دکھ میڈیا پر قدغن کا یا سیٹھ کےاحتساب کا ؟


صحافی تنظیمیں آج کل سراپا احتجاج ہیں اور اس کی وجہ موجودہ حکومت کی جانب سے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل ہے۔ احتجاج کرنے والوں میں اکثریت یا تو نیوز اینکرز کی یا پھر مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کی ہے۔ ایک صحافی کے طور پر اس بل کو پڑھنے کے بعد میں گزشتہ کئی دن سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا مگر صرف اس وجہ باز آ جاتا تھا کہ ایسی تحریریں یا تو چھپتی نہیں ہیں یا پھر ان کے چھپنے کے بعد جس ادارے میں کام کر رہے ہوتے ہیں وہاں پر حالات تنگ کر دیے جاتے ہیں۔

وہ قارئین جن کو میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے بارے میں معلومات نہیں ہیں ان کی آسانی کے لئے مختصرا بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ بل کا بنیادی مقصد ایک تو میڈیا (اخبارات، الیکٹرانک و سوشل میڈیا اور فلم، ریڈیو) کو ریگولیٹ کرنے والے مختلف اداروں کی جگہ صرف ایک اتھارٹی قائم کرنا ہے۔ جس کے تحت پیمرا، اے بی سی و دیگر ادارے ایک اتھارٹی میں ضم ہوجائیں گے جو میڈیا کے خلاف شکایات، اشتہارات کو ریگولیٹ، ریٹنگ اور لائسنس کا اجراء کرسکے گی۔

اسی کے ساتھ ساتھ اگر کسی چینل نے کوئی جعلی خبر نشر کی تو اس پر باقاعدہ ایک پینل بیٹھے گا اور متعلقہ پلیٹ فارم کے خلاف جرمانے جیسی سزاوں کا اطلاق کرے گا۔ جبکہ ایک ورکنگ صحافی اور مالکان کے مابین ہونے والے تنازعات اور کنٹریکٹ کے مسائل پر بھی ایک مقررہ مدت کے اندر اندر فیصلہ کیا جائے گا۔

یہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی صحافی کی تنخواہ نہ رکے اور اس کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے نہ نکالا جا سکے۔ قارئین کرام میں نے الیکٹرانک میڈیا میں گزرے حالات و واقعات پر پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا۔ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اگر کسی پر صحیح معنوں میں قیامت ٹوٹی تو وہ میڈیا ورکرز تھے۔ کئی سو اخبارات بند ہوئے، کئی ہزار صحافی بے روزگار ہوئے۔ ان میں سے کئی تو دلبرداشتہ ہو کر چل بسے، کسی نے خودکشی کرلی، کسی نے رکشہ چلانا شروع کر دیا تو کسی نے بریانی کی دکان لگا لی۔

معزز قارئین اس بل کے خلاف پیش پیش اداروں کے اعمال کے بارے میں آپ کو آگاہ کرنے کا مجھے یہ نقصان ہو گا کہ متعلقہ اداروں میں ملازمت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ مگر میں نام کے ساتھ لکھ کر آپ لوگوں کے سامنے حقائق رکھوں گا۔

الیکٹرانک میڈیا میں جب کسی کی ملازمت ہوتی ہے تو اس سے کنٹریکٹ سائن کروایا جاتا ہے، جس کے مندرجات یہ ہوتے ہیں کہ متفق علیہ کی تمام خدمات اس ادارے (کمپنی، مالک) کے لئے ہوں گی، وہ ادارہ کسی بھی وقت (چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت بلانے ) ان خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کا مجاز ہو گا۔

ادارہ کسی بھی وقت کسی بھی ملازم کو بغیر کسی وجہ بتائے نکالنے کا مجاز ہو گا، ہاں صرف یہ کیا جائے گا کہ ایک تنخواہ ییشگی ادا کی جائے گی، جبکہ ملازم چھوڑنا چاہے گا تووہ ایک ماہ کا پیشگی نوٹس دے گا، ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کو بقایاجات اور تجربہ کے سرٹیفکیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اس حکومت کے آتے ہی کئی چینلز نے اپنے ملازمین کی چھٹی کردی، آغاز دنیا نیوز سے ہوا جہاں درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے ایک نوٹس کے ذریعے فارغ کیا گیا، اور سب سے پہلے باری آئی چھوٹے سٹاف یعنی کہ کم تنخواہوں والے ڈی ایس این جی آپریٹرز، کیمرہ مین، سب ایڈیٹر، کاپی ایڈیٹر، این ایل ای اور مختلف شعبوں کے ایسوسی ایٹس کی۔ یقین مانیں ان تمام افراد کی تنخواہیں 20 سے 35 ہزار کے درمیان تھیں۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک طرف اخراجات پورے نہ ہونے کے نام پر ڈاؤن سائزنگ جاری تھی تو دوسری جانب اسی ادارے کے مالک کی ایئرلائن کے لئے وفاقی کابینہ کی جانب سے لائسنس جاری کیا جا رہا تھا۔

بات صرف دنیا نیوز کی ہی نہیں ہے، آزادی صحافت اور صحافیوں کے درد میں گھلے جانے والے جیو نیوز نے پہلے پہلے تو مہینوں اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں ادا کیں ساتھ ہی بیس سے چالیس فیصد تک تنخواہوں میں کٹوتی بھی کی گئی۔ اسی ادارے نے اپنی ذیلی مختلف روزنامے بھی یک دم بند کیے جس کے نتیجے میں کئی برسرروزگار صحافیوں کو دو وقت کی روٹیوں کے لالے گئے۔

ایکسپریس نیوز جو کہ ایک بڑے بزنس ٹائیکون کا ملکیتی ادارہ ہے وہاں پہلے ہی گدھے کی طرح کام کرنے والے سٹاف کی تنخواہیں کم تھیں، نے انٹرنی بھرتی کر کے کام چلانا شروع کر دیا۔ اب تک، نیوز ون، ہم نیوز، جی این این اور سماء جیسے اداروں نے بھی ڈاؤن سائزنگ کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں کٹوتیاں کیں جو تاحال برقرار ہیں۔

ظلم یہ دیکھیں کہ جن اداروں نے کٹوتیاں نہیں کی تھیں ان کے لئے اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے تمام میڈیا مالکان کے نام ویڈیو پیغام جاری کیا اور باقی سب کو مشورہ دیا کہ باقی شعبوں کے برعکس چونکہ میڈیا میں اس وقت سب سے زیادہ تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں تو اب کٹوتیاں کرنا ناگزیر ہیں۔ جس کے بعد میرے ادارے (پبلک نیوز) سمیت بقیہ اداروں نے کٹوتیاں کیں، اس کے باوجود کہ اول الذکر سمیت متعلقہ ادارے اپنے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ بھی چار سے پانچ ماہ کے بعد ادا کر رہے تھے۔

یقین مانیں جب تنخواہیں ادا نہیں ہو رہی تھیں اس دوران، پیمرا، وزیراعظم سٹیزن پورٹل سیل، لیبر کورٹ ہائی کورٹ تک بھی رجوع کیا جاتا رہا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیوں سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ افسوسناک طور پر اس دوران کسی بھی صحافی تنظیم کی جانب سے ان جبری برخاستگیوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف نہ کوئی احتجاج کیا گیا نہ ہی پریشر بلڈنگ کی گئی سوائے ایمرا کے صدر آصف بٹ کے جنہوں نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ہر اس ادارے میں جاکر تالا بندی کی دھمکی دی جو تنخواہیں ادا نہیں کر رہا تھا۔ یہ جو تمام اینکر صاحبان اور ان کے ساتھ یہ عہدیدار موجود ہیں یہ اور ان کے حواریوں کو تو ہوا بھی نہیں لگی، سیٹھوں نے ان کی تنخواہیں ہر مہینے ادا کیں نہ کٹوتیاں کی گئیں نہ ہی ان کے بندے نکالے گئے۔

اسی طرح اینکر صاحبان تو ویسے ہی لاکھوں روپے تنخواہیں لے رہے ہیں ساتھ ہی یوٹیوب چینلز، ویب سائٹس اور نجی کاروبار الگ کر رہے ہیں۔ ان کا تو وہی حال ہے کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی، بھئی رل تو عام ورکر صحافی گیا، جو نہ ہی تنخواہ نہ ملنے پر آواز اٹھا سکتا نہ ہی اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا۔ تو پھر یہ آج کس منہ سے آزادی صحافت کی رٹ لگائی جا رہے، ارے بھیا اچھا ہے نہ اگر صحافتی اصولوں کے مطابق رپورٹنگ کریں گے تو کون سی قیامت آ جانی؟

جعلی خبر چلانا کون سی صحافت ہوتی ہوتی؟ ویسے بھی جس کی وجہ سے آپ کا چینل یا اخبار چل رہا ہوتا اگر اس کو تحفظ مل رہا تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، رہی بات حکومتی کنٹرول کی تو ابھی کون سا حکومتی کنٹرول نہیں ہے؟ کیا اخبارات میں حکومتی توصیف میں چھاپے جانے والے ایڈیشن اور خبریں کنٹرول کرنے کی مد میں نہیں شمار ہوتیں؟ ہاں بس یہ ہوتا کہ اس کا معاوضہ ادا کر دیا جاتا ہے۔

اسی طرح کئی خبریں تو چینل نہیں چلا سکتے کیونکہ وزارت اطلاعات یا وزیراعظم ہاؤس سے منع کر دیا جاتا ہے۔ کئی دفعہ تو اپوزیشن کے خلاف خبروں کے لئے حکومتی عہدیداروں کی جانب سے خصوصی لائن دی جاتی ہے جس پر پھر تجزیے بھی انہی کے کہے گئے تجزیہ کاروں کے لئے جاتے ہیں (یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ادارے میں ذمہ دار پوزیشن پر ہونے اور اس گناہ میں حصہ ڈالنے کی وجہ سے میں پوری ذمہ داری سے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں ) ۔

پھر اتنا شور کیوں؟ بھئی کنٹرولڈ تو آپ پہلے سے ہی ہیں، ویسے بھی آپ ہی لوگوں نے پراپیگنڈا کے ذریعے پچھلی حکومتوں کو بدنام کر کے عمران خان کو حکومت دلوانے میں کردار ادا کیا تو اب بھگتیں۔ مجھے نہیں علم کہ یہ تحریر شائع ہوتی ہے یا نہیں، مگر میں واضح کرتا چلوں کہ یہ میری اور میرے ساتھ والے عام صحافی ورکروں کی آواز ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments