کامیابی ناقابل حصول نہیں


؟ کامیابی کیا ہے
؟ کامیابی کا راز کیا ہے
؟ کامیابی کے حصول کا طریقہ کیا ہے

جہاں تک پہلے سوال (کامیابی کیا ہے؟ ) کے جواب کا تعلق ہے تو اس کا کوئی ایک متفقہ جواب نہیں ہے و جہ یہ ہے کہ جس طرح اس دنیا میں انسانوں کے خد و خال، قد کاٹھی، آواز، مزاج، سوچ اور سمجھ میں فرق ہے اسی طرح ان کی کامیابی کی تعریفیں بھی مختلف ہیں۔ ہر شخص اپنی سوچ سمجھ اور خاص طور پر اپنے ماحول کے مطابق کامیابی کو بیان کرتا ہے۔ عموماً کسان اچھی فصل کے حصول کو کامیابی سمجھتا ہے، نوکر پیشہ لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والا شخص نوکری کے حصول کو کامیابی سمجھتا ہے، کاروباری سوچ اور صحبت رکھنے والا شخص اچھے کاروبار کے حصول کو کامیابی بتائے گا اسی طرح صحافیوں، دانشوروں، اساتذہ، وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئرز کی سوچ اور صحبت رکھنے والا شخص انہی شعبہ جات میں نام اور مقام بنانے کو کامیابی بتلائے گا۔ غرض کامیابی کی کوئی ایک متفقہ تسلیم شدہ تعریف نہیں ہے اسے ہر شخص اپنے طرز پر بیان کرتا ہے۔

اب رکیے۔ ذرا سانس لیجیے اور چند منٹ کے لئے سوچئے آپ کی نظر میں کامیابی کیا ہے ; 238 ; خلاباز بننا، صحافی، دانشور، استاد، ٹرینر، وکیل، ڈاکٹر، منیجر، فوٹو گرافر، پائیلٹ، انجینئر، گلوکار، اداکار، فلم ساز، کارخانہ دار، بیوپاری، آڑھتی، ٹرانسپورٹر، ایتھلیٹ، اولمپکس چیمپین یا کسی ملٹی نیشنل کا مالک بننا آپ کی نظر میں کامیابی ہے یا پھر آپ دنیا کے پہلے دس امیر لوگوں میں شامل ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے آپ ان میں سے کچھ بھی نہ بننا چاہتے ہوں بلکہ آپ کسی خاص علم کے حصول اور اس پر دسترس حاصل کرنے کو کامیابی سمجھتے ہوں، آپ کوئی زبان سیکھنے کو، اخلاق کے کسی خاص درجہ تک پہنچنے کو، آپ اپنے مذہب کے حساب سے ولی ; 47 ; سینٹ بننے کو کامیابی سمجھتے ہوں، اب ایک بار پھر رکیے، پانچ سیکنڈ گہرا سانس لیجیے اور اب آگے کی سطور کو ذرا غور سے اور دو دفعہ پڑھیے۔

وہ یہ کہ اس رؤئے زمین پر آپ کی نظر میں کوئی بھی ایسا ہدف جس کا حصول آپ کے نزدیک کامیابی ہے یا یوں کہیے کہ آپ کی نظر میں کامیابی کی جو بھی تعریف ہے وہ چاہے کچھ بھی ہو، کچھ بھی۔ وہ قابل حصول ہے، آپ اسے پا سکتے ہیں، آپ اپنی من مرضی کے مطابق اپنی سوچ اپنی خواہش کے مطابق بیان کی گئی کامیابی کو حاصل کر سکتے ہیں، جی ہاں وہ کامیابی جو کہ ممکن ہے کہ آپ نے اب تک کسی سے شیئر ہی نہیں کی ہو وہ کامیابی جس کو سوچ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آپ کے گالوں اور ماتھے کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جسے سوچ کر آپ کی رگوں میں خون کی رفتار تیز ہوجاتی ہے جی ہاں وہی کامیابی وہ مقام کہ جس کے حصول کی سوچ ہی آپ پر سرور کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے آپ وہ حاصل کر سکتے ہیں، یہ ممکن ہے۔ بالکل ممکن ہے۔

میں آپ کو ایسی ایک سو ایک مثالیں دے سکتا ہوں جس میں بہت کمزور لوگوں نے بہت بڑے بڑے اہداف حاصل کیے ہیں، بہت ناتواں افراد نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں کہ جو رہتی دنیا تک ان کا نام قائم رکھیں گے، نادار و مفلس لوگوں نے نوبل انعام جیسی عزت پائی ہے حتیٰ کہ جسمانی طور پر محتاج لوگوں نے جب کمر کسی ہے تو دنیا کی سوچ کا دھارا تبدیل کیا ہے۔ میں آپ کو ایک ایک مثال بڑی تفصیل اور سیاق و سباق کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں مگر نہیں آج میں آپ کو کامیابی حاصل کرنے والوں کی مثالیں نہیں دوں گا وہ کسی اور دن آج میں آپ کو کامیابی کے حصول کا فارمولا بتاؤں گا آپ کو وہ اصول وہ قواعد اور وہ اسٹیپس بتاؤں گا جن کو فالو کر کے آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جن پر عمل کر کے آپ اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکتے ہیں۔ ان قواعد اور ان اقدامات میں جو کامیابی کے حصول کے لئے میں آپ کو بتانے والا ہوں میں سے اکثر اساتذہ کے بتائے ہوئے ہیں جبکہ چند ایک میرے ذاتی طور پر تجربہ اور مشاہدہ کیے ہوئے ہیں۔

یاد رکھیں کامیابی ملتی نہیں، کامیابی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ایک دن میں، اچانک، بنا کچھ کیے ، قسمت کی دیوی کی نظر کرم سے، صرف دعاؤں سے، مانگنے سے یا صرف خواہش کرنے سے کبھی بھی کامیابی نہیں ملتی۔ ایسا ہر گز نہیں کہ آپ کہیں جا رہیں ہیں اور کامیابی آپ کو آواز دے کر بلائے اور کہے کہ جی آپ کتنے اچھے ہیں میں یہاں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی ازراہ کرم مجھے سمیٹ لیجیے اور نامور ہوجائیں۔ نہیں ایسا کبھی بھی نہیں ہونے والا۔

اگر غلطی سے آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو فوراً سے بیشتر توبہ تائب ہو کے اپنی سمت درست کیجئے۔ ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ یاد رکھیں کامیابی ملتی نہیں، کامیابی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے اپنی کامیابی کو باقاعدہ پلان کرنا ہو گا، باقاعدہ سے الگ سے خاص طور پر آپ نے سوچنا ہو گا۔ اپنی کامیابی کے حصول کے لئے سوچنا ہو گا۔ صرف اس سوچ کے لئے آپ نے الگ سے وقت لگانا ہو گا بار بار سوچنا ہو گا۔ انتہائی سوچ سمجھ کر اپنی منزل کا انتخاب کرنا ہو گا اس منزل تک پہنچنے کے لئے راستے کا تعین کرنا ہو گا اور پھر اس راستے پر چلنا سیکھنا ہو گا اور کامیابی کی چوٹی کی جانب جاتے اس گھٹن راستے پر چلتے جب آپ گریں گے تو آپ کو اٹھنا پڑے گا پھر گریں گے تو پھر اٹھنا پڑے گا زخم لگیں گے تو سہنے پڑیں گے اندھیروں کا سامنا کرنا پڑے گا طوفانوں سے بھڑنا پڑے گا ناموافق حالات کے ظالم سورج کی تمازت میں جھلسنا پڑے گا اور جب جہد مسلسل سے چور اور کامیابی کے حصول سے مسرور چوٹی پر پہنچیں گے اور اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرائیں گے تو نیچے کھڑے بے منزل و نشاں لوگ جو کبھی آپ کا مذاق اڑاتے تھے۔

وہ۔ جب آپ کے مقام کی جانب دیکھیں گے تو ان کے سروں سے ٹوپیاں گر پڑیں گی۔ اور آپ۔ آپ اپنے سر پر سایہ فگن کامیابی کے بادلوں تلے سکون کی ہلکی پھوار اور اطمینان کی خنک ہوا کو اپنی رگوں میں اتار رہے ہوں گے اپنی منزل کے پانے کی خوشی کو جھوم جھوم کر منا رہے ہوں گے۔ زندگی بھر کا سکون و اطمینان آپ کا مقدر ہو گا۔ آپ نازاں ہوں گے اپنی محنت پر اپنی کامیابی پر اور آپ نازاں ہوں گے اپنے وجود پر۔ آپ کی کامیابی آپ کو کائنات کے ساتھ قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کر دے گی۔ اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانا ہی انسان کے لئے معراج ہے۔

اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانا ہی انسان کے لئے معراج ہے۔ مان لیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ۔ کامیابی اور کامیابی کے حصول کے نتیجے میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے معراج کو پایا کیسے جائے ; 238 ;۔ آ رہا ہے نہ ذہین میں یہ سوال۔ تو پڑھتے جائیے اور پڑھنے کے بعد عمل کر کے اپنے کمال کو پہنچیے۔

سب سے پہلا کام۔ خواب دیکھیں۔ جی ہاں۔ خواب دیکھیں۔ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھیں۔ خواب دیکھیں اس مقام کا اس مرتبے کا جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں اسی کو سوچئے جس کا تصور ہی آپ کو مسرور کر دیتا ہے۔ اس مقام، اس مرتبے، اس چیز کا خواب دیکھئے جسے سوچ کر آپ کو اپنی رگوں میں زندگی دوڑتی ہوئی محسوس ہو۔ یہاں ایک لمحہ رکیے اور اس بات کا ادراک کیجئے کہ کہیں آپ کسی اور کا خواب تو نہیں دیکھ رہے، کہیں آپ کے خوابوں کے پیچھے کسی اور کی نا آسودہ خواہشیں تو نہیں۔

عموماً ہمارے ہاں والدین بچوں کو اپنے تشنہ تکمیل خوابوں کے پیچھے لگا دیتے ہیں، جو کچھ وہ خود حاصل نہیں کر پائے ہوتے اس کا بوجھ اپنی اولاد کے کندھوں پر لاد دیتے ہیں اور اکثر اولاد تک پہنچتے پہنچتے وہ آئیڈیاز یا تو فرسودہ ہوچکے ہوتے ہیں یا پھر وہ بچے کے جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور سماجی میلانات کے ساتھ لگا نہیں کھاتے، مگر والدین وہی راہ اور وہی خواب ہی دکھانے پر مسر ہوتے ہیں جن کے حصول کا ارمان ان کے لاشعور کے کسی کونے کھدرے میں نا آسودہ دفن ہو گیا ہوتا ہے۔

نتیجہ۔ ناکامی۔ (اور پھر اس ناکامی کا ملبہ بھی اولاد ہی پر گرتا ہے ) اپنے موضوع کو دوسری جانب جانے نہ دے کر اسی ضمن میں مزید یہ کہوں گا کہ خواب اور اپنے خواب دیکھنے سے میرا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ کو کیا سوٹ کرتا ہے، آپ کا من کیا کہہ رہا ہے، آپ کی اپنی ذات کی اتھاہ گہرائی سے کیا آواز آ رہی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ آپ اپنے اوپر۔ ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی“ والی کیفیت طاری کر کے اپنے مستقبل کا اپنی زندگی کا خواب دیکھ لیں۔ یاد رکھیں اپنے خوابوں میں آپ نے کوئی ملاوٹ نہیں کرنی، آپ نے خواب وہ دیکھنے ہیں جو آپ کی ذات، آپ کی فطرت، آپ کے احساس، آپ کی روح، آپ کی سوچ، فکر، دل و دماغ کے ساتھ ہم آہنگ ہوں کہیں اور سے متاثر نہ ہوں آپ کے خواب خالص ہوں گے تبھی آپ ان کو حقیقت میں بدلنے کے لئے سب کچھ لگا پائیں گے۔

آپ نے اپنے مقام اپنے مرتبے اپنی زندگی اپنے مستقبل کا نہ صرف خواب دیکھ لیا بلکہ اپنے تصور کو پکا بھی کر لیا اور ایک باقاعدہ نقشہ کھینچ لیا۔ اب اس خواب کو اس تصور کو عملی جامہ پہنانا ہے جو نقشہ آپ نے مرتب کیا ہے اسے اصل میں وجود میں لانا ہے۔ (اس لئے ) اب آپ کے کرنے کا

دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے خواب کو اپنی منزل گردانیں۔ اپنا مقصد بنائیں۔ اپنا نصب العین ٹھہرائیں۔ یہ بہت بڑا اور سنجیدہ کام ہے، اسے معمولی نہ سمجھیے۔ وہ یوں کہ جب آپ کی منزل ہی متعین نہیں ہو گی تو آپ سفر کیونکر شروع کر پائیں گے۔ فٹبال کے میدان سے گول پوسٹ ہٹا دیں تو کھلاڑی گیند کہاں لے جائیں گے ; 238 ; یقیناً افراتفری پھیلے گی۔ کھلاڑی یا تو کھیل چھوڑ کر بیٹھ جائیں گے یا پھر بے مقصد دوڑ دوڑ کر خود کو ہلکان کر لیں گے بعینہ اگر زندگی میں منزل متعین نہ ہو، مقصد معلوم نہ ہو تو بد ترین، ناکام اور افراتفری والی زندگی ہو گی، کٹی پتنگ ہوگی۔

اس لئے اہم ترین کام یہ ہے کہ اپنے خوابوں کی روشنی میں اپنی منزل متعین کر لیجیے۔ یہاں یہ بات تاکید کے ساتھ یاد رکھنے کی ہے کہ آپ کا مقصد، آپ کا نصب العین، آپ کی منزل آپ کے سامنے بالکل واضح ہونی چاہیے، اپنے مقصد کو لے کر آپ کے دل و دماغ میں کسی قسم کا کوئی شک کو شبہ نہیں ہونا چاہیے، کسی طور کی بے یقینی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ واضح ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا مقصد حتمی اور اٹل بھی ہونا چاہیے۔ امریکی مصنف ”اولیور نیپولین ہیلز“ 1937 میں شایع ہونے والی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”تھنک اینڈ گرو رچ“ میں اس بات کو  بیان کرتے ہوئے مقصد کے واضح، حتمی اور غیر متزلزل ہونے پر بہت زور دیتے ہیں۔

تیسرا کام جسے سرانجام دینا ضروری ہے وہ ہے۔ ناکامی کے خوف پر قابو پانا۔ ناکامی کا خوف جو کہ ناکام ہو جانے سے کہیں زیادہ بھیانک ہے کو آپ نے ختم کرنا ہے ( میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ لازما اس خوف میں مبتلا ہیں مگر جو لوگ اس کا شکار ہیں انہیں بہرحال اس سے نکلنا ہو گا) عموما ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ یہ مجھ سے نہیں ہو گا، میں اتنی بڑی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہوں، میری اتنی اوقات کہاں، مجھ میں اتنی ہمت ; 47 ;طاقت کہاں، یہ میرے بس سے باہر ہے۔

ایسا اور اس سے ملتا جلتا منفی سوچ سوچ کروہ ناکامی کے خوف میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور یہ خوف اتنی رزیل چیز ہے کہ انہیں کوشش کرنے تک سے روک لیتی ہے کیونکہ وہ اپنے طور پر (خوف کے زیر اثر) یہ سوچ لیتے ہیں کہ یہ تو مجھ سے نہیں ہونے والا (حالانکہ وہ بہت آسان کام ہوتا ہے اور بے شمار لوگ کامیابی سے کرچکے ہوتے ہیں ) مگر ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ کوشش تک نہیں کرتے۔ تو۔ جس کام پر کوشش ہی نہیں کی جائے گی بھلا وہ ہو گا کیسے، یعنی جب منزل کی جانب قدم ہی نہیں اٹھایا جائے گا کہ (کہ منزل بڑی دور ہے، راستہ گھٹن ہے، میں ناتواں ہوں، وسائل نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ) تو خاک پہنچا جائے گا۔

ساؤتھ افریقہ کے (ان کے پاس امریکی اور کینیڈین شہریت بھی ہے ) معروف ارب پتی، انجینئر اور دنیا کے مانے ہوئے انٹرپینیور ”ایلون مسک“ جن کے کروڑہا ڈالر مالیت کے پہلے تین خلائی مہم کی ناکام ہوئے (چوتھا مشن کامیاب ہوا اور اس کے بعد ناسا کے ساتھ مل کر بہت سے کامیاب مشن کیے جو اب تک جاری ہے ) نے ڈبلین ویب سمٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ”لوگوں کو چاہیے کہ وہ نامعقول خوف کو تو بہرصورت نظر انداز کریں یہاں تک کہ اگر خوف معقول بھی ہے تو پھر بھی انہیں اپنی منزل کی جانب قدم بڑھا دینا چاہیے“ ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں کہ ”ناکامی بھی کامیابی کی جانب سفر کا حصہ ہے“ ۔

بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے ناکامی سے ڈرنا نہیں، ناکامی کے خوف سے کوشش ترک نہیں کرنی، ناکامی کے خوف کو حاوی کر کے بیٹھ نہیں جانا۔ اول تو ناکامی کا سامنا ہو گا نہیں اگر ہو بھی جائے۔ تو کیا; 238 ;۔ ناکام ہوئے بھی، تو کیا ; 238 ; سو واٹ ; 238 ; کہتے ہیں نہ کہ۔ ”گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں“ ۔ اور پھر یہی شہسوار دوبارہ اٹھ کے اپنے زور بازو سے پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیتے ہیں۔ آپ نے بس گرنے کے ڈر سے میدان جنگ میں اترنے سے گریز نہیں کرنا۔

بات کو مختصر کرتے ہوئے سادہ الفاظ میں کہوں تو یہ کہ اگر دل و دماغ کے کسی کو نے میں بھی ناکامی کا کوئی خوف ہے اور وہ منزل کو ناممکن بنا کر پیش کر رہا ہے، قدم اٹھانے سے روک رہا ہے تو اسے اپنا بد ترین دشمن جانتے ہوئے اپنے جوتے تلے روند کر اپنی کامیابی کی جانب قدم بڑھایے۔ یہی قدم آپ کو آپ کی منزل دلائے گی۔

اپنی منزل کو پانے کے لئے آپ کو جو چوتھا کام کرنا ہے وہ ہے۔ منصوبہ بندی۔ پلاننگ۔ اس نقطہ پر پہنچ کر آپ کو اپنی بہترین تدبیر کرنی ہو گی۔ آپ کو راستہ چننا ہو گا اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے۔

دیکھیں میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ۔ ”کامیابی کوئی گری پڑی چیز نہیں جو آپ کو سرراہ پڑی ملے، کامیابی حاصل کرنی پڑتی ہے“ ۔ تو یقیناً کسی بڑے مقصد کے حصول کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی، منزل تک پہنچنے کے لئے راہ کا انتخاب کرنا ہو گا، راستہ وہ منتخب کرنا جو واقعی آپ کی منزل کو جاتا ہے اور اس راستے کی مکمل جانچ کرنی ہے، ایک ایک تفصیل پر غور کرنا ہے، پورے راستے کی پیش بینی کرنی ہوگی۔

منصوبہ بندی کے نقطہ کی پانچ ضمنی نقاط ہیں جن کو آپ نے پیش نظر رکھنا ہے، ان میں :
(1) وقت کا تعین
(2) متوقع درپیش مسائل کی پیش بینی و پیش بندی
(3) درکار علم و ہنر کا ادراک و حصول
(4) تشخیص معاونات اور ان کی آمادگی
(5) تفصیلی تحریری عملی منصوبہ
ان تمام نقاط کی مختصر تفصیل یقیناً آپ کے لئے معاون ثابت ہو گی، ملا حظہ کیجئے ; 234 ;

آپ نے جب گول سیٹ کر لیا، منزل کا تعین کر لیا اور راستہ بھی منتخب کر لیا تو اس کو اب چھوڑ نہیں دینا کہ دیکھیں گے، ہاں کر لوں گا ; 47 ;گی، ایک نہ ایک دن ہو ہی جائے گا، چلو دیکھتے ہیں۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، آپ نے وقت معین کرنا ہو گا کہ آپ نے اپنی منزل کی جانب سفر کس دن شروع کرنا ہے، ہر دن کتنی مسافت طے کرنی ہے کل ملا کر کتنے دن میں پہنچنا ہے اور کس دن اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرانا ہے کامیابی کی جانب آپ کے سفر کا ایک ایک دن محسوب (کیلکولیٹیڈ) ہونا چاہیے۔

کسی بھی کام کے کرنے میں مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اس لئے آپ نے تحقیق کرنی ہے کہ آپ جس راستے پر چلنے والے ہیں اس میں کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے کون سی رکاوٹیں درپیش ہو سکتیں ہیں یہ جان لینے کے بعد ان سے نبرد آزما ہونے، ان کا مقابلہ کرنے، اپنے راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی تیار کر کے آپ نے چلنا ہے۔

آپ جہاں ہیں اور جہاں آپ کو جانا ہے اس فاصلہ کو پاٹنے کے لئے جس بھی علم اور ہنر کی ضرورت ہے اس پر عبور حاصل کیجئے تو آپ اور آپ کی منزل کے مابین حائل فاصلہ عبور ہو جائے گا۔ معروف کینیڈین نژاد امریکی سیلف ہیلپ مصنف ”برائین ٹریسی“ (ان کی 70 سے زائد تصانیف ہیں ) اس ضمن میں کہتے ہیں کہ آپ خود سے یہ سوال کیجئے کہ : ’وہ کون سی ایک مہارت کون سا ایک ہنر ہے جو اگر آپ حاصل کریں اور اسے بھر پور طریقے سے استعمال کریں تو وہ آپ کو اپنی منزل تک پہنچانے میں بہترین مثبت مددگار ثابت ہو گا ; 238 ; ”۔ آپ برائین ٹریسی کا یہ سوال خود سے پوچھئے اور جو بھی جواب آئے اس علم، ہنر، مہارت کو حاصل کیجئے استعمال کیجئے اور اپنی منزل کو پا لیں۔

ان تمام عوامل کا ادراک کیجئے، جان لیجیے، نشاندہی کر لیں اور جائزہ لیں جو آپ کو آپ کی منزل تک لے جانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، وہ کوئی فرد ہے، گروہ ہے، کوئی خاص ماحول ہے، صحبت ہے جو کچھ بھی ہے ان سے مستفید ہونے کے لئے راہ ہموار کیجئے اور کوئی دقیقہ فروگزاشت کیے بغیر استفادہ کر لیں اور اسی طرح ہر وہ فرد، گروہ، کوئی خاص ماحول، صحبت یا کوئی عادت وغیرہ جو آپ اور آپ کی منزل کے آڑے آتی ہو اس سے آپ نے اغراض برتنا ہے اس سے بچنا ہے، دور ہونا ہے گریز کرنا ہے۔

آپ نے اپنی منزل تک پہنچنے کے منصوبے کو مکمل تفصیل کی ساتھ مرتب کرنا ہے، آپ کی یہ تحریر اتنی تفصیلی ہونی چاہیے کہ اس میں دن، تاریخ اور وقت تک کا تعین ہو اور یہ تحریر کہیں کسی کونے کھدرے، کسی دراز یا شیلف میں نہیں پڑی ہونے چاہیے بلکہ یہ ہمہ وقت آپ کے زیرنظر رہنی چاہیے۔

آپ نے خواب دیکھا، اپنے خوابوں کی تراش خراش کر کے اپنے لئے ایک حتمی منزل متعین کی، منزل تک پہنچنے کے لئے راستے کا انتخاب کیا، مکمل اور جامع منصوبہ بندی کی اور تمام لوازم کا بندوبست کیا۔ اب آپ کو آخری اور اہم ترین کام کرنا اور وہ ہے :

عمل۔ جی ہاں عمل۔ ”عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی“ ۔ اب تک جو بھی کیا وہ ایک طرح سے کاغذی، غیر متحرک یا غیر فعال کام تھے اور نسبتاً آسان کام تھے۔ اب آپ کی جنت کا تعین ہو چکا، باقی تمام تفصیلات بھی طے ہیں بس اب قدم اٹھا نا ہے، چل پڑنا ہے، دوڑ لگانی ہے اور اپنی جنت تک پہنچنا ہے۔

یاد رکھیں یہ آپ کا عمل ہے، یہ آپ کے عملی اقدامات ہیں، یہ آپ کی صرف کی جانے والی توانائی ہے، یہ آپ کے اٹھائے گئے قدم ہیں جو آپ کو آپ کی منزل پر پہنچائیں گے۔ کہیں سے کوئی پری نمودار ہو کے آپ کو اپنے پروں پر بٹھا کے منزل پر نہیں پہنچائے گی۔ کیونکہ یہ پرستان نہیں بلکہ مقابلے کی دنیا ہے، یہ دارالاسباب ہے، یہ دار العمل ہے آپ نے تمام حالات و

آلات کو باہم موافق کر کے جہد مسلسل کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments