ہمارا معاشرہ اور ہماری عدالتیں


آج سے 19 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ وجیہہ عروج نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈیپارٹمنٹ پہنچیں ‏تاکہ معاملہ حل کر سکیں وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔ یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔

‏وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں

کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے کردار کے بارے ‏میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔ وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل ‏شدہ پرچہ پیش کر دیا لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھا۔

وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ یہ قانونی جنگ 17 سال چلتی رہی گزشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا وجیہہ نے اس ایک ‏جملے کا وزن 17 سال تک اٹھایا وہ تو جی دار تھیں معاملہ عدالت تک لے گئیں ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں ہم میں سے ہر کوئی عدالت کے چکر کاٹتا پھرے اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحت دیتا پھرے۔

‏یہاں ایک طرف ہمارے کالج یونیورسٹیوں کی حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہیں عدلیہ کی کارکردگی اور اس کی ترجیحات بھی سامنے آتی ہیں جہاں کیس لڑنے کا مطلب خود اپنے آپ سے دشمنی کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments