آپریشن دوارکا: پاک بحریہ کے عزم، ہمت اور حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت


قوموں کی تاریخ میں کئی آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ یہ آزمائشیں دراصل اس قوم کی شجاعت، ہمت، حوصلے، وقار اور حب الوطنی کا امتحان ہوتی ہیں اور صرف وہی قومیں ہر امتحان میں سرخرو ہوتی ہیں جن کا ایک ایک فرد اور ادارہ اپنے وطن کی حفاظت اور سر بلندی کے لیے جان لڑا دے۔ مملکت خدا داد پاکستان کو اپنے قیام سے ہی مختلف النوع آزمائشوں کا سامنا رہا ہے لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ پاکستان کی تاریخ کا سب سے کٹھن امتحان تھا۔

ستمبر 1965 میں ہم سے کئی گناہ بڑی فوج اور بے پناہ اسلحہ رکھنے والے دشمن ملک بھارت نے 6 ستمبر کی رات کو وطن عزیز پر کئی محاذوں سے حملہ کر دیا۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان اس کے لیے تر نوالہ ثابت ہو گا جسے وہ با آسانی نگل لے گا لیکن شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا پالا کس شیر دل قوم سے پڑا ہے۔ پاکستان بھارت کے لیے حلق کا کانٹا ثابت ہوا۔ اور سترہ روز جاری رہنے والی جنگ میں افواج پاکستان نے اپنی بے پناہ قربانیوں اور کامیابیوں سے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

جہاں حملہ آور فوج کو پاکستان کی بری اور فضائی افواج سے ہزیمت اٹھانی پڑی وہیں اسے پاک بحریہ کا لگایا گیا زخم صدا یاد رہے گا۔ 1965 کا معرکہ پاکستانی قوم کے عزم، ہمت اور جواں مردی کا کڑا امتحان تھا۔ دشمن اپنی عددی برتری کے زعم میں یہ بھول گیا تھا کہ فوج بڑی ہونے سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ جنگ جیتنے کے لئے جذبے، حوصلے اور ارادے بڑے ہونے چاہئیں۔ دشمن کی چالوں اور عزائم کو ناکام کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ دشمن سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہیں۔

اگر آپریشن دوارکا کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو پاک بحریہ کی جنگی مہارت اور حکمت عملی پہ داد دیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک بحریہ کو پہلی بار جنگی سطح پر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت دکھانے کا موقع ملا اور اپنے پہلے آپریشن سے ہی پاک بحریہ نے اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوا لیا۔

آپریشن سومنات، آپریشن دوارکا کے نام سے مشہور ہے۔ دوارکا آپریشن پاک بحریہ کی طرف سے بھارتی شہر گجرات کے ساحلی قصبے دوارکا پر حملے کی داستان ہے۔ دوارکا میں بھارت کی بحری بندر گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریڈار سسٹم نصب تھا جس کی مدد اور راہنمائی سے بھارتی ہوائی فوج پاکستان کے مختلف شہروں خاص طور پر کراچی جیسے اہم تجارتی و معاشی مرکز پر فضائی حملے کر رہی تھی۔ کراچی شہر بندر گاہ کی وجہ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس کی فوری حفاظت یقینی بنانا پورے ملک کے لئے بے حد اہم تھا۔

اس لیے شہر قائد کو بھارتی حملوں سے محفوظ رکھنے اور دشمن فوج کے حوصلے پست کرنے کے لئے دوارکا بندر گاہ اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یوں تو بھارت کی تمام افواج کے پاس پاکستان کی نسبت زیادہ اسلحہ تھا مگر پاک بحریہ کو اپنی غازی آبدوز کی بدولت بھارتی بحریہ پر فوقیت حاصل تھی۔ اس وقت تک بھارت کے پاس آبدوز نہیں تھی پاکستان نے اپنی اس برتری کا استعمال کرتے ہوئے غازی آبدوز کو گہرے پانیوں میں تعینات کر دیا۔

غازی آبدوز کی ذمہ داریوں میں بھارتی بحریہ کے بڑے جنگی جہازوں اور طیارہ بردار بیڑے ’وکرانت‘ سے نپٹنا تھا۔ غازی آبدوز کا بھارتی بحریہ پہ اتنا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے اپنے طیارہ بردار بیڑے ’وکرانت‘ کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے سات سو کلومیٹر دور جزائر انڈمان میں لے جا کر چھپا دیا۔ اس کے علاوہ غازی آبدوز کی دہشت سے بھارتی بحریہ کے کسی جنگی جہاز کی کھلے سمندر میں نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا کوئی بھی بحری جہاز غازی آبدوز سے بچ کر نہیں جا سکتا۔

اپنی اس حکمت عملی کی کامیابی کے بعد پاک بحریہ نے ایک اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ پاک بحریہ نے کراچی سے 350 کلومیٹر دور دوارکا بندر گاہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ پاک بحریہ نے سات بحری جنگی جہازوں شاہ جہاں، بدر، بابر، خیبر، جہانگیر، عالمگیر اور ٹیپو سلطان پر مشتمل بیڑا تیار کیا جس کی قیادت کمانڈر پاکستان فلیٹ کموڈور ایس ایم انور کر رہے تھے۔ 7 اور 8 ستمبر کی رات بحری بیڑے نے اپنا سفر شروع کیا ان کا مشن رات کے اندھیرے میں دوارکا بندر گاہ اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنا تھا۔

پاک بحریہ کا بحری بیڑا رات کی تاریکی میں ریڈیو سگنلز استعمال کیے بغیر آگے بڑھ رہا تھا کیونکہ ریڈیو سگنلز استعمال کرنے سے دشمن کو پاک بحریہ کی منصوبے کی بھنک پڑ سکتی تھی اس لیے سمت کا تعین کرنے کے دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔ جب پاکستان کا بحری بیڑا دوارکا کے قریب ایسی پوزیشن پر پہنچ گیا جہاں سے پورا شہر پاکستانی توپوں کی زد میں تھا تب تک رات کے بارہ بج چکے تھے۔ 8 ستمبر کو رات بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور پاک بحریہ کی آگ اگلتی توپوں نے منٹوں میں دوارکا بندر گاہ، ریڈار اسٹیشن اور رن وے تباہ کر دیا۔ مشن مکمل کرنے کے بعد پاکستان کا بحری بیڑا پورے اطمینان اور حفاظت سے واپس لوٹ آیا۔ اس حملے اور غازی آبدوز سے دشمن اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوا کہ ان کے کسی جہاز نے پاکستان کے بحری بیڑے کا پیچھا تک نہ کیا۔

پاک بحریہ کی طرف سے 1965 ء کی جنگ میں کیا جانے والا یہ دوارکا آپریشن پاکستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب اور پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ہر سال 8 ستمبر کو یوم بحریہ منایا جاتا ہے اور آپریشن دوارکا میں حصہ لینے والوں کے عزم اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی وطن عزیز کے دفاع اور وقار کی حفاظت کے لئے ہر لمحہ تیار رہنے کا عزم کیا جاتا ہے۔

1965 کے بعد 1971 کی جنگ میں بھی پاک بحریہ نے وطن عزیز کے دفاع اور مشرق پاکستان میں بری فوج کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جنگوں میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوانے کے علاوہ پاک بحریہ ہر وقت ملکی وقار کی بلندی اور وطن عزیز کی سلامتی کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ پاک بحریہ کمبائنڈ ٹاسک فورس 150 اور 151 کا حصہ ہے جس کا مقصد میری ٹائم سیکیورٹی، بحری قزاقی اور سمندر میں دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ سی پیک کے تناظر میں پاک بحریہ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جنہیں پاک بحریہ بطریق احسن نبھا رہی ہے۔ میری ٹائم سیکٹر میں

امن و استحکام کے قیام کے لیے پاک بحریہ نے ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول جیسے اہم اقدامات کیے ہیں جنھیں بین اقوامی سطح پر بحری تحفظ کے فروغ کے لیے بہت سراہا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments