بچپن سے پچپن کا سفر


انسان ہمیشہ سے سفر میں رہا ہے۔ اس کا سفر ماں کے پیٹ سے شروع ہو کر زمین کے پیٹ میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہ مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ اس سفر میں بچپن انسانی دور کا سب سے خوبصورت ترین دور ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کا بچپن کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بچپن اور اس کی معصومیت کو ختم ہونا بھی نہیں چاہیے کہ اگر یہ ختم ہو جائے تو پھر زندگی میں بچتا کچھ نہیں۔

پانچ دس سال تک رہنے والے بچپن کا دورانیہ اب طویل ہو چکا ہے۔ کہ جوان لڑکوں کے گھر والے بچپن کے بعد بھی انھیں شدید بچہ ہی سمجھتے ہیں۔ تاکہ وہ بڑوں والے کام، جیسا کہ شادی، سے دور رہیں۔ وہ اپنے بچوں کو شادی شدہ افراد کی مثالیں دے کر ڈراتے ہیں۔ اب وہ ہمسائے کی مرغی اٹھا لائیں یا لڑکی، گھر والے انھیں بچہ ہی کہتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ گھر والوں کو بہو نام کے جھنجھٹ سے آزادی رہتی ہے۔

کچھ بچے کلاس کے سب سے شرارتی بچے ہوتے ہیں اور کچھ ڈرے سہمے۔ جو مجبوری سے کلاس میں بیٹھتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ مجبوری میں گھر جاتے ہیں۔ ان کی دلچسپی کا مقام صرف گرلز کالج کے باہر کی سڑک ہوتی ہے۔ اور وہ اسی جگہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ جو عمر کر گزرنے کی ہوتی ہے یہ بچے اس میں خواب دیکھتے ہیں اور دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر یہ خوابوں میں رنگ بھرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ناکام رہتے ہیں۔

جی ہاں میں اس بچپن کی بات کر رہی ہوں جو ماں کی گود سے اترنے کے بعد سولہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ زمانے والے تو اسے لڑکپن یا اوائل شباب کہتے ہیں لیکن گھر والے ناگزیر وجوہات کی وجہ سے اسے بچپن ہی کہتے ہیں۔ یہ وہ بچپن ہے جہاں کالج کا سبق ہر گز یاد نہیں ہوتا لیکن دوستوں کو سنانے کے لیے معاشقوں کے قصے ازبر ہوتے ہیں۔ اور ہر ’بچے‘ کی ایک سے زیادہ معشوقہ ہوتی ہے۔ اور ان کا دعوی ہوتا ہے کہ ہر لڑکی ان کی پہلی نظر کی محبت ہے اور وہ اس کی خاطر تارے توڑ کر بھی لا سکتے ہیں اور ہمہ وقت جان دینے تک کو تیار بھی رہتے ہیں۔

یہ ’بچے‘ جانو کے لیے کچھ بھی کر سکنے کی بڑھکیں مارتے رہتے ہیں۔ اس بچپن میں ماں ڈانٹے تو خون کھولنے لگتا ہے اور لڑکی غصہ کرے تو ہنسی نکل آتی ہے، بلکہ اس پر غصہ کی بجائے پیار آتا ہے۔ جان تمنا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تپتی دوپہر میں گھنٹوں چھت پر ٹنگے رہیں گے اور ابا جی اگر بطور سزا دسمبر میں بھی پانچ منٹ دھوپ میں کھڑا کریں تو صاحبزادے بیہوش ہوجائیں گے۔ ایسے بچوں کی ساری عمر تدریسی اداروں کے چکر کاٹتے گزر جاتی ہے۔ یہ آپ کو برسہا برس گرلز کالج کی سڑکوں پر اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔ یہاں تک کہ پچپن آ جاتا ہے لیکن ان کا بچپن ختم نہیں ہوتا۔

انھیں ہر لڑکی میں اپنی محبوبہ نظر آتی ہے۔ لیکن کیا ہے کہ نوعمر لڑکیاں پرانی چیزیں پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے معاملہ یک طرفہ ہونے کی وجہ سے تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ پچپن میں جاکر جو لوگ بچپن لوٹ آنے کی تمنا کرتے ہیں وہ دراصل یہی بچپن ہوتا ہے۔

پچیس کے پیٹے میں جا کر ان کے بچپن پر اصل شباب آتا ہے۔ بچپن میں پچپن کا یاد آنا ناممکن ہے لیکن ستم یہ کہ کچھ لوگوں کو یہ پچپن میں بھی یاد نہیں آتا۔ اس پہ مزید ستم یہ کہ پچپن کے دنوں میں انسان بچپن کے سحر سے نکل نہیں پاتا۔ وہ ’بچوں‘ کو دیکھ کر اپنا بچپن یاد کرتا رہتا ہے۔ ان کا بچپنا دیکھ کر لگتا ہے جیسے انھوں نے بچپن کے گرد حصار باندھ رکھا ہے۔ کہ بچپن ان کی سوچ کے دائرے سے باہر نہ نکل پائے۔ پچپن کے بعد کی ساری عمر انسان کی بچپن کو یاد کرتے گزرتی ہے۔

اسی بچپن کو یاد کرتے، جس میں پچپن کبھی یاد نہیں آتا۔ پھر بھی احتیاطاً پچیس میں پچپن والوں سے دور ہی رہنا چاہیے کہ پچپن والوں کی صحبت میں رہ کر خوامخواہ کی بزرگی چہرے پر طاری ہوجاتی ہے۔ اور اچھا خاصا معقول بندہ غیر معقول لگنے لگتا ہے۔ اگر بچپن میں چہرے پر آتے تفکرات سے بچنا چاہتے ہیں تو ’بچوں‘ کو پچپن والوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔ ورنہ زیادہ میل جول سے طبیعت میں غیر معمولی بزرگانہ پن آ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

کیا ہے کہ بے وقت کی سنجیدگی چہرے پہ طاری کر لینے سے آپ فلاسفر ہرگز نہیں بن جاتے۔ فلاسفر تو تبھی بنیں گے جب آپ فلسفی ہوں گے۔ البتہ چہرے پہ خودساختہ کرختگی دیکھ کر لوگ ملنے سے گھبراتے ہیں۔ آپ کو پیٹھ پیچھے خوفناک قسم کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ یاد تو انھیں بھی مختلف ناموں سے کیا جاتا ہے جو ساری عمر گرلز کالج کے چکر لگاتے نہیں تھکتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments