سرمایہ دارانہ اجارہ گردی


سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز پندرہویں صدی میں برطانیہ اور مغربی ممالک میں ہوتا ہے جس کے بعد کارل مارکس نے آج سے لگ بھگ دو صدیوں سے کم عرصے پہلے اس پر قلم رازی کی تھی۔ لیکن اس کی انتہا دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دیکھنے میں آئی۔ موجودہ صدی کی شروعات میں سرمایہ دارانہ نظام کی اجارہ گردی نے مزید توانائی پائی ہے۔ اس غریب کش نظام کی بدولت دنیا میں غریب، غریب تر جبکہ امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے گنتے کے برابر لوگ اپنے مکروہ معاشی مقاصد کی تکمیل کے لئے نا انصافی، مہنگائی، غربت ماحولیاتی آلودگی، اور جنگی جنون کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

دنیا کی تجارت پر کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ گردی اور مقابلے کی فضا نے غریبوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ اپنی مرضی کی قیمتوں کے تعین کی بدولت یہ کمپنیاں بے لگام اجارہ گردی قائم کی ہوئی ہے۔ اور بقول ریمنڈ بی کر کے جس کو وہ dirty money (گندا پیسہ) کہہ کر پکارتا ہے کو بعد میں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال میں لاتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے یہ کمپنیاں دنیا میں جنگی ماحول پیدا کر کے اور پس پردہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے سامنے امریکہ کی معیشت ہے جس کا 30 فیصد حصہ جنگی ساز و سامان کی فروخت پر مشتمل ہے۔ جس کے لیے ظاہر ہے اس نے دنیا میں جنگ یا جنگ جیسا صورتحال بنانی ہوتی ہے۔

غریبوں کا خون چوسنے کے ان کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ جن میں ان ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا اپنی مصنوعات کے لئے اپنی مرضی کی قیمتیں طے کرنا، بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی جیسے ناروا اقدامات شامل ہیں۔ ساتھ ساتھ میں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ دار یا تو اپنی پارٹی بنانے ہیں یا پھر دوسری جماعتوں میں گھس کر نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں اور غریبوں کا استحصال کر کے اپنی مرضی کے قوانین بناتے ہیں۔

دوسری طرف چونکہ ان کمپنیوں اور سرمایہ دار ممالک کی مصنوعات کی منڈی ترقی پذیر ممالک ہوتے ہیں ان کو debt trap جیسی گھناؤنے شکنجوں میں پھنساتے ہیں۔

جن کے لیے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف جیسے اداروں کو استعمال میں لایا جاتا ہیں۔
اور آہستہ آہستہ ان ممالک کے قدرتی وسائل کو لوٹ کر ان کا استحصال کرتے ہیں

ہوس زر، منافع خوری اور طبقاتی کشمکش کو سرمایہ دار جمہوریت کے لبادے میں پروان چڑھاتے ہیں۔ جس سے سماج اور متوسط طبقہ آہستہ آہستہ تنزلی کی کھائیوں میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ آکسفام کے مطابق انڈیا میں 77 فیصد عوام کے پاس اتنی دولت نہیں جو ملک کے 10 فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ اسی طرح سے ملتی جلتی صورتحال دنیا کا سب سے جمہوریت پسند ملک ہونے کے دعویدار امریکہ میں ہے جہاں پر اشرافیہ ملکی دولت اور وسائل کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔ یہی امریکی کارپوریشنز دنیا کے کے غریب ممالک کا خون چوستے ہوئے دنیا میں جنگی ماحول پیدا کر نے کے ذمہ دار ہیں۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک طرف 735 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہوں جبکہ دوسری طرف 60 فیصد یعنی 6۔4 ارب لوگوں کے پاس اتنی دولت نہیں جو دنیا کے 2153 کے ارب پتیوں کے پاس ہو۔ جہاں ایک طرف انسان بھوک سے بلک بلک کر مر رہے ہو اور جہاں سرمایہ دار دنیا کے محنت کشوں کے حقوق کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہو۔ ایسے دستور اور ایسی صبح بے نور کے خلاف بغاوت اور سرکشی کا آخری کیل ٹھوکنا ہی غریبوں اور محنت کشوں کو اپنے حقوق دلوا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments