ممبران اسمبلی اور اختیارات کا تعین


ایک طالب علم لکھاری کی حیثیت سے اپنی الجھن ختم کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا پر پوسٹ ٹانک دی کہ ”کیا کوئی اسمبلی ممبر، وزیر یا وزیر اعلی اپنے اختیارات اپنے بھائی، رشتہ دار یا کسی اور کو منتقل کر سکتا ہے؟“

پوسٹ پر قانونی ماہرین نے اپنے سنجیدہ تبصرے اور سیاسی شخصیات نے دلچسپ جگت بازی اور حکومتی پارٹی کے مضحکہ خیز دلائل سامنے آئیں۔

قانونی ماہرین بالخصوص وکلاء صاحبان کی رائے میں آئین پاکستان یا کسی بھی ایکٹ میں یہ گنجائش موجود نہیں، البتہ وطن عزیز پاکستان کی آئین میں گنجائش پیدا کرنا ہر با اثر شخصیت و ادارے کے لئے ایک چٹکی کا کام ہے۔

اپوزیشن سیاسی شخصیات سوال اٹھایا کہ کون سے اختیارات کی بات ہو رہی ہے؟
یعنی کہ موجودہ حکومتی ممبران کے پاس خود اختیارات ہے ہی نہیں تو کسی کو کیا منتقل کرسکیں گے؟
اب ذرا حکومتی سیاسی شخصیات کے مضحکہ خیز دلائل ملاحظہ ہو!

کہتے ہیں کہ ”بھائی ہی بھائی کا مضبوط بازو ہوتا ہے“ جب تمام کے تمام کارکنان ساتھ جوڑ جاتے ہیں تو بھائی ہی ہوتا ہے، جو بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے۔ اس لئے ہاتھ بٹانے کے لئے جائز ہے۔

سوشل سیکٹر میں کام کرنے والوں کی رائے میں کوئی ممبر اسمبلی یا وزیر سیاسی سوشل ورکر ہوتا ہے۔ سوشل کام کے لئے اہلیت ضروری ہے، ممبر یا وزیر کو عوام اس کی اہلیت کی بنا پر اسمبلی بھیجتے ہیں۔ ان کے کام کسی غیر منتخب شخص سے کروانا سوشل سیکٹر کے ساتھ زیادتی ہے۔

بیچ میں کئی سرپھروں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے منتخب وزیر اعلی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ان کا اعتراض تھا کہ اگر قانون میں ایسی گنجائش نہیں تو پھر ”احمد کی ٹوپی محمود کے سر“ کیوں؟

بلکہ ان کا واضح موقف یہ تھا کہ محاورے کو الٹا کر کے یہ پوچھ لیا جائے کہ ”محمود کی ٹوپی ان کے بھائی احمد“ کے سر پر کیوں پہنائی جا چکی ہے؟

چلیں! جو بھی تھے ماسوائے حکومتی حمایتوں کے سب نے اس طرز حکومت کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا۔

اب آتے ہیں اس رواج کو پروان چڑھانے میں من حیث القوم اپنی کوتاہیوں کی طرف!

جب ہم نے ووٹ اپنے حلقے کے کسی قابل شخصیت کو دیا ہی ہے تو پھر اپنے جائز کام کے لئے ان کے بھائیوں، دوستوں اور سسرالیوں کی منت ترلے کیونکر کی جائے؟

یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ہمیں حلقے میں کالج، اسپتال یا سڑک کی تعمیر ضرورت پڑ جائے تو ہم کھل کر متعلقہ ذمہ دار سے مطالبہ کرتے ہیں اور ببانگ دھل اپنا موقف بذریعہ میڈیا پیش کرتے ہیں، کیونکہ یہاں پر بات اجتماعی مفاد کی ہوتی ہے، لیکن اگر کسی خالی اسامی پر نظر پڑتی ہے یا اخبار میں کسی نوکری کا اشتہار پڑھتے ہیں تو میرٹ اور اہلیت کا راستہ چھوڑ کر وزیر و مشیر کے بھائیوں، رشتہ داروں اور مقامی فوکل پرسنز کے ساتھ بیک ڈور رابطے شروع کر دیتے ہیں۔

یہی سے اختیارات اور پارلیمانی حقوق کسی غیر اور نا اہل شخصیت کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر کے بھائی، فوکل پرسنز اور کلاس فیلوز تک ہماری سفارشوں کو لے کر ان کے ساتھ بیٹھ کر ہماری تعریفوں کے پل باندھنے لگ جاتے ہیں کہ آپ کو اس کرسی پر براجمان کرنے میں فلاں کا کتنا کردار رہا ہے اور آئندہ انتخابات میں آپ کو جتوانے میں کیا کیا جتن کرنے والے ہیں۔

یوں میرٹ کی بھی دھجیاں اڑ جاتی ہے اور میٹھے بول میں آ کر ممبر اسمبلی فیصلہ سازی کے لئے کسی غیر منتخب کو موقع دینے لگ جاتے ہیں۔

ہمیں اس روش کو خود ترک کر دینی چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر اعلی کے بھائی فلاں جگہ تشریف آوری کر رہے ہیں ان کے لئے سرخ قالین بچھائی جائے۔ ان کے ساتھ سیلفیاں بنوائی جائیں اور ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے۔

کسی سرکاری دفتر کے قطار میں کھڑے ہو کر ممبر اسمبلی کے بھائی یا بیٹے کو دیکھتے ہی قطار برخاست کی جائے کہ ان کی کو تکلف کا سامنا نہ ہو۔

یہی عمران خان صاحب کا ”دو نہیں ایک پاکستان“ والا وژن ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ آئین پاکستان میں وزیر و مشیر اور عام شہری کے حقوق ایک ہی ہیں۔

اگر ہم خود اس میں تفریق کر رہے ہیں تو ہم آئین پاکستان کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جو کہ ”ایک نہیں دو پاکستان“ کا سبب بن رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments