سکھر سمیت سندھ بھر میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ


سکھر سمیت سندھ بھر میں ایک مرتبہ پھر اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کے بعد سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر میں چوری، ڈکیتی، قتل و غارت اور موبائل فون، موٹر سائیکل چوری سمیت دیگر جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے شہری گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دو روز قبل سکھر شہر میں نجی ہسپتال کے باہر علاج کے لئے آئے جاگیرانی برادری کے لوگوں پر بیچ سڑک مسلح افراد نے کھلاڑی اور پسٹل کے فائر کر کے ایک نوجوان ناظم جاگیرانی کو موقعہ پر ہی قتل کر دیا۔

جبکہ سابق ڈائریکٹر ایجوکیشن سکھر غلام مرتضیٰ جاگیرانی اس کے دو بیٹے انجنیئر فرحان اور منظر جاگیرانی شدید زخمی ہو گئے جنہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ جہاں پر ڈائریکٹر ایجوکیشن غلام مرتضیٰ جاگیرانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ دوسری جانب سکھر کے علاقے پنوعاقل میں ڈاکو سومرو برادری کے ایک نوجوان صحافی ظفر سومرو کے بھائی کو اغوا کیا گیا ہے۔ جس کے بعد پنوعاقل سے مغویوں کی تعداد دو ہو گئی ہے۔ جبکہ سکھر کے علاقے روہڑی کا رہائشی محرم گھانگھرو کو صادق آباد سے اغوا کیا گیا ہے۔

سکھر کے سبزی منڈی کے قریب سائٹ تھانے کی حدود میں دکان سے ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ میں ایک دکاندار غلام شبیر لاکھو شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ سکھر شہر میں آباد تھانے کی حدود شاہ خالد کالونی میں پرانی دشمنی پر ملزمان نے گھر میں گھس کر ایک خاتون کو قتل کر دیا گیا۔ جو کہ افسوسناک واقعہ ہے۔ جہاں پر گھروں میں خواتین تک محفوظ نہی ہیں۔ سکھر شہر روہڑی، کندھرا، صالح پٹ دیگر علاقوں میں بدامنی اور اسٹریٹ کرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

عام طور پر چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ تو معمولی بات ہے۔ مگر بدقسمتی سے موبائل فون کی چوری اور چھیننے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ میں موٹرسائیکل چوری بھی عروج ہے۔ کسی گھر دکان، بینک یا آفس میں ڈکیتی ہو جائے یا چوری کی واردات ہو تو مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور پولیس ریکوری کے لئے حرکت میں اجاتی ہے۔ مگر آپ کی موبائل فون یا موٹر سائیکل چوری ہو یا چھینی جائے مجال ہے جو کسی تھانے پر پرچہ کاٹا جائے یا پولیس حرکت میں آئے گی۔

مطلب موبائل فون اور موٹر سائیکل کی چوری ڈکیتی کو جرم ہی تصور نہی کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس جرم میں پولیس خود ملوث ہوتی ہے۔ پولیس اہلکار گینگ کا حصہ ہوتے ہیں مجرموں کو خود اجازت دیتے ہیں کہ موٹر سائیکل اور حصہ فون کی چھوٹی چھوٹی چوری کریں اور ہمیں بھی خرچے کے لئے ہم حصہ پتی دیں۔ آج کل جنازہ نماز میں موبائل کی چوری کے وارداتوں میں رکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ایک جنازہ نماز میں سے 20 سے 40 تک موبائل فون چوری ہو گئے ہیں اور وہ بھی سکھر ضلع میں۔

ایک ایک جنازہ نماز میں سے 10 سے 20 لاکھ روپے کے موبائل فون چوری ہو چکے ہیں۔ اور لاکھوں روپے کی مالیت کی موٹر سائیکل بھی چوری ہو گئی ہیں۔ ہم صحافی بھی عام طور پر موبائل فون اور موٹر سائیکل چوری کی خبر کو اہمیت تک نہیں دیتے ہیں۔ اور اگر خبر بھیج دی جائے تو بمشکل کبھی کبھار اندر پیج میں سنگل لائن کی خبر لگ جاتی ہے۔ مجھے اب پتا چلا ہے کہ بہت بڑا جرم ہے جب سکھر میں ایک ہی سال کے دوران میرے دو موبائل فون چور جیب سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔

ایک سال میں ایک صحافی کے اگر 56 ہزار نکل جائیں تو اس کی معاشی حالت بدتر سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ گزشتہ سال کرونا وائرس کے دوران شام کے وقت دوران رپورٹنگ شکارپور فاٹک کے قریب مجمع میں کوئی بشنی گھس آیا جس نے میری سائیڈ والی جیب سے J 7 نیا موبائل نکال کر لے گیا۔ بہت ہاتھ مارا مگر موبائل ملنا تو دور کی بات پتا تک نہی چل سکا کہ کس نے نکالا اور اب اسے کون استعمال کر رہا ہے۔ ایک صحافی کے گھر کا کیسے گزارہ ہوتا ہے کوئی صحافی ہی بہتر جانتا ہے۔

میرا دوسرا موبائل فون 9 محرم الحرام کو ڈیڑھ بجے روہڑی میں تاریخی 9 ڈھالا ماتمی جلوس کی کوریج کرتے ہوئے کوئی بشنی جیب سے انفنکس Infnix کا موبائل چوری کر گیا۔ مجھے اس مرتبہ بہت تکلیف ہوئی 9 اور 10 محرم الحرام کو عام تعطیل تھی سکھر اور روہڑی شہر مکمل طور پر سیل تھا۔ موبائل مارکیٹ بند تھی۔ ہمارا تقریباً کام نیوز بھیجنا بھی موبائل سے ہی ہوتا ہے۔ نہ صرف موبائل گیا۔ دو ہزار سے زائد نمبر، ڈیٹا، سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس، تصاویر، ویڈیوز سب ڈلیٹ ہو گئے۔

ایس ایس پی آفس سکھر میں کیمرا مین کے فون نمبر سے اطلاع دی کہ یہ موبائل چوری ہو گیا ہے کہیں یا کسی واردات میں استعمال نہ ہو تاکہ رکارڈ میں رکھا جائے کیونکہ برا وقت دیکھ کر نہیں آتا ہے۔ 11 محرم الحرام کو دوست کی توسط سے قسطوں پر موبائل فون لیا اور استعمال کر رہا ہوں۔ اب مجھے سمجھنے میں آیا کہ موبائل فون کی چوری کتنا بڑا نقصان اور صدمہ دہ ہوتا ہے۔ موٹرسائیکل بھی عام آدمی کے استعمال میں ہوتی ہے۔ جس نے ایک بار لی وہ دوبارہ لینے کی طاقت مشکل ہی رکھتا ہے۔

کاش یہ باتیں پولیس کو سمجھ میں آ جائیں کہ موبائل فون اور موٹر سائیکل چوری روکنے کے لئے حرکت میں آئیں۔ سکھر سمیت سندھ بھر میں کچھ ایس ایس پیز ہیں جو موٹر۔ سائیکل کے بدلے متبادل کے طور پر استعمال شدہ موٹر۔ سائیکل بھر کے دیتے ہیں اور موبائل فون کی جگہ پر استعمال شدہ موبائل فون واپس کرتے ہیں مگر یہ سب ان کو واپس ہوتی ہیں جو جن کی ان پولیس افسران کے ہاں پہنچ ہوتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق سکھر میں ایک ماہ کے دوران ایک سو سے زائد موبائل فون چوری اور چھیننے کے واقعات رکارڈ ہوئے ہیں۔

تقریباً ایک سال کے اندر، 1000 موبائل فون چوری اور ڈکیتی ہوئے ہیں۔ ایک موبائل اگر 30 ہزار کا ہو تو ایک ہزار موبائل۔ فون کی مالیت لاکھوں روپے میں ہو جاتی ہے۔ موٹر۔ سائیکل کی کم از کم قیمت بھی 30000 ہزار سے 40000 ہزار تک ہو جاتی ہے اگر سالانہ ایک ضلع سکھر میں 500 گاڑیاں چوری ہو جائیں تو یہ رقم بھی کروڑوں میں ہوجاتی ہے۔ سندھ کے دیگر اضلاع کی اعداد و شمار الگ ہیں۔ سندھ کے دار الخلافہ کراچی میں ایک سروے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران موٹر۔

سائیکل اور موبائل۔ فون کی ڈکیتی میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے 35 ہزار سے زائد موٹرسائیکل چوری کی گئیں جن کی یومیہ اوسط 129 رہی۔ گزشتہ سال میں موٹرسائیکل چھیننے کی 1500 سے زائد وارداتیں ہوئیں۔ جبکہ 2021 میں اب تک 2900 سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں۔ 2020 میں موٹرسائیکل چھیننے کی یومیہ اوسط 6 تھی اور رواں سال میں اوسط 14 تک پہنچ چکی ہے۔ ایک سال کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے 31 ہزار سے زائد موٹرسائیکل چوری کی گئیں جن کی یومیہ اوسط 130 رہی۔

گزشتہ سال 2020 کے 7 ماہ میں 110 گاڑیاں چھینی گئیں اور 2021 میں 200 سے زائد گاڑیاں چھینی جا چکی ہیں، 2020 کے میں 11 سے زائد گاڑیاں چوری ہوئی اور 2021 میں تقریباً 1200 گاڑیاں چوری ہو چکی ہیں۔ کراچی اور سکھر کے علاوہ حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپور خاص، شہید بینظیر آباد ڈویژن ہیں۔ جن میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وارداتیں ہوئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ پولیس امن امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے اور اس گینگ میں ملوث عناصر اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

تاکہ شہری موٹر۔ سائیکل اور موبائل چوری ڈکیتی کے وارداتوں سے محفوظ ہوں۔ امن امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے پولیس میں بہتری لائی جائے۔ جن تھانوں کی حدود میں وارداتیں ہو رہی ہیں ان تھانوں کے ایس ایچ اوز کو نہ صرف معطل کیا جائے بلکہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں تاکہ پولیس کی رٹ کو چیلنج نہ کیا جائے۔ عوام میں پولیس کا خوف باقی رہے۔ یہ سب تب ممکن ہو گا جب تک پولیس میں سیاسی مداخلت ختم ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments