شگفتہ شفیق کون ہیں؟



ارسطو کا خیال ہے کہ

” شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو ڈھونڈتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاعر کے پاس کہنے کی اضافی خوبی ہے۔“

کہنے کی صلاحیت ایک پیدائشی خوبی ہے۔ (اختلافی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ) وقت کے ساتھ ساتھ اور فنون لطیفہ کی طرح شعری صلاحیت بھی ارتقا پذیر ہے۔ رجحان البتہ بچپن سے ہی عیاں ہو جاتا ہے۔ جیسے کھیت کے لیے مناسب موسم، زرخیز مٹی، بیج اور فصل پکنے تک محنت و ہنر درکار ہے، عین اسی طرح شعری صلاحیت کو پروان چڑھنے کے لیے بہت سی چیزیں درکار رہتی ہیں۔ یہ درکار چیزیں متعلقہ جزئیات ہیں، جو ایک جداگانہ طرز تفکر اور طرز بیاں کو جنم دیتی ہیں۔

یہی سبب ہے کہ ہر شاعر کے کلام میں فکر اور اسلوب کا نرالا پن اسے منفرد بنا دیتا ہے۔ انفرادیت سے شہرت ملتی ہے۔ شگفتہ شفیق تو مشہور شاعرہ بھی ہیں مقبول بھی۔ آپ نے مجھے اپنی کتاب ”شگفتہ نامہ“ تحفتاً دی۔ انہیں مشاعروں میں سنا ہے۔ نام شگفتہ، مزاج شگفتہ اور شاعری میں بھی شگفتہ مزاجی۔ ایک تکون ہے، جس کے تینوں زاویے ایک کلیت کو ترتیب دیتے ہیں۔ پہچان ایک کلیت کی آؤٹ لائیں ہے۔

شگفتہ شفیق نے شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔ کتنے اشعار کہے ہیں، کتنے افسانے لکھے ہیں۔ یہ بتانے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کہ ابھی مشق سخن جاری ہے۔ یوں مقدار ان کے ہاتھ میں ہے، جتنے بھی شعر کہے، افسانے لکھے، مگر معیار یعنی قدر و قیمت کا تعین وقت کرتا ہے۔

شگفتہ نامہ میں شاعری، افسانے hum اور تبصرے قلمبند ہیں۔ مگر ان کی فن و شخصیت پر لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اب میں چاہوں گا کہ شگفتہ صاحبہ کے بارے میں ان کے سوانح نگار کیا لکھتے ہیں۔ کچھ تاثرات نذر قارئین کروں۔

جگدیش پرکاش (انڈیا) اپنے مضمون بعنوان ”صحرائے ہجر میں مہکتا ہوا گلاب“ میں رقمطراز ہیں :

”شگفتہ جی نے مجھے زیر اشاعت مجموعہ (محبت کی علامت ہوں ) میں سے منتخب چھ غزلیات سے نوازا ہے۔ ان غزلوں کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں کسی گلی سے گزر رہا ہوں جس میں کسی کے موجود ہونے کی آہٹ محسوس کر رہا ہوں۔ کوئی دور سے آتی ہوئی آواز سن رہا ہوں۔ کسی بدن کی خوشبو میرے مساموں میں پیوست ہوئی جا رہی ہے۔ جہاں یہ سب کچھ ہے لیکن وہاں کوئی نہیں ہے۔ شگفتہ جی کی شاعری میں وہی تاثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ محبوب کا انتظار۔ اس کا ملنا۔ اور پھر ملنے کا وعدہ کر کے کبھی لوٹ کر نہ آنا۔ ان کی ہر غزل اسی تڑپ اسی درد کا اظہار ہے جب وہ کہتی ہیں

بھیگی آنکھوں کا غم نہیں کرتے
بس یہی کام ہم نہیں کرتے
تم بھی خوش باش ہم کو دکھتے ہو
ہم بھی تکیے کو نم نہیں کرتے

ان اشعار میں ان کی نا امیدی و امید۔ دونوں کی جھلک ملتی ہے جس کا مداوا وہ اپنے ضبط رکھ کر کرتی ہیں۔ ”(شگفتہ نامہ صفحہ 251، 252 )

جگدیش نے ایک دو اور اشعار بھی دیے ہیں :
”کڑی تھی دھوپ اور سایہ نظر نہیں آیا
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا
ہمیں تو فیض کسی گام پر کہیں نہ ملا
لگائے پیڑ تو ان پر ثمر نہیں آیا
اس ستم گر کو اس پہ حیرت ہے
کوئی شکوہ بھی ہم نہیں کرتے
وہ رلاتے ہیں بے حد ہنسانے کے بعد
راز کھلنے لگے دل لگانے کے بعد

آپ ہر غزل ہی میں شگفتہ شفیق کے خوبصورت جذبات اور دل گداز انداز سے روبرو ہوں گے۔ شگفتہ شفیق جی کے اشعار جہاں دل میں ایک ٹیس پیدا کرتے ہیں وہیں امید کا دامن بھی تھامے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے کلام سے قاری کو کسی صحرا میں کسی کی زلف سے گرے ہوئے گلاب کی مہک کا تاثر کبھی گدگدائے گا۔ یہ ہی وہ خوشبو ہے جس سے شاعرہ نے اپنے کلام کو سجایا ہے۔ ”(شگفتہ نامہ صفحہ 252 )

مندرجہ بالا دیے گئے تاثرات میں جگدیش نے ایک غضب کا جملہ نذر قارئین کیا ہے ؛ ”جہاں یہ سب کچھ ہے لیکن وہاں کوئی نہیں ہے“ کہ گویا آج کے انتشار و خلفشار کے دور پر جامعہ تبصرہ ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس میں انسان کو دونوں یعنی ”سب کچھ ہونے“ اور ”کچھ بھی نہ ہونے“ کی حالتوں میں احساس محرومی کھائے جا رہا ہے۔

شاعر تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔ جہاں جیسے چاہتا ہے بسر کرتا ہے۔ یہ دنیا بظاہر تو وہی دنیا ہے جہان ہم سب اکٹھے رہتے ہیں، مگر شاعرانہ دنیا اور ہے۔ ان دیکھی دنیا جسے یوٹوپیا بھی کہہ سکتے ہیں۔

شاعری میں ”محبوب“ ، ”خواب“ ، ”منزل“ وغیرہ ایسے استعارے ملتے ہیں جن کا خاکہ بیک وقت جمالیاتی بھی ہوتا ہے اور فلسفیانہ بھی۔ خواب کی فکری تشکیل ہر شاعر اپنی بصیرت (vision) کے مطابق کرتا ہے۔ ایک بصیرت ہو پھر بھی انداز بیاں اور الفاظ و معنی کی بناوٹ الگ الگ طرح کی ملے گے۔ اسلوب کی بالیدگی نامیاتی (organic) ہونے کی بدولت جسم و ذہن کی نشو و نما کی طرح ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر شخص کی زندگی ایک طرح سی گزرے۔

انسان کتنا بھی حسین و جمیل ہو، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ چہرے کے خد و خال ہی بدل جاتے ہیں۔ البتہ شاعرانہ تصور میں محبوب کا ہست و بود ایک قطعی وجود (absolute being) ہے۔ ہر چیز وقت کے بہاؤ میں بہہ جاتی ہے۔ مگر ”محبوب کا تصور وہی کا وہی رہتا ہے۔ خواب بھی ایک تصوراتی خاکہ ہے۔ مصور کے پاس رنگ، برش اور کینوس ہیں۔ جبکہ شاعر کے پاس الفاظ ہیں، غور و فکر کی صلاحیت دونوں کے پاس ہے۔ شاعر دانش و حکمت کے نت نئے نقوش تراشتا ہے۔ اس لیے شعر کو جب قاری سنتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ گویا اس کے اپنے خیال کی ترجمانی کی گئی ہے۔ افتخار عارف کا ایک شعر ہے کہ:

نہ جانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں (حرف باریاب)

بیانیہ بدل سکتا ہے، خواب نہیں۔ خواب ادھورا ہو سکتا ہے۔ جیسے شگفتہ جی نظم بعنوان ”ادھورا خواب“ میں کہتی ہیں ”

میری زندگی کا حاصل
وہ ادھورا خواب میرا
جسے جاگ جاگ دیکھا
وہ ہواؤں میں ہے بکھرا
جو کبھی ہوا نہ پورا
تو ہنسی کی جگہ دل میں
کوئی چپ اتر گئی ہے! (شگفتہ نامہ صفحہ 159 )

شگفتہ شفیق کے یہاں مختلف شعری کیفیات ملتی ہیں۔ یہ تنوع ہے۔ تنوع سے جمالیاتی رنگ و بو کا کثیر الجہتی احساس جنم لیتا ہے۔ یوں شگفتہ کے شعر پڑھنے سے حلاوت و شگفتگی کا احساس بخوبی ہوتا ہے۔ یہ احساس یعنی حسیت کا ادراک حواس خمسہ میں سے کسی ایک حس یا زیادہ حسیات سے ہو سکتا ہے۔

تیری باتوں سے مجھے تازگی ملتی رہی
تیری چاہت سے مرے دل کی کلی کھلتی رہی

شگفتہ جی کا انداز بیاں اتنا سہل ہے کہ تجریدی اظہاریہ کا گماں بھی نہیں ہوتا۔ تجریدی اظہاریہ میں شعر پڑھتے یا سنتے ترت ابلاغ نہیں ہو پاتا کہ ذہن میں تصور ایک تصویر بن کر ابھر سکے۔ شعر دیکھیے :

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں۔

”جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں“ مصرع ہے کہ ضرب المثل! ایسی سطریں ذہنوں میں یاد رہ جاتی ہیں۔ شاعری کی یہی بڑی خوبی ہے کہ شعر سنتے ہی یاد ہو جائے۔

شگفتہ کے شعر میں اداسی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ اداسی کی کیفیات بوجہ یا بلا وجہ بھی طاری ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر ایلس سلور کہتے ہیں کہ انسان اس زمینی سیارے کی مخلوق نہیں ہے۔ ”کبھی کبھی اس پر ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسے کسی پردیس میں رہنے والے کو اپنا دیس یاد آنے پر ہو جاتی ہے خواہ وہ اپنے ہی دیس میں اپنے رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔“ یہ شعر دیکھیے ”

کوئی پل خوشی کا نہیں زندگی میں
اداسی ہے اتنی کہ گھبرا گئی ہوں میں

اداسی داخلی کیفیت کا مظہر ہے۔ چھپنے والی چیزیں بھی چھپتی نہیں، اداسی چہرے پر تو موسم کی طرح اتر آتی ہے، کیسے چھپ سکتی ہے۔

یہ آنسوؤں کے خزانے یہ جاگتی آنکھیں
ترے دیے ہوئے تحفے کدھر چھپاؤں گی

شاعر جہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں اس کا بچپن گزرتا ہے، وہاں کے آس پاس کے حالات سے اس کی شخصیت کا پس منظر تشکیل پاتا ہے۔ بچپن کی یادیں شاعر کے لیے ایک بیش بہا اثاثہ کہ خام مال کی طرح ہے۔ حالیہ دنوں کی تمام اچھی سے اچھی باتیں بھی بھولی جا سکتی ہیں لیکن بچپن میں رہ گئی ایک معمولی محرومی یاد رہ جاتی ہے۔ حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ مگر بدلتے حالات کے تلخ تجربات و اثرات کو بھلانے میں بڑا عرصہ لگتا ہے۔ شاعر کی تو عمر انہیں یادوں کو شعری ہیئت دینے میں گزر جاتی ہے۔ شگفتہ صاحبہ نے بھی اپنے دکھوں کو بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے یہاں فرقت کا احساس بھی وصال سے کم نہیں۔

میں بھلا کیسے بھول پاؤں گی
یہ محبت یہ مہربانی تیری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments