شرم مگر آتی نہیں


گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں کراچی کے مسائل کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دفعہ بھی کراچی کے عوام کی امیدوں کے عین مطابق چیف جسٹس صاحب نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا سندھ حکومت کو ہر سال اربوں ملتے ہیں، پھر بھی پیسے نہیں، شرم آنی چاہیے، سب پیسے بنانے میں لگے ہوئے ہیں، پورا کراچی کچرے سے بھرا ہوا ہے، غیر قانونی قبضے، سڑکیں بدحال، کراچی میں اب کچھ باقی نہیں ہے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ سندھ حکومت کے پاس بجٹ کی کمی ہے، 10 ارب روپے اگر سپریم کورٹ ریلیز کر دے تو ہم کام شروع کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مطلب آپ کی گورنمنٹ کے پاس پیسے نہیں تو گورنمنٹ فنکشنل نہیں، عوام کے لیے پیسے نہیں، باقی سارے امور چلا رہے ہیں، وزرا اور باقی سب کے لیے فنڈز ہیں۔ پورا کراچی گند سے بھرا ہوا ہے، کیا یہ کراچی شہر ہے؟ ، یہ تو گاربج دکھائی دیتا ہے، کوئی دیکھنے والا نہیں، حکمران طبقے کو اس شہر کی کوئی پروا نہیں، گٹر ابل رہے ہیں، تھوڑی سی بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے۔

کیا شہر اس طرح چلایا جاتا ہے؟ ایک انچ کا بھی کام نہیں ہوا کراچی میں، یہ ہے سندھ حکومت، کہتے ہیں پیسے نہیں۔ کھربوں روپے کی باہر سے مدد آتی ہے، کیا کرتے ہیں، کچھ پتا نہیں؟ ، غیر قانونی قبضے، سڑکیں بدحال، کچھ نہیں ہے کراچی میں۔ ”شیم آن سندھ حکومت“ ۔ معذرت کے ساتھ اے جی صاحب، یہ کوئی طریقہ نہیں جس بلڈنگ کو دیکھو اس کا برا حال ہے، سڑکیں ٹوٹیں، بچے مریں، کچھ بھی ہو، یہ کچھ نہیں کرنے والے، یہی حال سندھ حکومت کا اور یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں، اگر لوگوں کو سروس نہیں دے سکتے تو کیا فائدہ۔ سندھ حکومت کہتی ہے ہمارے پاس بحالی کے پیسے نہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے جب گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آ جاتے ہیں، اگر زلزلہ، سیلاب آ جائے تو پھر کیا کریں گے، اگر کوئی آفت آ جائے تو کیا ایک سال تک بجٹ کا انتظار کریں گے۔

معزز جج صاحبان کے اتنے سخت ریمارکس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ سندھ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ اب تو خیر سے پیپلز پارٹی نے اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق کراچی پر اپنا خود کا منظور نظر سیاسی ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیا ہے۔ اور موصوف بیرسٹر مرتضیٰ وہاب فرماتے ہیں کہ کراچی میں 40 سال کا بگاڑ ہے، فوری مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ شاید انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ان 40 سالوں میں سے گزشتہ 13 سالوں سے لگاتار ان ہی کی پارٹی صوبے پر براجمان ہے، اور دارالحکومت ہونے کے ناتے کراچی کی ترقی کی وہی ضامن ہے۔ جس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اگر مسلسل 13 سال بھی ان کے لئے کم ہیں تو کیا نوح علیہ السلام جتنی عمر درکار ہوگی کراچی کا حسن بحال کرنے میں؟

باتیں اور دعوے کرنا کوئی بڑی بات نہیں، یہ کام تو گلی کے نکڑ پر بنے چبوترے پر اکٹھے بیٹھے چار بزرگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ بات عمل کرنے کی ہے جس کی موجودہ نمائندوں میں نہ اہلیت ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ ایم کیو ایم کے بعد کراچی کی عوام نے عمران خان کو آزمایا مگر وہ بھی چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے تو ویسے ہی کراچی کو لاوارث چھوڑا ہوا ہے۔ عمران خان نے یہاں سے نشست جیتی، صدر مملکت، وفاقی وزراء اور گورنر سندھ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں مگر پھر بھی کراچی لاوارث شہر کی طرح بے یار و مددگار اپنی بدقسمتی پر رو رہا ہے۔

یہی وہ کراچی ہے جس کا حسن دیکھنے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ جہاں راتیں بھی جاگتی تھیں۔ روشنیوں کا شہر تھا۔ پورے ملک سے ذریعہ معاش کے لئے لوگوں کا واحد ٹھکانک کراچی ہوا کرتا تھا، جو ایک شفیق ماں کی طرح سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ہائیڈرینٹ مافیا، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، حرام خوری، پیٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اور کراچی کو تباہ کرنے کی رہی سہی کسر بلڈنگ مافیا نے پوری کردی ہے۔ جس میں سیاسی کارکنان اور سرکاری افسران و اہلکاروں نے مافیا کے ساتھ مل کر خوب بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے۔ لیکن سارا نزلہ غریب کے آشیانے پر ہی گرا۔

”کراچی ٹرانسفارمیشن پلان“ سے کچھ امید ہو چلی تھی، کہ کچھ درد کا مداوا ہو سکے گا، مگر وہ بھی دم توڑ چکی ہے۔ ”کراچی ٹرانسفارمیشن پلان“ بھی ڈھول کی طرح دونوں طرف سے بج رہا ہے، مگر فائدہ کچھ نہیں۔

میں پچھلی دفعہ جب لاہور گیا تھا تو وہاں کا منظر کچھ اور تھا، اس دفعہ لاہور گیا تو حالات تبدیل تھے اور مجھے یقین ہے کہ اگر دو سال بعد جاؤں گا تو منظر کراچی سے مختلف نہیں ہو گا۔ اسلام آباد بھی جانا ہوا، وہاں کی دلکشی ہمیشہ ہی دل میں گھر کر جاتی ہے، مگر اس دفعہ کچھ دل میں کسک بھی اٹھی۔ جس گھر سے اس کی رونق بحال ہے، وہ فاقے کا شکار ہو تو ٹھیس تو پہنچے گی۔ اسلام آباد دارالحکومت ہے، پاکستان کا چہرہ ہے، اسے جس طرح پرکشش ہونا چاہیے وہ ہے، مگر ارباب اختیار و اقتدار کو کچھ نظر کرم اس گھر پر بھی ڈالنی چاہیے۔ جس کے رہائشیوں کے ٹیکس کے پیسوں سے پورا پاکستان پلتا ہے، اور اسی کے شہریوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ لاہور تو اس معاملے میں مشہور ہے کہ وہ کراچی والوں کو خوب لوٹتے ہیں۔ اسلام آباد بھی کچھ کم نہیں ہے۔

آج جو پاکستان کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ تحریک پاکستان میں آپ کا کیا کردار تھا، تو اگر غیرت ہوگی تو سر شرم سے ضرور جھک جائیں گے۔ پنجاب اور پختونخوا میں تو مسلم لیگ کو قدم جمانے ہی نہیں دیے گئے، وہاں تو کانگریسی اور کمیونسٹ پرچم لہرایا جاتا تھا۔ سندھ اور بلوچستان نے اپنی اپنی حیثیت میں کردار ادا کیا۔ مگر سب سے زیادہ کردار بنگال، بہار، یوپی اور سی پی نے ادا کیا۔ مگر انہیں آزادی کی کرنیں دیکھنا نصیب نہ ہوئیں۔ بنگال کے ساتھ جو ہماری اشرافیہ نے کیا اس کا خمیازہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہمیں دیکھنا نصیب ہوا۔

منظر نامہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، ایک سا کبھی نہیں رہتا۔ جب زیر دست اکٹھے ہو جاتے ہیں تو زبردست پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔ ارباب اختیار و اقتدار کو اس دن سے ڈرنا چاہیے جب ظلم اور محرومی کی چکی میں پسے لوگ اکٹھے ہوجائیں گے تو اس طوفان کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ کراچی کو ڈھاکہ بننے سے روکا جائے۔ جن بنگالیوں نے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا، ان کے ساتھ ہماری اشرافیہ نے کیا کیا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ کراچی کے ساتھ بھی وہی کچھ دوہرایا جا رہا ہے۔ کراچی بھی بانیان پاکستان کی اولادوں کا شہر ہے۔ اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ کب تک برداشت ہو گا، یہ کہنا قبل از بعید ہے۔

سقوط ڈھاکہ سے اگر سبق حاصل نہ کیا گیا تو میرے منہ میں خاک، پاکستان کو پالنے والا کراچی کہاں کھڑا ہو گا؟ اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments