کیا آپ زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیوں سے محظوظ و مسحور ہوتے ہیں؟


میں اپنی زندگی میں بہت سے ایسے مردوں اور عورتوں سے مل چکا ہوں جو ہمیشہ دکھی رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے دکھی رہنا ان کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ ان سے مل کر مجھے احمد فراز کا شعر یاد آتا ہے

؎ رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے
ورنہ اتنا ہمیں ملال نہیں

ایسے لوگوں کے دوست اور رشتہ دار ان کی دکھی باتیں سن سن کر تھک جاتے ہیں اور بعض انہیں چھوڑ بھی جاتے ہیں اور وہ زندگی میں تنہا رہ جاتے ہیں۔

ایک وہ زمانہ تھا جب میں بھی دکھی رہتا تھا پھر میں نے زندگی کا یہ راز جانا کہ ہم سب اپنے دکھوں کو سکھوں میں بدل سکتے ہیں اور ایک سکھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں نے یہ جانا کہ خوشی میرا حق ہے کسی کی خیرات نہیں۔ یہ جاننے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لانی شروع کیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہونا سیکھا

سیر کے لیے جانے کی خوشی
آئس کریم اور آم کھانے کی خوشی
دوستوں کے ساتھ ڈنر پر جانے کی خوشی
پھر چھوٹی چھوٹی خوشیاں بڑی بڑی خوشیاں بننے لگیں
غالب کا شعر سمجھنے کی خوشی
؎ شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
پھر شعر کہنے کی خوشی

؎ میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں
اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں

پھر میں زندگی کے راز جاننے کی خوشی سے متعارف ہوا۔ یہ میرے لیے بڑی خوشی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر ایک طالب علم چھپا بیٹھا ہے جو علم اور دانائی کی باتیں جان کر خوش ہوتا ہے اور پھر یہ جانا کہ اس طالب علم کا ایک ہمزاد بھی ہے جو استاد ہے جو علم اور دانائی کی باتیں سمجھنے کے بعد انہیں عام فہم زبان میں دوسروں کو سمجھانا بھی جانتا ہے۔ میں نے جانا کہ دوسروں کو سکھانے سے انسان خود بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔

مجھے زمانہ طالب علمی کا وہ دور یاد ہے جب میں نے میڈیکل کالج کے پہلے سال میں ایمبریولوجی کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ ڈارون کے نظریے کے مطابق امیبا سے انسان بننے کا جو لاکھوں برس کا سفر ہے وہ انسانی بچہ ماں کی کوکھ میں چند ماہ میں طے کرتا ہے۔ یہ اس نظریے کا ایسا ثبوت ہے جسے کوئی بھی انسان ماں کی کوکھ کے بچے کا الٹرا ساؤنڈ لے کر دیکھ سکتا ہے۔

مجھے جب کسی نئے دانشور کی نئی کتاب ملتی ہے تو میں ایک بچے کی طرح خوش ہو جاتا ہوں اور اسے پڑھتے پڑھتے ایک ٹرانس میں ایک تخلیقی حال میں آ جاتا ہوں۔ ان دنوں میں مارک سومز کی کتاب

THE HIDDEN SPRING…A JOURNEY TO THE SOURCE OF CONSCIOUSNESS

اس کتاب میں مارک سومز نے انسانی جسم۔ دماغ۔ ذہن۔ خواب۔ شعور۔ لاشعور کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی دانشوروں کی طرح ان کا لہجہ اور زبان بھی گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ اس لیے اسے پوری طرح سمجھنے کے لیے مجھے اسے دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنا پڑے گا اور پھر اسے اپنے دوستوں کے لیے عام فہم زبان میں لکھنا پڑے گا۔ ایسا کرنے لیے بہت سی محنت بہت سی مشقت اور بہت سی ریاضت کی ضرورت ہے لیکن میں اس محنت ریاضت اور مشقت سے محظوظ و مسحور ہوتا ہوں۔

مجھے ایسا کرنے کی خوشی ہوتی ہے اور یہ خوشی آئس کریم یا آم کھانے کی خوشی سے کہیں بڑی خوشی ہے کیونکہ یہ خوشی زیادہ مسرت بخش ہے کیونکہ اس مسرت سے میری علم اور دانائی سے محبت وابستہ ہے۔ اس محبت میں میرا ذوق بھی شامل ہے اور میرا شوق بھی۔ اس میں میری خواہش بھی شامل ہے اور میرا جذبہ بھی۔ اس سے میرا ایک بہتر انسان بننے کا آدرش بھی وابستہ ہے اور ایک پر امن معاشرہ تخلیق کرنا کا خواب بھی۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ
آپ اتنے دکھی کیوں رہتے ہیں؟
آپ اپنے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدل سکتے ہیں؟

میں نے سکھی رہنے کا ایک راز یہ جانا ہے کہ وہ لوگ جو کسی آرزو ’کسی تمنا‘ کسی خواب اور کسی آدرش کے ساتھ جڑ جاتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔

دوسروں کو خوش رکھنے سے انسان خود بھی خوش رہتا ہے۔
میں مذہبی انسان نہیں لیکن اپنے مریضوں کی خدمت کو اپنی سیکولر عبادت سمجھنا مجھے بہت خوش رکھتا ہے۔

دوسرے انسانوں کی خدمت کرنا ایک احسن جذبہ ہے۔ اس کے لیے سائنس اور نفسیات میں ایم اے کی ڈگری کی بھی ضرورت نہیں صرف ہمدرد دل اور خدمت خلق کے جذبے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments