قدیم یونانی فلسفہ


فلاسفی یونانی لفظ ہے جس کا اصل معنی عقل و دانش سے محبت ہے۔ یونانیوں کی ذہانت و فطانت سب سے زیادہ فلسفے کے شعبے میں نمایاں ہوئی۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہوگا کہ فلسفہ یونان کی ایجاد ہے کیونکہ یونان میں فلسفہ کے آغاز ( 6 ویں صدی ق م ) سے پہلے چین اور ہندوستان میں بھی فلسفے کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ ابتدا میں مصر اور بابل کے افکار و نظریات سے یونانی مفکرین متاثر ہوئے تھے تاہم یونانی فلسفہ بعد میں اپنی بعض مخصوص خصوصیات کے باعث منفرد بن گیا تھا۔

جن میں اہم ایک یہ ہے کہ یہاں کے فلاسفروں ( طالیس وغیرہ ) نے پہلی بار کائنات کو مذہبی یا دیو مالائی کے بجائے عقل کے حوالے سے جاننے کی کوشش شروع کی۔ جس سے بتدریج فکری ارتقاء ہونے لگا اور فلسفہ کا مقصد کائنات و انسان کا مطالعہ اور زندگی کا صحیح راستہ متعین کرنا ٹھہرا۔ بیشتر ابتدائی یونانی فلسفہ کائنات کو Unifying اصولوں کی بنیاد پر تشریح کرنے کی کاوشوں پر مرکوز رہا۔ اس کے ساتھ یہ جاننا کہ کائنات کا اصل اور اساسی عنصر یا جوہر کیا ہے؟

بعد میں 5 ویں صدی کے وسط سے سو فیسٹ (Sophist) کہلائے جانے والے مفکرین نے کائنات کی ماہیت جاننے کے بجائے اس میں انسان کے مقام پر تفکر کرنے کو رواج دیا۔

600 ق م سے 200 ق م کے دوران یونانی فلاسفروں نے کائنات، حکومت و سیاست، اخلاقیات اور معاشرے کے متعلق جو نظریات و تصورات پیش کیے وہ بعد میں یورپی دنیا کے فلسفیانہ افکار کے لیے بنیاد بن گئے۔

آج کے ایٹم، اضافیت اور ارتقاء سے متعلق نظریات کے سلسلے میں قدیم یونانی فلاسفروں کے افکار نے ابتدائی کردار ادا کیا۔

اگرچہ یونانی فلسفہ کا سنہرا یا کلاسیکل دور کا مرکز ”ایتھنز“ تھا مگر یونانی فلسفہ کا آغاز یونان خاص کے بجائے یونانی کالونیوں میں ہوا۔ جبکہ بعد میں اس کے عروجی دور کا مرکز ایتھنز بنا۔

اولین فلسفیوں ( جن کے افکار ارسطو کی تحریرات کی وساطت سے پہنچے ہیں ) کو طبعی فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا سروکار زیادہ تر طبعی دنیا یا دنیائے فطرت اور اس کی عمل کاریوں سے تھا۔ ان کے پیش نظر سوال یہ تھا کہ اشیاء کا ماخذ کیا ہے یا مادے کی ماہیت کیا ہے؟ اور یہ کہ فطرت میں مسلسل تبدیلی کا عمل کیسے ہوتا ہے؟

ان طبعی ( اولین ) فلسفیوں کا یقین تھا کہ کوئی بنیادی ”جوہر“ ( Substance ) ہے جو ان تبدیلیوں کا ماخذ ہے۔ ان کے جوابات کے نوعیت سے قطع نظر ان کا یہ طرز فکر اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ سائنسی استدلال کی جانب پہلا قدم تھا۔

یہاں تفہیم کی خاطر یونانی فلسفہ کے اولین مکاتیب فکر/ فلاسفرز کا زمانی ترتیب سے مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے

1۔ ایونیا یا میلتوس مکتب فکر) ۔ اوائل 6 ویں صدی ق م کے ان یونانی فلاسفروں کا تعلق قدیم یونان کی مغربی ایشیا کوچک کی کالونی ایونیا کے شہر ”میلتوس“ ( Miletus ) سے تھا۔ جس کی وجہ سے اس کو ایونیا ’یا میلتوس ”مکتب فکر کہا جاتا ہے۔

یونان کے ان اوائل فلاسفروں کی دلچسپی نظری سائنس میں تھی۔ ابتدا میں انہوں نے مشرق وسطی کے مفکرین خاص کر بابلیوں سے کافی کچھ سیکھا۔

اس مکتب کا بانی طالیس (Thales) 626 تا 556 ق م ) جو پہلا یونانی فلاسفر قرار دیا جاتا ہے ) پانی کو بنیادی جوہر یا ماخذ سمجھتا تھا۔ اس سے اس کا مطلب شاید یہ تھا کہ سب کچھ پانی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی میں فنا ہوجاتا ہے۔

زمین کے بارے کہا کہ یہ تھالی کی مانند ہے اور پانی پر تیر رہی ہے۔

( کہا جاتا ہے کہ طالیس نے 586 ق م میں سورج گرہن کی درست پیشن گوئی بھی کی تھی) ۔ اس مکتب کا دوسرا فلاسفر ( طالیس کا شاگرد) انکسی مینڈر (Anaximander ( 610 تا 547 ق م ) پانی کے بجائے اشیاء کا بنیادی حقیقت بے صورت، غیر متعین اور لامحدود مادہ ہے

زمین اور تمام اجرام فلکی اس کے بنے ہوئے ہیں۔ جو چیز بھی بنی ہے وہ اس کی تبدیلی ہیئت سے بنی ہے۔ اور اسی کے اندر قائم ہے۔ وہ حقیقی جوہر (مادے ) کو زمان و مکان کے حدود سے ماورا سمجھتا ہے۔ اس کا آغاز اور انجام نہیں۔

اناکسی مینس ( Anaximenus ( 588 تا 526 ق م ) نے ”ہوا“ کو جوہر حقیقی سمجھا جو خلا میں پھیلی ہوئی ہے اور مسلسل حرکت کا اصول اس کی فطرت میں ہے۔ اور اس کا یہی اصول کائنات کے وجود میں آنے اور اس کے ارتقا کا باعث بنا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ ہوا کے سرد، گرم خشک، منجمد یا آبی ہونے سے مختلف اشیاء پیدا ہوئیں۔

2۔ زمانی ترتیب سے اگلا فیثا غورث مکتب سمجھا جاتا ہے۔ اس مکتب کا بانی قدیم یونان کی کالونی کروٹان ( جنوبی اٹلی ) کا ریاضی دان اور فلکیات دان فیثا غورث ہے۔ جو زینوفینس کا ہم عصر تھا۔

یہ ایک خاص طریق فکر کا بانی ہے جسے نظریہ اعداد کہتے ہیں۔ وہ کائنات کی توجیہہ کسی مادی عنصر کے بجائے ریاضیاتی اصول مجردہ سے کرنے کی کوشش کی۔ وہ اعداد اور جیومیٹری کے اشکال کو تمام حقائق کی اصل سمجھتا ہے۔

اس کا اپروچ مالتوس ( ایونی ) مکتب کے برعکس مذہبی اور تصوراتی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے کائنات کے متعلق قدیم دیومالائی تصورات کے ساتھ نئی سائنسی تشریحات کے انضمام کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے الفاظ میں اخلاقیات۔ ماورا فطرت عناصر، اور حسابی اصول بمعہ اصولوں کا عجیب مجموعہ فیثا غورث کا فلسفہ تھا۔ وہ عقیدہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ انسانی روح کو پاکیزہ تر بنانا اس کے نزدیک انسان کا مقصد اعلی تھا۔

(فیثا غورث نے موسیقی پیمانوں کی ریاضیاتی بنیاد دریافت کی۔ فیثا غورث کے مذکورہ خیالات سے قطع نظر علم۔ الحساب، نظریہ موسیقی اور فلکیات میں انہوں نے بڑے قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ بلکہ جیومیٹری میں ان کی کچھ دریافتیں ابھی تک مستند سمجھی جاتی ہیں ) ۔

بنیادی ماخذ / عنصر کے ساتھ ایک سوال یہ تھا کہ عنصر اچانک کسی دوسری چیز میں کیسے تبدیل ہو سکتا ہے اسے تبدیلی یا تغیر کا مسئلہ کہا جا سکتا ہے

تغیر اور عدم تغیر ( ثبات اور تغیر ) کے مسئلے پر دو مختلف موقف والے مکاتب فکر ایلٹا اور (ہیریکلیٹس سامنے آئے

3 ) ۔ (ایلٹا مکتب Eleatic) ۔ اپنے مرکز یونانی کالونی ایلیا Elea اٹلی) کی مناسبت سے یہ نام دیا گیا۔
زینو فنیز ( Xenophanes) پار مینائڈیز، (Parmenides) میلنس زینو اس مکتب کے بڑے نام ہیں۔

پارمینڈیز ( 540 ق م تا 480 ق م ) کے مطابق ہر چیز غیر متغیر ہے اور ہمیشہ سے موجود ہے۔ اس کے مطابق کوئی چیز فی الواقع تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ ظاہری طور پر نطر آنی والی مسلسل تبدیلی کی حالت کے بارے وہ کہتا تھا کہ یہ حواس خمسہ کے ادرکات کے باعث ہے۔ اور حواس ناقابل اعتبار ہیں اس لیے پرکھ کا پیمانہ عقل کو ہونا چاہیے

4) ۔ ہیریکلیٹس مکتب#۔ ہیریکلیٹس ( 535 تا 475 ق م ) آگ کو اشیاء کا بنیادی عنصر یا جوہر سمجھتا تھا۔ اس کے مطابق چونکہ آگ یا نور ہمیشہ متحرک اور تغیر پذیر ہے اس لیے کوئی چیز ایک حالت پر نہیں رہتی یعنی اشیاء متحرک اور متغیر ہیں۔

اس کا فلسفہ اس کے مشہور قول۔ Nothing is permanent but change ( تبدیلی کے سوا ہر چیز متغیر ہے ) کے گرد گھومتا ہے۔ اس کے مطابق مسلسل تبدیلی یا بہاو فطرت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ دوسرا یہ کہ دنیا کا نمایاں وصف اس کے تضادات ہیں۔ اور ان تبدیلیوں اور تضادات کا سر چشمہ آفاقی عقل یا قانون ہے جس کو وہ خدا کے بجائے یونانی لفظLogos پکارتا ہے

5) ۔ Pluralists مکتب۔
اس مکتب کے بڑے ترجمان جزیرہ ”سسلی“ کا
ایمپدوکلس (Empedocles)
( 495 تا 435 ق م ) ہے
ایمپدوکلس کے فلسفے کی بنیاد یونانی فلسفے میں متضاد اصولوں میں مصالحت پیدا کرنا تھا

اس کے مطابق کائنات کی ماہیت یا ماخذ کسی ایک عنصر کے بجائے چار عناصر ہوا، پانی۔ مٹی اور آگ ہیں۔ دوسرے مادے ( اشیاء) انہی چار عناصر کے مختلف مقدار سے وجود میں آتے ہیں۔

اس کے مطابق کوئی چیز تبدیل نہیں ہوتی ہے بلکہ فطرت کے سارے عمل ان چار عناصر کے یکجا یا علیحدہ علیحدہ ہونے کے بنا ہوتے ہیں۔

ان عناصر کا امتزاج اور تحلیل کیسے اور کون کرتا ہے۔ ؟ ایمپدوکلس اس حوالے سے کہتا ہے کہ فطرت میں دو مختلف قوتیں (محبت اور جدل ) بر سر پیکار ہیں۔ محبت اشیاء کو مربوط کرتی ہے اور جدل جدا کرتی ہے۔ وہ مادے اور قوت کے درمیان فرق کا قائل تھا۔ ( جدید سائنس کا بھی یہی موقف ہے )

اس مکتب کا دوسرا بڑا نام اناکساگورس۔ ( 500 تا 428 ق م) ۔ ہے جو ایشیائے کوچک سے ایتھنز آ گیا تھا۔

انکسا گورس کے مطابق مادے کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ اس کی تشکیل لا محدود حد تک تقسیم ہونے والے جامد ذرات سے ہوئی ہے۔ اشیاء کے وجود میں آنے کی وجہ ان کے اجزائے ترکیبی کا باہم ملنا (کمپوزیشن) اور بکھرنا (ڈی کمپوزیشن) سے یوتا ہے۔ یہ کہ اشیاء کے اجزائے ترکیبی پہلے سے اپنا وجود رکھتے ہیں یعنی مادے کی تمام صورتیں ذاتی صفات رکھتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اوائل میں تمام مادوں کے اجزا ( ذرات ) ب بے ربط انداز میں مرکب صورت میں باہم ملے ہوئے تھے۔ یہ (مرکب) لامحدود طریقے سے خلا میں پھیلا تھا۔ ایک وقت یہ مرکب کھل گیا اور ہر قسم کا مادہ ذرات کی صورت میں علیحدہ ہو گیا۔ اور اپنا الگ الگ وجود قائم کرنے میں لا محدود وقت لیا۔

انکسا گورس کا ایک نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ مادہ کی ہر صورت اپنا الگ وجود اور ذاتی صفات رکھتی ہے تاہم اس میں دوسرے مادے کے کچھ ذرات بھی ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جز میں کل ہوتا ہے۔

انکسا گورس کے مطابق ذرات کے مرکب کو ابتدائی حرکت دے کر ترتیب دینی والی ایک بیرونی قوت ہے جس کو وہ ناوس Nous ( آفاقی عقل) کے نام سے پکارتا ہے۔

(اناکساگورس فلکیات دان بھی تھا۔ اس نے سورج کی حقیقت، دوسرے سیاروں میں زندگی کی موجودگی۔ چاند کا بذات خود سے روشن نہ ہونا اور سورج گرہن کی تشریح جیسے موضوعات کے بارے بھی خیالات پیش کیے تھے ) ۔

6) ۔ (ایٹمی مکتب (Atomist) 4 ویں صدی کے اس مکتب کے بڑے ترجمان لیوکیپس ( Leucippus) اور اس کا ذہین شاگرد ڈیمو کرٹس ( Democretus) 460 تا 370 ق م ) تھے۔ انہوں نے مادہ کا ایٹمی نظریہ پیش کیا۔ جس کے مطابق تمام مادہ چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرات ( ایٹم ) پر مشتمل ہے۔ وہ ہیریکلیٹس کے اس خیال سے متفق تھا کہ فطرت میں ہر چیز بہتی ہے کیونکہ صورتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لیکن ہر چیز کے پیچھے ناقابل تغیر اشیاء ( ایٹم ) موجود ہوتی ہیں۔ مظاہر فطرت، اور اس کی ترتیب کے پیچھے کوئی باقاعدہ با ارادہ عقلی طاقت نہیں بلکہ اس کی وجہ مادے کی اپنی ذاتی صفت یا فطرت ہے۔

ان کا کائنات سے متعلق تصور خالص مادیانہ تھا۔ ڈیموکرٹس نے اس نظریہ کو مزید آگے بڑھا کر اس کا اطلاق علم نفسیات، علم الابدان۔ نظریہ علم، اخلاقیات اور سیاسیات پر بھی کیا اور یوں مادی جبریت ( Materialistic Determinism ) کا پہلا موئد بنا۔

سوفیسٹ Sophists) مکتب۔ #۔

مذکورہ مکاتب فلسفہ کی مرکزی فکر کائنات کی ماہیت و حقیقت معلوم کرنا تھا۔ جبکہ سوفیسٹ مفکرین نے انسانی فکر کا رخ کائنات سے انسان کے مسائل کی طرف موڑ دیا۔ سوفیسٹ دراصل سفری معلمین کا گروہ تھا۔ جو اکثر معاوضہ لے کر تاجر طبقے کو سیاسی اور حکومتی معاملات سے متعلق علم دیتے تھے۔ ان کی تعلیمات نے یونانی شہری ریاستوں کو زراعتی بادشاہت سے تجارتی جمہوریت میں تبدیل کرنے میں بڑا رول ادا کیا۔

سوفیسٹ اضافیت ( Relativism ) کے قائل تھے جس کے مطابق کسی عالمگیر اور مستقل حقیقت خیر یا شر کا وجود نہیں بلکہ سب چیزیں اور اعمال اضافی ہیں۔

سوفیسٹ مفکرین میں ایک بڑا نام ایتھنز کا پروٹوگورس Protagorus ) تھا جو اسی مکتب یا گروہ کا بڑی حد تک بانی اور ترجمان تھا۔ ان کا مشہور قول ہے کی ”انسان ہی تمام چیزوں کا پیمانہ ہے“ اس کا خیال تھا کہ انسانی ذہن معروضی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی معروضی حقیقت کا قائل تھا۔ اس لیے اس نے معروضی حقیقت کی تلاش کے بجائے انسانی عقل کو انسان کے لیے عملی طور پر مفید علم کی تلاش کرنے پر زور دیا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے سیاست، آرٹ، تقریر اور خطابت کی تعلیم دینی شروع کی۔

اگرچہ اکثر سوفیسٹ مفکرین اور ان کے نظریات یونانیوں میں باعث تشکیک اور امن اور اخلاقیات کے منافی گردانے جاتے تھے۔ تاہم انہوں نے یونانیوں کا انسانی مسائل کی طرف ذہن لگانے میں بڑا کردار ادا کیا جبکہ اس سے پہلے کے مفکرین محض کائنات سے متعلق گہرے رازوں کی تلاش میں ہی مصروف تھے۔

متذکرہ مکاتب فلسفہ کے بعد قدیم یونان کے فلسفے کا ”کلاسیکل“ دور آتا ہے۔ جس کا مرکز ”ایتھنز“ ہی رہا۔ یہاں کے تین فلاسفر ”سقراط“ ، ”افلاطون“ اور ”ارسطو“ یونانی فلسفے کو واقعی کلاسیکل بناتے ہیں۔ ان تینوں فلاسفروں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمگیر حقیقت کی تلاش کو بھی جاری رکھا اور اس کے ساتھ سوفیسٹوں کی انسان دوستی کا پہلو بھی اپنے فلسفیانہ فکر کا اہم حصہ بنایا۔ یہ تینوں فلاسفر جدید مغربی فلسفے کے بانی شمار ہوتے ہیں۔

ان کے اٹھائے گئے فلسفے کے بنیادی سوالات آج تک موضوع بحث چلے آئے ہیں۔ جن سے ان کی فلسفیانہ افکار کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سقراط۔ ( 469 تا 399 ق م) ۔ سقراط فلسفے کی دنیا کا بڑا نام ہے۔ اس نے نہ کوئی کتاب لکھی اور نہ فلسفے کا کوئی باقاعدہ مکتب قائم کیا۔ تاہم ان کے افکار اور طرز تعلیم کے بارے معلومات اس کے نامور شاگرد افلاطون اور اس دور کے ایک مشہور تاریخ نویس ”زینو فون“ کے ذریعے باقی رہ گئی ہیں۔

سقراط کے فلسفے کا مرکزی موضوع اخلاقیات ( عدل، محبت اور نیکی جیسے اقدار ) سے متعلق تھا۔

سوفیسٹوں کے برعکس سقراط کا موقف تھا کہ معروضی اور ابدی حقائق کا وجود ہے جن سے انسان اپنے لاعلمی کے باعث محروم رہتا ہے۔

اس کا اعتقاد تھا کہ حقیقی علم انسان کے اندر موجود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ عقلی اور تنقیدی طریقے سے اس سے آگاہی حاصل کی جائے۔ جس کے لیے تعصبات سے چھٹکارا اور منطقی انداز فکر ضروری ہے۔

حقائق یا حقیقی علم سے آگاہی کے لیے سقراط نے اپنا مشہور طریقہ سوالات و جوابات یا مکالمانہ انداز متعارف کرا یا۔ اس کا یہ طریقہ بڑا موثر رہا کیونکہ یہ مخاطب کو مخصوص خطوط پر سوچنے کی راہ پر ڈال دیتا تھا۔

سقراط تمام برائیوں کو لاعلمی کا نتیجہ قرار دیتا تھا اور کہتا تھا کہ کوئی بھی فرد قصدا برائی نہیں کرتا ہے اس لیے اس کا موقف یہ تھا کہ ”علم نیکی ہے“ اور جو سچائی کو جانے گا وہ نیک عمل کرے گا۔

سقراط کے سارے افکار اور تعلیمات کے پیچھے بنیادی اعتقاد یہ تھا کہ صرف علم ہی اچھی زندگی کا رہنما ہو سکتا ہے اسی بنا وہ علم کو نیکی کہتا تھا۔

سقراط اپنی حب الوطنی اور گہری مذہبیت کے باوجود اپنے کئی ہم عصر با اثر افراد کے عتاب کا شکار رہا۔ جنہوں نے اس کو عوامی عدالت کے ذریعے 399 ق م میں موت کی سزا دلوائی۔

افلاطون ( 427 تا 347 ق م ) ۔

اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد ایتھنز سے چلا گیا۔ کافی عرصے بعد واپس آ کر 387 ق م میں اکیڈیمی کھولی ( جو 529 عیسوی تک یونانی علوم و فنون کا مرکز رہی )

افلاطون نے اپنے استاد سقراط کے تصورات کو منظم فلسفے کی صورت دی۔ اور اس کی تعلیم و تدریس کا مکالمانہ انداز اپنایا۔ افلاطون کی تعلیمات و تصورات ”مکالمات افلاطون“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جو سقراط کے افکار کے ساتھ افلاطون کے اپنے نظریات و تصورات پر منبی ہیں۔

افلاطون سقراط کی طرح اخلاقیات کو علم کی اعلی ترین سمجھتا تھا۔ اور دانش کو عین نیکی کہتا تھا۔ اخلاقیات کے علاوہ اس کے مکالمات میں ماہیت علم، سیاسیات، مابعدالطبعیات، مذہب، فطری علوم ( نظری سائنس ) ادب ( ڈرامہ) حسن و محبت وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں۔

افلاطون کے فلسفے کی بنیاد اس کا مشہور نظریہ عیون یا المثال ( idea) ہے جو انہوں نے اپنے کئی مکالمات خاص کر ”جمہوریہ“ اور ”پر میندس“ میں بیان کیا ہے۔ اس کے دوسرے تصورات و نظریات اسی ”نظریہ امثال“ سے سمجھے جا سکتے ہیں۔

افلاطون کے اس نظریہ کے مطابق ایک ابدی، غیر متبدل تصورات یا امثال یا عیون یا ideals پر مشتمل دنیا ہے جس کا وجود روحانی ( غیر مرئی ) ہے اور یہی حقیقی اور اصلی ہے اور ہمیں نظر آنی والی مادی دنیا اور اس کے اشیاء، جن کا ادراک ہم حواس کے ذریعے کرتے ہیں، محض اس آئیڈیل یا امثالی دنیا کے عکس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہماری یہ مادی دنیا ایک سایہ (Shadow ) ہے جبکہ اصل حقیقت آئیڈیل یا امثال کی ہے۔ افلاطون کے مطابق ان امثال کو جاننا ہی حقیقت کا جاننا ہے۔ ان Ideals کی تفہیم صرف ایک تربیت یافتہ ذہن کے ذریعے ممکن ہے اور یہی افلاطون کے نزدیک فلسفے کا مقصد ہے۔

افلاطون کا تصور ریاست) ۔ افلاطون کا دوسرا اہم تصور آئیڈیل ریاست کا ہے۔ اپنے مشہور مکالمے ”جمہوریہ“ ( Republic) میں انہوں نے ریاست و حکومت کی تشکیل اور فرائض کی بحث کی ہے۔ اور ریاست کے بنیادی مقصد۔ ”عدل“ کی وضاحت کی ہے۔ جن ( عدل ) سے افلاطون کی مراد ہر فرد سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لینا ہے۔

مختصر الفاظ میں افلاطون کے مطابق مثالی معاشرہ ( ریاست ) ایک آمرانہ ریاست ہے جس کی حکومت ایسے عاقل فرد ( فلاسفر بادشاہ ) کی زیر نگرانی ہو جو ہر شہری کی صلاحیت کو جانے اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور یوں حقیقی عدل کو حاصل کیا جا سکے۔ جس کا حصول افلاطون کے نزدیک آئیڈیل ریاست کا مقصد ہوتا ہے۔

ارسطو۔ ( 384 تا 322 ق م ) ۔

مقدونیہ کا پیدائشی ارسطو ایتھنز آ کر اکیڈمی میں افلاطون کا شاگرد رہا۔ 20 سال اس اکیڈمی میں پڑھتا اور پڑہاتا رہا۔ افلاطون کی وفات 347 ق م ) کے بعد مقدونیہ جاکر اسکندر کا اتالیق بن گیا۔ 335 ق م واپس ایتھنز آ کر لائسم (Lyceum) کے نام سے سکول کھولا۔

ارسطو نے اپنے وقت کے تقریباً تمام علوم ( منطق، طبعیات، مابعد الطبیعات، اخلاقیات، خطابت، تنقید، سیاست اور طبیعی علوم ) پر اظہار خیال کیا انہوں نے ہر شعبہ علم کی تنظیم و تدوین کی اور یوں حیاتیات، نفسیات، طبعیات اور ادبی نظریہ کو پہلی بار منظم انداز میں پیش کیا۔

اس کے علاوہ رسمی منطق ( Formal logic ) کو ارسطو ہی نے ایجاد کیا۔ جو اس کا منفرد کارنامہ ہے۔ علم ذوالوجی کا بانی بھی ٹھہرا۔

اگرچہ ارسطو کے مکالمات اور اصطلاحات فلسفہ کی لغت وغیرہ کے تھوڑے حصے باقی بچ گئے ہیں تاہم علم اور آرٹ کی ہر شاخ سے متعلق ان کے لکچر نوٹس محفوظ رہے ہیں جن کی ارسطو کے بعد اس کے پیروکاروں نے تدوین کی۔

ارسطو کی تصنیفات میں اہم ان کی ”منطق“ ، ”طبعیات“ ( فلکیات۔ موسمیات، پودوں اور جانوروں سے متعلق معلومات ) ”مابعد الطبیعات“ ( وجود کی ماہیت سے متعلق ) ”اخلاقیات“ ( Ethics) خطابت ( Rhetoric ) ”بوطیقا“ ( ادبی تنقید سے متعلق ) اور ”سیاسیات“ ( Politics ) ہیں

ارسطو افلاطون کا شاگرد ہونے باوجود اس کے کئی تصورات اور نظریات سے اختلاف رکھتا تھا۔ مثلاً اپنی تصنیف ”مابعد الطبیعات“ میں ارسطو نے اپنا موقف (افلاطون کے برعکس ) یہ بیان کیا ہے کہ حقیقت مادہ اور صورت دونوں کا مجموعہ ہے۔ تصور یا صورت ( Forms) آزادانہ وجود نہیں رکھتے ہیں بلکہ اشیاء کے اندر ہی رہ سکتے ہیں دوسرے الفاظ میں یہ مادی دنیا سے ماورا کسی اعلی تر دنیا میں نہیں ہوتے ہیں بلکہ اشیاء ( Matter ) کے حصے ہوتے ہیں۔

نظریہ سیاست کے سلسلے میں ارسطو افلاطون کی طرح موثر حکومت کا علمبردار تھا۔ مگر افلاطون کے برعکس وہ آئیڈیل تصور ”عدل“ پر مبنی خیالی ریاست کا متلاشی نہ تھا۔ بلکہ اس کے بجائے وہ موجود حکومتوں کی تنقیدی جائزے کی روشنی میں بہتر طرز حکومت کا جویا تھا۔ اپنی تصنیف سیاسیات ( politics ) کے لیے ارسطو نے مختلف شہری ریاستوں کے دساتیر کا مطالعہ کیا تھا۔ ان کی روشنی میں انہوں نے ریاست کی ماہیت مقاصد، فرائض اور درجہ بندی وغیرہ سے بحث کی ہے۔ اس کے نزدیک ریاست نیکی کی ترویج کے لیے افراد کا قدرتی مجموعہ ہے۔ فرد ایک سیاسی ہستی ہونے کے باعث اپنے حقیقی کی تکمیل تب کر سکتا ہے جب وہ کسی ریاست کا رکن ہو۔

ارسطو نے اچھے طرز حکومتوں میں تین طرز بیان کیے ہیں۔ 1 ) بادشاہت۔ 2۔ اشرافیہ اور 3 ) آئینی حکومت۔ لیکن اپنے دساتیری تجزیے کی بنیاد پر انہوں نے متنبہ کیا کہ بادشاہت جابریت، اشرافیہ چند سری ( Oligarchy ) اور آئینی حکومت ( ) Radical جمہوریت یا Anarchy میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ تاہم ارسطو نے اکثریت کے لیے آئینی طرز حکومت کو بہتر طرز قرار دیا ہے۔ ۔

مابعد الطبعیات اور سیاسیات کے علاوہ ارسطو نے افلاطون کے دوسرے تصورات، ماہیت علم، اور اخلاقیات کے سلسلے میں بھی اختلاف کیا ہے۔ ارسطو افلاطون کے اس خیال کہ علم Innate ہوتا ہے کے برعکس تجربے کے ذریعے حصول علم کا قائل تھا۔

اسی طرح وہ آرٹ کو ( افلاطون کے برعکس ) اخلاقی ذریعہ تعلیم کی بجائے مسرت اور فکری وسعت کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

ارسطو نے یونانی ڈراموں ( المیوں ) کا جو تجزیہ اپنے ”بوطیقا“ ( Poetics ) نامی کتاب میں کیا ہے وہ ادبی تنقید کے لیے نمونہ بن گیا ہے۔ ارسطو کی یہ کتاب یا مقالہ ( بوطیقا ) ادبی نظریات کے حوالے آج تک اہمیت کا حامل ہے۔

ارسطو کے فلسفہ کا اثر بہت ہمہ گیر ہے۔ فہم سلیم کی تشکیل میں اس کا بڑا کردار ہے۔ ارسطو کے اصول ”سبب اول“ First cause) نے تھیالوجی کے حوالے اہم رول ادا کیا۔

20 ویں صدی تک منطق کا مطلب ارسطو کا منطق رہا۔
اسی طرح ارسطو کا تصور کائنات ”نشاتہ الثانیہ اور بعد کے فلکیات دانوں وغیرہ نے اپنائے رکھا۔
19 ویں صدی میں ڈارون دور تک علم ذوالوجی اس کے نظریات پر قائم رہا

20 ویں صدی تک تعلیم، ادبی تنقید، نفسیات اور سیاسی تجزیوں سے متعلق مباحث ارسطو کے طریقہ ہائے کے زیر رہے ہیں۔

ارسطو کی علمی اہمیت اور اثر ڈارون کے اس قول میں موثر طور پر بیان ہوا ہے کہ ”اس ( ڈارون) کے اپنے زمانے کے بڑے بڑے اہل دانش دور قدیم کے ارسطو کے سامنے مکتب کے بچے لگتے ہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments