شمع، عروسہ ،نہالہ، چشمہ اور نیک پروین


آٹھویں جماعت میں اے آر خاتون یعنی امت الرحمن خاتون، اور رضیہ خاتون کے تخلیق کردہ ان موٹے موٹے ناولز کو پڑھ ڈالا تھا، ان ناولز کے منفرد عنوان ناولز کی ہیروئینز پر رکھے گئے تھے، اس دور میں یہ رواج تھا، اور خاندان کے نئے پیدا ہونے والے بچوں کے نام ان ناولز کے ہیرو اور ہیروئنز پر رکھے جاتے تھے، منصور، فرخ، عروسہ، نہالہ نام اسی دور کی یادگاریں ہیں، زبیدہ خاتون اور اے آر خاتون کے یہ ناولز گھر میں موجود تھے لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ پڑھنے کی مناہی بھی تھی کہ میٹرک کے بعد پڑھنا، لیکن بچوں کو منع کرو تو بچے وہی کرتے ہیں چاہیں نقصان بھی اٹھائیں، اتنی ضخامت کے ناولز ہاتھوں میں اٹھانے سے ہاتھوں اور کندھوں میں درد شروع ہو گئے تو اس کا حل یہ نکالا گیا، کہ ان کو بستر میں چھپا کر میں اور میری عم زاد پڑھتے تھے۔

حالانکہ ناولز میں ایسی کوئی بات نہ تھی، لیکن دادی کی باتیں دادی ہی جانیں، (حالانکہ دادی اردو، فارسی اور انگلش لکھ پڑھ سکتی تھیں ) چشمہ پڑھنے سے ہم کو چشمے بھی لگ گئے، خیر بستر میں رکھ کر پڑھنے کی یہ ترکیب آج تک کام آ رہی ہے، سکون سے ایک کشن پر موٹی والی کتاب رکھو اور جس مقام پر کتاب بور ہو جائے اس، وقت سو جاؤ، فریش ہو کر پھر پڑھو ( احباب بھی ضخیم کتب پڑھنے کے لئے فدویہ کی یہ ترکیب آزما سکتے ہیں )

بچپن کے دور میں پڑھے گئے یہ ناول یوں یاد آئے کہ جس تہذیبی رچاؤ اور خاندانی رکھ رکھاؤ کے ساتھ یہ ناول تخلیق کیے گئے، ہمارے خاندانی نظام اور رشتوں کی اہمیت کو بیان کیا گیا، وہ کمال فن تھا، اور سب سے خاص بات جو دور جدید میں چند خواتین افسانہ نگاروں کے ”نیک پروین“ افسانے پڑھ کر محسوس ہوئی، وہ یہ ہے کہ اس دور میں ناول تخلیق کرنے والی خواتین نے اپنے ناولز میں ” عورت“ کو بہت مضبوط اور زمانے کے ساتھ چلنے والی دکھایا گیا ہے، کسی بھی ناول میں ہیروئن ” باپردہ“ نہیں دکھائی گئی ہے۔

جن ناولز کے نام لکھے ہیں، ان کے علاوہ بھی بہتیرے ناولز میں نے پڑھے، ننھیالی گھر میں رضیہ بٹ، سلمی کنول، مشرف تمیز کی تخلیقات موجود تھیں، گو کہ سلمی کنول کی کہانیاں اور مظلوم ہیروئن مجھے کچھ خاص پسند نہ آئیں لیکن بہر حال خوبصورت عنوانات والے سارے ناولز ہم لڑکیوں نے پڑھ ڈالے تھے کیونکہ اس وقت سیل فون کی علت موجود نہ تھی، جب ہم یونیورسٹی پہنچے تو سیل فون عام ہونا شروع ہوا، پھر اس کے بعد ناولز کی روشنی نہ رہی۔

یہ بھی ایک تہذیبی روایت تھی کہ جس گھر میں لڑکیاں اکثریت میں تھیں، وہاں رسائل و جرائد کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ گویا ہماری اقدار میں لڑکیوں کی تعلیم مسئلہ نہ تھا، بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ادب و فنون کی تربیت بھی کی جاتی تھی، لیکن نہ جانے پچھلے چالیس پچاس برس میں یہ علت کہاں سے پیدا ہو گئی ہے، کہ خواتین کو ایک خاص مخلوق بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے، جب کہ ماضی کی تہذیبی و ادبی روایات کچھ اور بیان کرتی نظر آتی ہیں، کیا یہ سب ترقی پسند تحریکوں کے باعث ہوا یا شماریات و سماجیات کے بدلتے تقاضوں کے باعث ہوا؟

اس سوال کا جواب ہم کو بہ آسانی سوشل میڈیا کے سماجی آئینے میں نظر آتا ہے اور بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔

سب سے پہلا نقطہ منافقت ہے جس کو دینی زبان میں ریاکاری کہا جاتا ہے، یہ دکھاوا اور بناوٹ مرد و خواتین دونوں صنفوں میں بہ درجہ اتم نظر آتی ہے، اور لوگ بہ آسانی یہ فریضہ خوشی خوشی انجام دے رہے ہیں، اللہ کے بجائے اللہ کے بندوں کے سامنے خود کو نیک نام اور پرہیزگار ثابت کرنے کے لئے لوگ ہر حد سے گزرتے جا رہے ہیں۔

دوسرا پہلو معاشی ہے، ملکی حالات کے پیش نظر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں کے افراد نے معاش کی خاطر بڑے شہروں کا رخ کیا، شہروں میں سکونت کے بعد ستم ظریف کہنے لگے کہ یہاں تو عورتوں بے پردہ پھرتیں ہیں، عورتیں آزاد ہیں، اسلام نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پردے کا حکم اپنے علاقے و گاؤں میں یاد نہیں آتا، جہاں خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں، تندور پر روٹی پکاتی ہیں، چکی پر آٹا پیستی ہیں، اور برا وقت پڑنے پر وڈیروں اور جاگیرداروں، نام نہاد جعلی عاملوں اور پیروں، کے سامنے پیش کر دی جاتی ہیں، ونی، کاری اور غگ کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔

اس وقت اسلام نہ جانے کہاں ہوتا ہے، اسلام زندہ ہوتا ہے تو صرف ”شہری باجی“ کو دیکھ کر، اس کے لباس کر دیکھ کر۔

تیسرا پہلو پڑوس میں ہونے والی جنگ ہے، گہرائی سے تجزیہ کرنے پر احساس ہوا کہ جب ایک گروہ یا فوج کسی دوسرے گروہ یا قوم کی سر زمین پر زبردستی قابض ہو جائے، تو مقبوضہ قوم کی ذہنی سطح صرف اور صرف خود کو اور اپنے مذہبی عقائد کو محفوظ رکھنے تک محدود ہو جاتی ہے، اور جنگ جو کہ خود ایک انسانی المیہ ہے، اس کے نتائج بھی بھیانک انسانی المیوں پر منتج ہوتے ہیں، پڑوس میں پچھلی چار دہائیوں سے انسانی المیے رونما ہو رہے ہیں، ہجرت، بھوک، افلاس، موت، جدائی، نے انسانی ذہنوں کو مغلوب و محکوم کر دیا ہے۔

پڑوس میں تو یہ مغلوبیت جنگی المیے کے بعد آئی لیکن ایسی مغلوب و مجبور اور بے بس ذہنیت ہمارے یہاں کیوں در آئی ہے، شاید اس لیے کہ ملک کے دور دراز حصوں میں جو پدر شاہی نظام رائج ہے وہی ان علاقوں کے افراد جو حصول معاش کی خاطر شہروں میں آئے ساتھ اپنا نظام بھی لے آئے۔

پڑوسی بھی ہجرت کے ساتھ اپنی سماجی روایات لے آئے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا، ریاستی پالیسیوں اور ابلاغی ذرائع نے پوری کر دی ہے۔

مذہب چونکہ حساس معاملہ ہے، عقائد کے ساتھ جذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں اس لیے اوسط ذہن افراد کو بہ آسانی مذہب کے نام پر بے وقوف بنا لیا جاتا ہے اور بنایا جا رہا ہے۔

مذہب و دین چند افراد کے اخذ کردہ نکات پر نہیں ہوتا ہے، ہمارا مذہب تو خاص طور سے اجتماعیت کی طرف توجہ دلاتا ہے لیکن ہم مذہب و ریاست دونوں کو چند افراد کی بنائی پالیسیوں پر محدود کر دیتے ہیں۔

یہ کام گزشتہ چند برسوں میں اتنی شدت سے ہوا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد کی بھی یہی ذہن سازی ہو گئی ہے کہ سماج میں عورت ایک دوسرے درجے کی شہری ہے اور وہ لباس بھی دوسرے فرد کی مرضی کا پہنے گی، عورت شادی بھی خاندان والوں کی مرضی سے کرے گی۔

اور اگر اس کی شادی نہ ہوئی تو وہ ناکارہ بھی تصور کی جائے گی۔

یہ تصور کچھ اس طور سے راسخ ہو گیا ہے کہ ادبی محافل اور سوشل میڈیا کے فورمز پر ایسے افسانے اور کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں، جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عورت بذات خود معتبر نہیں ہے، بلکہ اسے عمر کے ہر دور میں مرد کے سہارے کی ضرورت ہے، اور بد قسمتی سے ایسی کہانیاں وہی خواتین لکھ رہی ہیں جنہوں نے اپنے نازک شانوں پر پدر شاہی نظام اٹھا رکھا ہے، وہ جبریت کی قائل ہیں، اس کے لئے وہ مذہب کا نام بھی استعمال کرتی ہیں، اور سوشل میڈیا پر مقبول بیانیے کا سہارا لے کر اپنے تئیں ملک و قوم کی خدمت کر رہی ہیں۔ اب وہ فیصلہ کن وقت ہے کہ خود عورت کو اپنی ذہنی سطح بلند کرنی ہو گی۔

دوسروں کے سامنے خود کو اور اپنے افسانے یا کہانی کی ہیروئن کو ”نیک پروین“ بنا کر ایک کہانی کار کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ یہی کہ صرف وہ نیک ہے، باقی سب عورتیں بدکردار و بے حیا ہیں؟

جب ایک خاتون افسانے میں عورت کی جنسی خواہش کا ذکر کرے، تو اس کو بولڈ کہا جاتا ہے اور جب ایک خاتون اپنے افسانے میں اپنی کردار کو شادی نہ ہونے پر روتے ہوئے دکھائے تو اس کو شریف و مظلوم کہا جاتا ہے اس پر ترس کھایا جاتا ہے، حالانکہ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے۔ دونوں ہی اپنی جنسی خواہش پوری کرنا چاہتی ہیں اور دونوں کو مرد نامی مخلوق نہیں دستیاب ہو رہی۔ ہائے بے چاریاں، نمانیاں ترستی ہوئی عورتیں۔ اصل میں ہمارے سماجی نظام میں ایسی ہی عورتیں پسند کی جاتی ہیں۔ روتی دھوتی، ترستی ہوئی۔ ڈراموں میں بھی عورت رو رہی ہے۔

دور حاضر میں جنس ثانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی رہی ہے، وبائی صورتحال کے بعد دنیا بھر میں معاشی بحران پیدا ہو چکا ہے، دلدوز کہانیاں جنم لے رہی ہیں، عالمی مضامین، اور کہانیاں پڑھیے، سوچیئے کہ ہم۔ کہاں کھڑے ہیں، ہمارا مستقبل کیا ہو گا، اور اگر اپنے تئیں ہم خود کو ذمہ دار قلم۔ کار سمجھتے ہیں تو آنے والی نسل کو اپنی کہانی کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، یہ سوچنا ہو گا۔

پدر شاہی کو تھپکیاں دیتی کہانیاں اور خواتین کے خلاف ریاستی جبری قوانین کی حمایت دراصل عوامی طاقت کو کم کرنا اور لاقانونیت کو فروغ دینا ہے۔ دین کے مطابق عورت بطور انسان قابل احترام ہے، عورت مال غنیمت نہیں ہے۔ جس پر سماج کا ہر فرد اپنی مرضی چلائے، نہ ہی ابلاغی نمائندوں کا کام یہ ہے کہ وہ خواتین کو ڈریس کوڈ کی ہدایات دیں۔

ذرا پڑھ لیجیے گزرے زمانے کی خواتین قلم کاروں کی کہانیاں تاکہ سوچ و شعور کے نئے در وا ہوں، کیونکہ جس وقت وہ خواتین لکھ رہی تھیں، اس وقت سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، انہوں نے ان تبدیلیوں کو اپنی روایات و اقدار کے مطابق ڈھال لیا، ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں بشرطیکہ خلوص ہو، ایک دوسرے کو رد کرنے کی خواہش نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments