پاکستان میں میڈیا اقلیتوں کو آخر کیسے پیش کرتا ہے؟
میڈیا کو ریاست کا چوتھا اور ایک اہم ستون تصور کیا جاتا ہے اور اس ستون پر یہ اہم ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ جسے بھی اپنی خبر کی زینت بنائی وہ حقیقت پر مبنی ہو۔
ہم بطور صحافتی طالبعلم یہ پڑھتے آئے ہیں کہ میڈیا کی ذمے داری یکساں رپورٹنگ کرنا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سنا ہے کہ یہی میڈیا اپنے مفاد کی خاطر اپنی رپورٹنگ کے انداز کو فریم بھی کرتا ہے جیسے فریمنگ کہتے ہیں۔ خبروں کو ایسے بیشتر مخصوص زاویوں سے گھمانے کا ہنر محض میڈیا ہاؤسز کے پاس ہی ہے۔
حالیہ دنوں میں اپنی یونیورسٹی کے آخری سال کے دوران ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کا اتفاق ہوا، پہلے تو انتہائی کشمکش میں پڑ گیا کہ موضوع کیا ہو اور پھر خیال آیا کہ کیوں نہ اقلیتوں اور میڈیا کے تعلق پہ کچھ دیکھا جائے۔ خیر کافی محنت اور اپنے اساتذہ کی رہنمائی کے بعد دو مختلف انگریزی اخبارات کی شائع شدہ خبروں کو تنقیدی انداز سے جائزہ لینے کے لیے اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔
ابتداء کے دوران ذہن کے گوشوں میں یہ خوش فہمی تھی کہ میڈیا اقلیتوں کو اچھا، اور ذمے دارنہ طریقے سے پیش کرتا ہو گا لیکن بعد ازاں یہ خوش فہمیاں بھی خاک ہو گئیں۔ دل خون کے آنسو رونے لگا اور روتے روتے ان آنسو بھری نگاہوں نے نہ جانے کتنی ایسی خبریں دیکھی جہاں اقلیتوں کو محض مظلوم اور ایک متنازع گروہ کی شکل میں دکھایا جاتا رہا۔ اعداد و شمار کی طرف بعد میں آتے ہیں، لیکن پہلی اس بات پر بھی کچھ نظر ہو جائے کہ ان تمام شائع شدہ خبروں میں کچھ ہی ایسی خبریں تھیں جو ان کہ تہواروں پر تھیں اور باقی ہر خبر میں کہیں ہندؤ لڑکی کو جبرا مسلمان ہوتے دکھایا گیا، تو کسی مسیحی کے گھر جلنے کی خبر بھی کسی آخری صفحہ پر آویزاں تھی۔ بہرحال مختصراً یہ کے ہر خبر کے زاویے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس ملک میں شاید اقلیتی طبقہ نہ تو پڑھا لکھا ہے اور نہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے کہ جن کو اخبار کی زینت بنایا جائے۔ ہاں البتہ ہر اخبار میں کسی سویپر اور خاکروب جیسی نوکریوں کے لئے اشتہار ضرور آتے تھے۔
شاید اس ملک کا میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہم نہیں سمجھتا۔ خیر اب ذرا اعداد و شمار بھی سن لیں کیونکہ یہاں صورتحال پڑھتے جا اور روتے جا جیسی ہے۔
تین مہینے کے دو انگریزی اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے وہ نہایت حیران کن تھے۔ اس تین مہینوں کی طویل مدت میں محض 26 نیوز رپورٹ کی گئیں جن میں سے محض چند ہی مثبت تھیں۔
بات اگر کی جائے ایڈیٹوریل کی تو وہ بھی انگلیوں پہ گننے کے برابر تھے۔ دو مختلف اخبارات نے مل کر بھی اقلیتی طبقہ کے چھ ایڈیٹوریل شائع کیے جب کے اکثریتی تعداد کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان تمام خبروں میں کہیں بھی کوئی ایسی خبر شامل ہی نہیں جو صفہ اول پہ لگی ہو یا مین لیڈ ہو۔
نہ صرف اعداد و شمار بلکہ جب یہ تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ آخر یہ میڈیا اقلیتوں کے متعلق کون سی خبریں شائع کرتا ہے تو پتا چلا کہ سب سے زیادہ اعداد کرائم اور تشدد کی خبروں کے تھے۔ ثقافت اور اس سے مطابقت رکھتی خبریں تو محض چند ہی تھیں۔
پاکستان میں میڈیا مذہبی اقلیتوں کو مستحکم نہیں بلکہ متنازعہ گروہ، سیاسی مسئلہ اور مظلوم کے طور پر پیش کرتا ہے اس کے باوجود کے یہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور اقلیت سے ہٹ کر بھی کوریج کے مستحق ہیں۔
پاکستان میں سنہ 2017 کی قومی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جس میں 96.47 فیصد مسلمان اور 3.53 مذہبی اقلیتیں ہیں۔
تحقیق میں مانیٹرنگ کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ سب سے زیادہ خبریں ہندو برادری کے لئے تھیں اور دوسرے نمبر پر مسیحی برادری اور تیسرے نمبر پر سکھوں کے بارے میں خبریں تھیں۔ البتہ اس کے علاوہ کسی بھی اقلیتی گروہ کے لئے کوئی خبر نہ تھی۔
خیر صحافتی جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تو اچھا ہے۔ پاکستان کے اندر میڈیا کا یہ رویہ نہیں ہی افسوسناک ہے، اور شاید یہ رویہ ہی معاشرے میں ان اقلیتی کمیونٹی کو مین اسٹریم سے بے دخل کرنے کی اہم وجہ ہے اور پھر ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں۔
- اردو بلاگنگ کا آن لائن کورس - 11/12/2022
- جمہوریت کا انہدام: روزنامہ ڈان کا تاریخی اداریہ - 04/04/2022
- بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بے ضابطگیاں - 03/03/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).