قائد کے آخری ایام ڈاکٹر کرنل الہیٰ بخش کی زبانی


قائد اعظم محمد علی جناح ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ ایک ایسی ہستی جس نے غیر معمولی محنت اور لگن سے مشکل ترین حالات میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ملک حاصل کیا۔ ان کی وفات بلاشبہ مسلمانوں کے لیے کسی عظیم سانحے سے کم نہیں تھی۔ اگر قائد کچھ سال مزید زندہ رہتے تو کم سے کم ملک بننے کے بعد ابتدائی دو دہائیوں میں حکمرانی کا جو تماشا لگا رہا وہ نا ہوتا ملک کو آئین مل چکا ہوتا اور قومی ترقی اور قومی زندگی سے متعلق ایک سمت متعین ہو چکی ہوتی۔

مگر قائد کی بے وقت موت نے نوزائیدہ مملکت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا اور اسی لیے نوابزادہ لیاقت علی خان نے قائد کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے قوم کے نام اپنے نشری پیغام میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کو ایک ایسے وقت میں ہمارے درمیان سے اٹھا لیا ہے جبکہ ہمیں ابھی اپنی قومی بقا کے دشوار ترین مراحل میں ان کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کا مستقبل کی مشکلات کے حوالے سے اندازہ درست تھا ابھی بہت کچھ طے ہونا تھا بہت سے اہم فیصلے ہونے تھے اور یہ سب کچھ قائد اعظم کی زندگی میں ہی ہو سکتا تھا مگر ایسا نا ہوسکا۔

قائد اعظم 1930 سے تپ دق جیسے موذی مرض کا شکار تھے تاہم ان کی بیماری سے متعلق ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے ذاتی معالج کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ اپنی بیماری کو خفیہ رکھ کر وہ پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے ان کو علم تھا کہ اگر ان کی بیماری کا علم ان کے مخالفین کو ہو گیا تو پاکستان نہیں بن سکے گا اور ان کی وفات پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہی کہا کہ اگر جناح کی بیماری کا علم ہوتا تو وہ ان کی موت تک انتظار کرتے اور یوں تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ قائد کی بیماری کو کامیابی کے ساتھ راز میں رکھا گیا۔ تاہم اب مرض نے قائد اعظم کو پوری طرح گھیر لیا تھا اور تپ دق کے مرض میں قائد کو کراچی کا موسم راس نہیں آ رہا تھا تو ان کے معالج کے مشورے پر زیارت جانے کا پروگرام بنایا گیا کیونکہ کا زیارت کا ٹھنڈا موسم قائد کے لیے کراچی کے مقابلے میں بہتر تھا

قائد جون 1948 میں اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور معالج کے ساتھ کوئٹہ روانہ ہوئے اور وہاں سے زیارت پہنچے۔ زیارت پہنچ کر ان کی طبعیت سنبھلنے لگی مگر زیادہ بہتر نا ہو سکی اور صحت کے اتار چڑھاو کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران ان کا وزن مسلسل گرتا رہا۔ 14 اگست کو ان کو کوئٹہ لایا گیا اس وقت تک قائد کا وزن محض 36 کلو رہ گیا تھا۔ وہ دوبارہ زیارت چلے گئے جہاں موسم مزید سرد ہوتا گیا اور 9 ستمبر کو قائد کو نمونیہ ہو گیا اب زیارت کا ٹھنڈا موسم قائد کی صحت کے لیے مناسب نہیں تھا اس لیے کراچی واپسی کا پروگرام بنایا گیا۔ قائد اعظم سے سفر سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے سفر کرنے کی اجازت دے دی اور یوں کراچی واپسی کا سفر دن دو بجے شروع ہوا

قائد کے معالج ڈاکٹر کرنل الہیٰ بخش کے مطابق ”چار بج کر پندرہ منٹ پر ہم ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور ایک بڑا مشکل بار سے اترا۔ جہاز سے نکلا تو گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز نظر آئے۔ وہ ایمبولینس کے قریب کھڑے تھے لیکن کوئی نرس موجود نہ تھی۔ کراچی میں کسی قدر گرمی تھی لیکن کچھ ایسی ناقابل برداشت بھی نہ تھی کیوں کہ ہوا خوب چل رہی تھی۔ مگر جہاز کے اندر کافی حبس تھا۔ اس لیے ہم قائد اعظم کو جلدی سے ایمبولینس میں لے آئے۔ مس جناح اور کوئٹہ والی نرس ایمبولینس میں بیٹھ گئیں۔ ملٹری سیکرٹری، ڈاکٹر مستری اور میں گورنر جنرل کی کار میں سوار ہوئے۔ ملازم سامان کے ساتھ پیچھے ایک ٹرک میں بیٹھ گئے۔ ہوائی اڈے سے گورنر جنرل کی قیام گاہ نو دس میل ہوگی۔ ہم اس طرف بہت کم رفتار سے روانہ ہوئے

بمشکل چار میل کیے ہوں گے کہ ایمبولینس یکایک رک گئی۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ کیا ہوا۔ میں نے باہر نکل کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے۔ ڈرائیور نے کہا کہ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں۔ وہ کوئی بیس منٹ تک مصروف رہا لیکن گاڑی پھر بھی نہ چلی۔ مس فاطمہ جناح نے ملٹری سیکرٹری کو ایک اور ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ ہو لیے ۔ ایمبولینس میں ہوا بالکل بند تھی۔ نرس اور نوکر انہیں پنکھا جھل رہے تھے۔ پھر بھی قائد اعظم کو پسینہ پر پسینہ آ رہا تھا۔ ان کے کپڑے پسینے سے شرابور تھے۔ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد خدا خدا کر کے ایمبولینس نمودار ہوئی۔ ہم نے قائد اس میں منتقل کیا اور پھر روانہ ہوئے۔ دو گھنٹے بعد کہیں جا کر ہمارا سفر ختم ہوا ”

یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک گورنر جنرل بیمار حالت میں ائرپورٹ پر اتر رہا ہے اس کو لے جانے والی ایمبولینس دس میل کا فاصلہ طے نہیں کر پاتی اور بیچ راہ خراب ہوجاتی ہے پسینے میں شرابور گورنر جنرل انتہائی کسمپرسی کے عالم میں سڑک کنارے خراب ایمبولینس میں لیٹا ہے اور ملٹری سیکرٹری دوسری ایمبولینس کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ایسے وقت میں قائد نے کیا سوچا ہوگا ان کے احساسات کیا ہوں گے۔

کیا گورنر جنرل کی آمد پر اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں خاص طور پر اس وقت جب گورنر جنرل شدید علیل ہوں۔ ستم تو دیکھیے کہ ائرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک دس میل کا فاصلہ دو گھنٹے سے زائد مدت میں مکمل ہوتا ہے۔ گورنر ہاؤس پہنچتے ہیں تو نرس نہیں ملتی بڑی مشکلوں سے رات گئے ایک نرس دستیاب ہوتی ہے۔ ان حالات میں دنیا کی ایک بڑی اسلامی ریاست کا بانی، بابائے قوم ایک طویل اور تکلیف دہ بیماری کی اذیت سہنے کے بعد انتقال کر جاتا ہے۔ جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں تدفین کے بعد پرشکوہ مزار تعمیر ہوتا ہے مگر خدا جانے کیوں ایمبولینس کی خرابی والی خلش دل سے نہیں جاتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments