے اندر اتنی وسعت ہونی چاہیے کہ ہم ان نظریات کے ساتھ اپنا اور ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی اساس پر قائم رہ سکیں۔ اور یہ سب مکالمے اور مباحثے سے ہی ممکن ہے جو کہ وقت کے اس سلسلے میں ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

اس معاشرتی انتشار میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر طبقہ فکر اپنی سوچ کی ترویج کے ساتھ ساتھ دوسرے نقطہ نگاہ کو نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل مذمت جان کر ان کے جان و مال کے درپے ہے۔

اس سارے ماحول میں ہمیں اپنے ایسے معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے جو کہ مکالمے اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے معاشرتی بنیادی ڈھانچے کی تشکیل دے سکے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو معاشرے سے کلی طور پر الگ نہیں کر سکتا۔ مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ اپنے اقدار اور اپنی اخلاقیات کو دوسروں پر لاگو کرنے کے بجائے اگر خود ان پر احسن طریقے سے عمل پیرا ہوں گے تو لامحالہ دوسرے لوگ بھی شاید آپ کی تقلید میں میں ان اقدار کو اپنانے کی کوشش کریں۔

مگر اس سب کے لئے کہ ہم لوگوں کو صرف برداشت اور تحمل کی کی ضرورت ہے، نہ کہ طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسرے پر لاگو کیا جائے۔ کوئی بھی نظریہ کسی دوسرے طبقہ فکر پر لاگو نہیں کیا جا سکتا اور اس پر عمل نہیں کروایا جاسکتا۔ یہ سب تہذیبی و فکری ارتقاء اسی طور پر ممکن ہے جب ہم اس عمل کو کو فطری طور پر بزور طاقت لاگو کرنے کے بجائے ان عوامل پر توجہ دیں جن سے میں بہتری کے آثار نمایاں ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments