پھر سب پوچھتے ہیں


جو سوچتا ہوں لکھ دیتا ہوں پھر سب پوچھتے ہیں کس کے لئے لکھا ہے، میں اپنا حال لکھتا ہوں لوگ اسے میرے ملک کا حال سمجھتے ہیں۔ میں اپنی چاک دامنی پر گریہ کرتا ہوں پھر سب پوچھتے ہیں۔ روتے کیوں ہو، جب روتے روتے مسکرانے لگتا ہوں پھر پوچھتے ہیں اب کیا ہوا ہے۔ ضروری تو نہیں جس پر مسکرایا یا رویا جائے وہ ابھی کا واقعہ ہو وہ حادثہ کچھ عرصہ پہلے کا بھی تو ہو سکتا ہے۔

سڑک کنارے گاڑی کھڑی کر کے سو جاو تو پولیس آجاتی ہے۔ یہاں کیوں سو رہے ہیں اور اگر موٹروے کی آرام گاہ پر گاڑی روک کر سو جاو تو شیشہ صاف کرنے والا آ جاتا ہے سوئے ہوئے کو اٹھا کر کہتا ہے۔ شیشے صاف کر دیے ہیں۔ گھر میں سو جاو تو پوچھتے ہیں خیریت آج جلدی سو گئے۔ جاگتے رہو تو کیا پریشانی ہے سو نہیں رہے، گاڑی میں پرانے گانے لگا لو تو کس کی یاد آ رہی ہے نئے لگا لو تو اس عمر میں جوانی خیر تو ہے، بال رنگ لو تو کس کے چکر میں ہیں، نہ رنگو تو کس کا دکھ ہے۔ خاموش رہو تو کیا دکھ پال لیا ہے۔

بات کرو تو، خیر تو ہے نہ بہت چہک رہے ہیں۔ بال نہ کٹواو تو مجنوں جیسا حال کیوں بنا رکھا ہے۔ کٹوا لو تو کس کے لئے بن سنور رہے ہیں۔ پرفیوم لگا لو تو آج کل کچھ زیادہ ہی پرفیوم کا استعمال ہے نہ لگاو تو آپ کو کیا ہو گیا ہے بالکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتے پسینے کی بو آ رہی ہے کیوں بنا رکھا ہے آپ نے ایسا حال، آپ تو ہر سال گاڑی بدل لیتے ہیں نہ بدلو تو اتنے پیسے جوڑ کر کیا کریں گے کچھ اپنے اوپر بھی لگا لیا کریں۔

دنیا اور اس کے سوالوں سے میں بہت تنگ ہوں، دامن کوہ کی طرف جائیں تو ایک پولیس چیک پوسٹ ہے، اکیلے کدھر جا رہے ہیں اور اگر ساتھ کوئی ہو تو تعارف کروائیں، اکثر اکیلا ہی ہوتا ہوں سر جی خیر ہے بڑے دکھی ہیں کیا مطلب دکھی ہیں مکیش صاحب کو سن رہے ہیں۔ کدھر جا رہے ہیں جی کراچی پر یہ تو دامن کوہ کا راستہ ہے تو پھر ادھر ہی جا رہا ہوں۔ اکیلے جا کر کیا کریں گے جی تصویریں بناوں گا۔ موسم تو نہیں ہے تصویروں کا، کیا آپ فوٹوگرافر ہیں۔

نہیں جی پولیس والا، اپنے کام سے کام رکھو اور وقت ضائع مت کرو، جاو صاحب جی ناراض تو نہ ہوں۔ اوپر جاکر کہیں کھڑے ہوجائیں ہر گاڑی، ہر موٹر سائیکل والے کا فرض ہے رک کر پوچھے تصویر بنا رہے ہیں۔ کیمرہ مینوئل پر استعمال کرتے ہیں یا آٹو پر۔ کس کی تصویر بنا رہے ہیں۔ میرے پاس بھی ڈی ایس ایل آر ہے پر میں سیاحتی مقام پر کھڑا ہو کر شوخیاں نہیں مارتا۔ کون سے چینل سے ہیں، مجھے سوال پسند نہیں ہیں اور یہاں سوال کرنا ہر کسی کا فرض ہے خاموش رہو تو بڑا مزاج ہے جناب کا، جواب دو تو سوالوں کی ایک لمبی فہرست، پتہ نہیں لوگ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے، کئی سال لگائے پڑھنے میں کہ یہ پامسٹری، اسٹرالوجی، نمبرالوجی، کیا ہے پھر یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ لوگ کسی اور سے اپنے بارے میں وہ سب جاننا چاہتے ہیں جس کا ان کو خود علم ہے تو ان علوم کو بھی اللہ حافظ کہہ دیا، میں نے سنا ہے کہ قبر میں بھی سوال ہونگے اور بروز حشر بھی سوال ہونگے کوئی ہے جو اس دنیا کو سمجھائے کہ مہربانی فرما کر اس دنیا کو کم از کم قبر نہ بنائیں اور نہ ہی اپنے سوالات سے حشر برپا کریں۔

پچاس سال زندگی کے سوال سنتے اور جواب دیتے گزار دیے، آج دیر سے کیوں آئے ہو، آج بہت جلدی آ گئے، طبعیت ٹھیک ہے، فون بہت مصروف تھا، لاہور بار بار کیوں جاتے ہیں، ساتھ کون ہے، دن کیسا گزرا، سارا دن رابطہ ہی نہیں کیا، کہاں ہیں، کیا کیا لے کر دفتر جانا ہے، میں تھک چکا ہو کبھی کبھی سوچتا ہوں دفتر تو جاؤں پر اپنا آپ بھی ساتھ لے کر نہ جاؤں۔ دفتر کے راستے سے غائب ہو جاؤں۔ نہ کوئی سوال کرے اور نہ ہی میں کوئی جواب دوں۔

کبھی راجہ بازار کی فٹ پاتھ پر سو جاؤں، اور کبھی ننگے پاؤں صحرا میں بھاگوں میرے پاؤں جل جائیں ان پر چھالے پڑ جائیں، کبھی برف پوش پہاڑوں پر ٹی شرٹ پہن کر جاؤں سردی لگ جائے دانت بجیں سردی سے اور تیز بخار ہو جائے اور کوئی نہ پوچھے آپ کو تو بخار ہوا ہے۔ بس باقی جو بھی زندگی بچی ہے خواہش ہے کہ کوئی سوال نہ ہو اور اگر مجھے جواب پتہ بھی ہو تو میں جواب نہ دوں۔ میری ایک درخواست ہے کہ زیادہ زندگی میں نے جواب دینے میں ہی گزار دی۔ اب اگر آپ سوال نہ کریں تو میرے لیے آسانی ہو جائے، شاید یہ دنیا بھی جنت ہو جائے۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments