برگد


آپ نے کبھی بوڑھے برگد کو غور سے دیکھا ہے؟ سرد و گرم موسموں میں چپ چاپ کھڑا صابر، شاکر، گھنا چھتنار برگد! جو منہ سے کبھی کچھ نہیں بولتا لیکن سفر کی کلفتوں سے تھکے، پژمردہ، پریشاں مسافروں کو اپنی پناہ اور چھاؤں دیتا ہے، انھیں موسموں کی حدت سے محفوظ رکھتا ہے اور علم، آگہی اور نروان کا دھیما دھیما درس دیتا ہے۔ وہ جس کی ریش دراز جب زمین کو چھوتی ہے تو اپنے جیسے کئی برگد بنا دیتی ہے، پھر ان کی انگلی تھام کر انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتی ہے، ان کی پرورش اور نگہداشت کرتی ہے اور جب وہ پنپ جائیں تو انھیں اپنے سب گن منتقل کر دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک چھتنار برگد جیسا حوالہ میرے لیے عمر خاں صاحب کا ہے۔

ابو کی صورت اپنی بہت قیمتی ہستی کھونے کے بعد یہ سمجھ آیا کہ وقت کے بڑے سے بہاؤ میں ایک مختصر مدت کی زندگی، بہت کچھ کہنے کو کافی نہیں ہوتی۔ انسیت، خلوص، عقیدت اور احترام کا ہر وہ احساس جو کسی برگد جیسے چھتنار درخت کو دیکھ کر دل میں ابھرے، اس کا بروقت اظہار اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مخلصی کی اس نعمت کا اعتراف کیا جا سکے جو زندگی اپنے چنیدہ لوگوں کو ہی عطا کرتی ہے۔

سال 2011 میرے لیے کئی حوالوں سے اہم تھا۔ وہاڑی جیسے دور دراز علاقے سے واپس اپنے شہر میں پوسٹنگ ہوجانا ایک دشوار، لیکن خوشگوار امر تھا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے شعبہ اردو میں دیگر اساتذہ کے ساتھ جن سے تعارف ہوا وہ عمر خاں صاحب تھے، جو صدر شعبہ پروفیسر یحییٰ صاحب اور پروفیسر طارق ودود کے بعد تیسرے نمبر پر سینئر تھے۔ سرمئی بالوں والے، دبلے پتلے، نازک سی عینک لگائے، ہلکے رنگ کے لباس میں ملبوس، نفیس، متین، وضع دار، حلیم اور نہایت کم گو شخص! جن کے سامنے اردو لغت کی موٹی موٹی کتب بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔ شعبے میں آنے والے نو واردان سے وہ کم کم ہی کلام کرتے، زیادہ تر دیگر اساتذہ کی باتوں کی تائید میں سر ہلاتے رہتے۔

یہ کالج جو اپنی عمارت اور سبزے کی خوبصورتی میں آج بھی مثالی ہے، تب بھی ایسا ہی شاداب ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھار وہ کالج کے کسی لان میں اپنی کلاس کو بٹھائے نظر آتے۔ ان کے ارد گرد شاگرد ہی نہیں اساتذہ بھی منڈلاتے نظر آتے، کسی کو لغت میں کہیں دقت ہے، کسی لفظ کا درست تلفظ اور املا کیا ہے؟ لفظ کا ماخذ کہاں سے اور کیسے ڈھونڈا جائے؟ ہندی الاصل اور عربی الاصل الفاظ میں تفریق کیسے کریں؟ پرچوں کی جانچ کا درست طریقہ کار کیا ہو گا؟ یوں نصابی سوالات سے لے کر زندگی کے اہم اور بنیادی فیصلوں کے حوالے سے ہر وہ مرحلہ، جو کسی کے لیے کبھی بھی دشوار ہوتا، وہ عمر صاحب کے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور ان کے سامنے اپنا مدعا کسی عقدے کی مانند رکھ دیتا۔ وہ اپنی نفیس سے سنہری عینک اتارتے، اس کے محدب عدسوں کو فلالین کے رومال سے آرام آرام سے صاف کرتے ہوئے بات کرتے جاتے اور عقدے کی گرہ کھلتی جاتی۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے وہ ایسی مخلصی سے مشورہ عنایت کرتے کہ آنے والے کی تسلی و تشفی ہو جاتی۔

اکثر و بیشتر یوں بھی ہوتا کہ ان کا اپنا کام بڑھ جاتا۔ اپنی طبیعت کی انکساری کے سبب وہ اکثر لوگوں کا کام مروت میں اپنے سر لے لیتے اور پھر اسی مروت کو نبھاتے نبھاتے مشکل میں گھر جاتے۔ پر جو بات ایک بار کہہ دی اب اس سے صرف نظر نہ ان کے مزاج میں تھا، نہ ان کے اصولوں میں۔ ان کی طبیعت کی اسی عاجزی کو بسا اوقات لوگ بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اپنے کئی کام ان کے سر منڈ جاتے اور وہ جانتے بوجھتے بھی کسی برگد کی مانند پر سکون رہتے کہ ان کا کام تو آسانیاں بانٹنا تھا۔

نشیب و فراز انسان کی زندگی کا حصہ ہیں، ان کی زندگی میں بھی کئی ایسے مواقع آئے جہاں انسان کے کھرے، سچے اور پر عزم و باہمت ہونے کی حقیقی پرکھ ہوتی ہے۔ وہ ہر امتحان سے توکل علی اللہ کے بل پر یوں نکل گئے جیسے یہ مشکل تو کچھ بھی نہیں۔ ہم نے انھیں ہمیشہ ایک ٹھنڈے میٹھے چشمے کی مانند دیکھا، جس کا کام جوئندگان علم کی تشفی کرنا تھا، جسے اس بات سے قطعی غرض نہ تھی کہ اس آب رواں سے مستفید ہونے والا کس مسلک، مذہب، فرقے یا طبقے کا فرد ہے۔ ان کے علم کا حقیقی فیض سب کے لیے جاری و عام تھا۔

لیکچرر شپ کے بعد ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی میں داخلے کی مشاورت میں نے سب سے پہلے ان سے کی۔ اپنے ساتھیوں کی ہر مثبت کام میں حوصلہ افزائی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، انھوں نے اس کاوش میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی دریا دلی اپنے پرائے کی تخصیص کے بغیر سب کے لیے مساوی تھی۔ ہم نے کبھی ان کے منہ سے کسی کے خلاف کوئی بات، گلہ، شکوہ یا شکایت نہ سنی، سچ تو یہ ہے کہ انھیں نہ تو کسی کی نفی کرنا آتی تھی نہ کوئی منفی بات، وہ تو سر تا پا صبر، شکر، خلوص، عجز اور انکساری کا پیکر تھے۔ ایک مثبت اور روشن خیال شخص، جسے اپنے سے بڑوں کو ہی نہیں اپنے سے چھوٹوں کو بھی احترام دینا آتا تھا۔ ہمارے درمیان وہ تسبیح کے اس امام کی مانند تھے، جس نے شعبے کے سب ساتھیوں کو ایک ڈوری میں منظم رکھا ہوا تھا۔ شعبے کے چھوٹے بڑے داخلی و خارجی مسائل کو وہ سب کی صلاح اور مشورے سے یوں حل کر لیتے کہ کہیں کسی کو کوئی گلہ نہ رہتا۔

پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہم منصب ساتھیوں سے حسد، جلن اور رقابت کی و باہر ادارے میں عام ہے، یہی نہیں بلکہ بعض اصحاب علم کا اپنے فرض کی ادائیگی میں تساہل برتنا، تفویض کردہ کام وقت پر نہ کرنا، اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے سر ڈالنا، یا اپنے ہی کسی ساتھی کی مدد سے گھبرانا یا کترانا ایک عام سی بات ہے، مگر آفرین ہے اس مرد خدا پر جو ہر ساتھی کی مدد کے لیے بلا تامل خود کو حاضر کر دیتے، کوئی مشکل میں ہو تو اس کی دلجوئی اور تسلی کے لیے ہر ممکن آسانی فراہم کرنے کی کوشش کرتے، پھر چاہے خود کیسے ہی خسارے میں اتر جائیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمیشہ اپنے احسانات کا پردہ رکھتے۔ ان کے ایک ہاتھ کی نیکی کی خبر دوسرے کو کبھی نہ ہوتی۔ ضرورت مند طالب علموں کی مدد بھی اپنی جیب سے یوں خاموشی سے کرتے کہ کسی کو ہوا نہ لگتی۔

مطالعے کی عادت ان کی زندگی کا سب اہم اور بنیادی جزو رہی۔ جب بھی کسی کتاب کا مطالعہ کرتے، اس کو نہایت باریک بینی سے پڑھتے۔ املا اور کمپوزنگ کی اغلاط انھیں سب سے زیادہ چبھتیں، جنھیں وہ وہیں صفحے کے ایک جانب کچی پینسل سے لکھتے جاتے۔ عام ادب کے طالب علموں کی ذوق طبع کے برعکس لغت نویسی جیسا دقیق میدان، ان کی دلچسپی، مطالعے اور تحقیق کا بنیادی مرکز رہا۔ جس پر وہ سال ہا سال کام کرتے رہے۔ حال ہی میں شمس الرحمٰن فاروقی کی ’لغات روز مرہ‘ کا انھوں نے بڑی جامعیت سے تحقیقی و لسانی جائزہ ایک کتاب کی صورت پیش کیا۔ اس کتاب میں فاروقی صاحب جیسے اہم ادبی ناقد کی املا کے حوالے سے کچھ لفظوں پر نہ صرف گرفت کی گئی ہے بلکہ ان کے متوازی یا مترادف الفاظ کا بھی بڑی سہولت سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اردو تحقیق، تنقید اور لغت کے شائقین کے لیے یہ کتاب کسی علمی نعمت سے کم نہیں۔

اس کتاب کو تحفتاً دیتے ہوئے جب ان کے قریب بیٹھے ساتھی، رفیق صاحب نے ان کی عنقریب ریٹائرمنٹ کی اطلاع دی تو دل اچانک دکھی اور افسردہ ہو گیا کہ زندگی میں اچھے لوگوں کا دم بھی کیسی نعمت اور غنیمت ہے۔ دکھ صرف ان کے اس ادارے سے جانے کا ہے، وگرنہ ادب کا کوئی بھی طالب علم کب ریٹائر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا اصل سفر تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے، جب فرصت کی انگلی تھامے وہ اپنی من پسند کتب اور مشاغل کو از سر نو جاری رکھ سکے۔

زندگی کے سبک رفتار دریا کو، ایسی تندہی سے بہتے دیکھ کر میں اکثر سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ انسان کی اس عارضی و فانی زندگی کا حاصل کیا ہے؟ اس کی تقسیم کردہ محبتیں، آسانیاں اور دوسروں کو دیے گئے خلوص و تکریم کے وہ جذبات، جو زندگی کے اگلے ہی موڑ پر، کسی نعمت گراں مایہ کی صورت اسے لوٹ کر واپس مل جائیں اور ہدایت و بشارت کے روشن جگنوؤں کی مانند، اس کا ہاتھ پکڑیں اور زندگی کی تیرہ و تاریک پل صراط کو عبور کرا لے جائیں۔

لیکن عمر صاحب نے کمال مہارت و مشقت سے، دانستہ اپنے لیے اس بوڑھے برگد کے وجود کا انتخاب کیا، جو مجید امجد کی نظم کے کسی نخل بلند کی صورت، ہر صلے و ستائش کی تمنا سے ماورا، زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے مسافروں کی راہ دشوار کو سہل کرنے کے لیے، خود کو زمانے کے سرد و گرم کے سپرد کر دیتا ہے۔ جس کی چھاؤں گھنی لیکن شاخیں عاجزی سے جھکی ہوتی ہیں۔ یوں جیسے مجید امجد نے لکھا ہے :

آگے ڈھلوانوں کے پار، اک تیز موڑ اور اس جگہ
جھک پڑا ہے آ کے رستے پر کوئی نخل بلند
تھام کر جس کو گزر جاتے ہیں آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے ڈگمگاتے راہروؤں کے قافلے
ایک بوسیدہ، خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں
آہ! ان گردن فراذان جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنھیں حاصل نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments