فید قلعہ : ترکی کے ثقافتی آئینے میں اداسی کا عکس


سفید قلعہ (The white castle) ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ یوں تو مشرق سے طلوع ہونے والے نوبل انعام یافتہ ادیب اورحان پاموک کا یہ

شاہکار 1991 میں آیا۔ مگر ترجمہ در ترجمہ سفر طے کر کے اسے ہم تک پہنچنے میں بڑی دیر ہو گئی۔ ہندوستان میں اس کی اشاعت مئی 2021 میں اثبات پبلیکیشنز کے ذریعے ہی منظر عام پر آ سکی۔ اسی لیے یہ مجھ سمیت ان احباب کے لیے بھی نیا ہی ہے جن کی پرنور آنکھوں کو اس کے پی ڈی ایف نے بھی ٹھنڈک نہ پہنچائی ہو۔ ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے اور میمن صاحب کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ قرات کرتے ہوئے وہ آپ کو یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیتے کہ یہ ترجمہ ہے یا ان کا اپنا ہی ناول۔

عالمی ادبیات میں بڑا اور اچھا ادب تخلیق کرنے والوں میں پاموک کا نام محتاج تعارف نہیں۔ نقادوں نے پاموک کے اسلوب میں ’جیمز جوائس، تھامس مان، گنٹر گراس اور بورخیس کے اسلوب کی گونج محسوس کی ہے۔ مگر اردو یا انگریزی تراجم پڑھنے والے نقادوں کو پاموک کی اسلوبی جہت میں سنجیدگی کے ساتھ اور بھی سوچنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

پاموک کا یہ ناول بھی اس کے نئے ناول، (My Name Is Red) ’سرخ میرا نام‘ ہی کی طرح استنبول کی گم گشتہ یادوں اور اس کی قدیم تہذیب و ثقافت اور سلطنت ترک کی شان و شوکت کا آئینہ دار ہے۔ تاہم یہ فیصلہ سنانا ابھی خیلے دشوار ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی استنبول کی بوسیدہ حویلیوں، شاہی محلوں، ثقافتی خانقاہوں، دور تک پھیلی ہوئیں شاہراہوں، کشادہ اور تنگ گلیوں، چھوٹی بڑی پہاڑیوں کی اوڑھ بل کھاتیں ندیوں اور سرسبز وادیوں کا ایک کولاژ ہے۔

یہاں بھی وہی شہر بستا ہے۔ لوگ بھی وہی ہیں۔ مگر رکیے کہ کہانی پوری طرح بدلی ہوئی ہے۔ وہاں آپ قفس عنصری سے پرواز کر جانے والی روحوں سے ان کے دل سوز اور کرب انگیز نوحے کو، ایک طویل کہانی کی شکل میں سن رہے تھے۔ یہاں ایک زندہ انسان ہے جس کی زندگی کا روشن سورج، طلوع تو ہر روز ہوتا ہے مگر اس کی امید و یقین کی آخری دھوپ کبھی اس کے حصے میں نہیں آتی۔ بندی خانے کی تنگ سی مرطوب کوٹھریوں اور اس کی آہنی دیواروں میں مقید حبس زدہ سناٹوں اور گھٹن سے گزرنے والا یہ زندہ انسان ہی اس کہانی کا ہیرو ہے، جو کتب بینی کا حد درجہ رسیا اور تیزی سے بدلتی دنیا کو اپنی سائنس سے دیکھنے اور پرکھنے کا نصف ہنر رکھنے والا ہے۔

گیارہ ابواب کے وسیع تر کینوس پر اترنے والی سفید قلعہ کی یہ کہانی مغرب کے اسی عیسائی نوجوان سے شروع ہوتی ہے کہ اس کی کشتی پانی کی سطح پر تیر رہی ہوتی ہے کہ دھندلے کہر کی چادروں کو چیرتی ہوئیں کچھ ترکی کشتیاں برآمد ہوتی ہیں۔ ان پر سوار حملہ آور ترک، کشتی میں سے کچھ کو ہلاک اور کچھ کو قیدی بنا کر زندان میں ڈال دیتے ہیں۔ انہی قیدیوں میں وہ نوجوان بھی ہوتا ہے مگر اس کی دانشمندی کہ وہ ترکوں کو خود کے تئیں ایک ماہر طبیب اور قیدیوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ احساس کرانے میں کامیاب ہو کر رہا ہوجاتا ہے۔

قید سے چھوٹنے کے بعد شاہی دربار میں اسے ایک اور چیلنج درپیش آتا ہے جب پاشا کے یہاں اس کی زیست بخشی قبول اسلام کی شرط پر معلق کر دی جاتی ہے۔ وہ پاشا کی تعصب زدہ ذہنیت کو غیر سہل پسندی سے جھیل جاتا ہے۔ پاشا کے ذریعے اس کی مشکل بھری زندگی میں اس کے ہم شبیہ ’خوجہ‘ کی آمد ہوتی ہے۔ خوجہ اور وہ مل کر پاشا کے لیے جدید سائنسی تحقیقات اور جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے نت نئے تجربات سے گزرتے ہیں۔ ایک ناکام بامراد اور غیر اضافی کامیابی جو خوجہ کے حصے میں اتفاقیہ طور پہ آ گئی اور جس کی بازیافت کر کے وہ بہت خوش ہوتا ہے، اس پر قصر سلطانی کا دروازہ کھول دیے جانے کا باعث بنتی ہے۔

کچھ لمحے بیت جانے کے بعد ’خوجہ‘ اپنے شب و روز کا ایک مخصوص حصہ سلطان کے محل کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ جانوروں کے لیے اپنے دل میں بے پناہ محبت رکھنے والا سلطان محض ایک آٹھ سالہ لڑکا ہے جس کے یہاں خوجہ کی تمام ٹامک ٹوئیاں، کسی صوفی کے الہامی خوابوں اور نجومی کی پیشن گوئیوں سے کم نہیں۔ یہ وہی زمانہ ہوتا ہے جب پورا استنبول طاعون کی زد میں آ جاتا ہے۔ اور زمین پر لاشوں کا سیلاب امنڈ آتا ہے۔ لوگ مرنے لگتے ہیں۔ اور کہیں سے بھی زندگی کی کوئی امید بر نہیں آتی۔ سلطان مشاورتی اجلاس بلاتا ہے۔ تمام لوگوں سے رائے لینے کے بعد ’خوجہ‘ کی رائے پر سلطان متفق ہوتا ہے۔

آٹھ سالہ سلطان احمق نہیں کہ وہ خوجہ پر آنکھ موند کر اعتبار کرتا ہے۔ بلکہ خوجہ کی تمام ٹامک ٹوئیاں، جو وہ سلطان کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے، کسی الہامی کتاب کی پیشن گوئیوں کی طرح خوفناک مستقبل کو سرور کن حال میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ مگر کچھ روز بعد سلطان کے یہاں یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ وبا اور دشمن طاقتوں سے بچاؤ کے لئے دفاعی تجاویز کے نفوذ، جدید اسلحے کی بازیابی اور نت نئے سائنسی تجربات و تحقیقات کے ورود کا اصل منبع خوجہ نہیں، ایک مغربی نوجوان ہے جو مشرق میں قیدی بنا کر لایا گیا تھا۔

خوجہ اور راوی یعنی ’میں‘ گرچہ یہ دونوں مذہبی اور ملکی کردار ہیں کہ دونوں اپنا علیحدہ مذہب اور علیحدہ ملک رکھنے والے ہیں۔ مگر پاموک نے کہیں نہ کہیں دونوں کے اندر یہ احساس زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی اور ملکی جنون کی سرحد پر ہمارے اندرون انسان کی روح کہیں گم ہو گئی ہے۔ ناول کی مرکزیت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس میں کرداروں کی بہتات نہیں ہے۔ بوجھل فلسفوں کی آہن پوش عمارتیں بھی نہیں۔ بدیعیاتی واقعات اور نفسیاتی تصورات سے مغرب کو مشرق سے جوڑنے کی یہ فن کاری پاموک ہی کر سکتے ہیں۔

دیکھیے یہ اقتباس۔

’بہار اور گرما میں، میں مشرق کی طرف اناطولیہ، حتی کہ بغداد اور دمشق جاتے ہوئے کاروانوں کو دیکھتا ہوں۔ میں اکثر ان شکستہ بیل گاڑیوں کا نظارہ کرتا ہوں جو گھونگے کی سست رفتاری سے رینگ رہی ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات فاصلے میں کسی گھڑسوار کو دیکھ کر جس کی پوشاک کو میں پہچان نہیں پاتا میرا دل ولولے سے بھر جاتا ہے۔ لیکن جب وہ قریب آتا ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے ملنے نہیں آ رہا ہے۔ ان دنوں کوئی نہیں آتا۔ اور اب میں جانتا ہوں کہ کبھی کوئی آئے گا بھی نہیں۔‘

ممکن ہے کہ یہ پاموک کے اپنے اندرون ذات کی کہانی ہو یا وہ اپنے راوی کے اندر مغرب اور خوجہ کے اندر مشرق کو دیکھنے میں عافیت محسوس کر رہا ہو۔ یا وہ مشرق کی ثقافتی اور مذہبی سرنگوں سے برآمد ہونے والی سیاہ روشنی سے ایک نئی کہانی بن رہا ہو۔ یا یہ محض اس کا ایک جھوٹا خواب ہی ہو۔ لیکن کیا یہ خواب کسی خوبصورت فنتاسی سے کم ہے کہ پاموک کا راوی اپنے وطن اب کبھی نہیں لوٹ پائے گا؟ وہ امید و یقین کے مدفن میں رنج آور حسرتوں اور حزنیہ خواہشوں سے خوشی اور محبت کی کہانی کا کردار بننے میں کامیاب ہے اور اس نے خود کو سپرد کر دیا ہے۔ اپنی بیوی اور بچوں کے۔ ان خوبصورت یادوں کے جو اس نے کبھی خوجہ کے ساتھ گزارے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments