گینجی کی کہانی


مبصر: ڈاکٹر تہمینہ عباس
ناول: گینجی کی کہانی
جاپانی ناول نگار: موراساکی شی کی بو
اردو مترجم: باقر نقوی
تحقیق، تدوین، حواشی: خرم سہیل
پبلشر: راحیل پبلشر اردو بازار، کراچی
قیمت: 3000 روپے

دنیا کا پہلا ناول ہے جو ایک ہزار سال قبل جاپانی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کے اردو ترجمے کا ابتدائی ڈرافٹ باقر نقوی نے تیار کیا۔ جو کئی برسوں کی ریاضت کے بعد تیار ہوا۔ پھر وہ شدید بیمار ہو گئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ باقر نقوی کے بعد اس ناول کو اردو میں میں مکمل ترجمہ کرنے کی ذمے داری پاکستان کے معروف صحافی، براڈ کاسٹر، مترجم، محقق، اور فلم کے ناقد خرم سہیل نے نبھائی۔ خرم سہیل نے بھی کئی سال میں اس کے متعدد ڈرافٹ تیار کیے۔ جس میں ناول کے ترجمے کو مزید بہتر اور عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور ناول کی تفہیم کے لیے اس ناول کے حواشی بھی تحریر کیے گئے جن کی تعداد آٹھ سو سے زائد ہے۔ خرم سہیل نے متن کی درستی، تدوین، اور پروف ریڈنگ کی باریکیوں کا بھرپور خیال رکھا۔

جاپانی زبان میں گینجی کی کہانی آج سے ایک ہزار سال قبل جاپان کے دارالحکومت ”کیوٹو“ میں لکھی گئی۔ اس ناول کی مصنفہ ”موراساکی شی کی بو“ کا اصل نام کچھ اور تھا۔ جاپانی ادب میں وہ اپنے قلمی نام کی وجہ سے مشہور ہیں۔ موراساکی شی کی بو اس دور کے ایک نواب خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے شاہی زندگی کے خد و خال کو بہت قریب سے دیکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انھوں نے شہزادہ گینجی کی کہانی بیان کرتے ہوئے جاپان کے شاہی نظام اور اس کی خوبیوں اور خامیوں اور جذباتی رویوں کی بڑی بھرپور عکاسی کی ہے۔

موراساکی شی کی بو خود ایک استاد تھیں اور شاہی خاندان کے بچوں کی تعلم و تربیت پر مقرر تھیں۔ اس زمانے کے عام رواج کے مطابق انھیں چینی اور جاپانی زبان پر بے انتہا عبور حاصل تھا۔ وہ شاعری بھی کیا کرتی تھیں۔ اس ناول کی تخلیق میں انھیں تقریباً دس سال لگے۔ اس ناول میں چینی ثقافت کی عکاسی بھی موجود ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں جاپان میں چینی اور جاپانی زبان سرکاری طور پر رائج تھیں۔ ”گینجی مونو گتاری“ جاپانی ادب کا ایک مقبول ناول ہے۔ جس کے جدید جاپانی زبان میں کئی آسان ترجمے ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جاپان کے جس شہر میں یہ ناول لکھا گیا ہے۔ وہاں اس نام کا ایک میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے اس ناول کی تاریخ کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ جاپانی درسی نصاب میں اس ناول کے اقتباسات شامل ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی جاپانی ہو جو شہزادہ گینجی کی کہانی کی بابت نہیں جانتا ہو جو ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

یہ کہانی جاپان کے صدیوں پرانے رسوم و رواج اور خاندانی اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ناول نے جاپانی ادب اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ ناول 54، (چون) ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کے صفحات کی کل تعداد 1128 ہیں۔ خرم سہیل اور باقر نقوی کی یہ کاوش اردو ترجمے کی روایت میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یقیناً یہ ناول قاری کو اس دور کے جاپان میں لے جاتا ہے۔ قاری اس کہانی کی باریکیوں پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

ناول کی کہانی قاری کی مکمل توجہ اپنی جانب مبذول رکھتی ہے۔ مگر ضخامت کی وجہ سے اس ناول کو ایک نشست میں پڑھنا ممکن نہیں۔ خرم سہیل نے اس سے قبل بھی ایک جاپانی ناول کا ”کچن“ کے نام سے ترجمہ کیا تھا جسے پڑھتے ہوئے جاپان اور پاکستان کی ادبی روایت کے فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناول بھی جاپانی رسم و رواج اور تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ زبان عام فہم اور رواں ہے۔ مگر جاپانی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کا فرق جا بجا محسوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments