رب کا ساتھ


دیار غیر کے تپتے صحراؤں میں کہیں گھومتے گھامتے باہر کے لوئی تھپیڑوں سے بچنے کے لئے گاڑی کے اندر پناہ لے رکھی تھی کہ فون کی سکرین روشن ہوئی۔ ایک صاحب کا نام مدت بعد موبائل سکرین پہ ابھرا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ ہم تو فرصت کے مارے تھے ہی ’انہیں بھی شاید وقت میسر تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے خوب روشنی ڈالی کہ آج کے انسان کو کیسے بے جا پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے اور اس پہ زباں بندی اور حرف شکایت نہ بلند کرنے جیسی اضافی پابندی بھی ہے۔ کچھ ایسی ہی اور باتیں بھی تھیں۔ انہی باتوں میں ایک بات الجھ گئی۔

بات کو سلجھانا اور سمجھانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ سامنے والے کی علمیت ’ذہنیت‘ جذبیت اور حکمت بھی مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ گتھی تو خیر کیا سلجھانی تھی ’صرف بات کا ایک سرا ان کے ہاتھ پکڑانا مقصود تھا کہ باقی ڈور وہ سنبھال لیں گے۔ سرا ڈھونڈنے کے لئے ایک کسان کی مثال ترتیب دینا پڑی کہ کس محنت اور جانفشانی سے وہ زمین تیار کرتا ہے‘ ہل چلاتا ہے ’وتر کرتا ہے‘ بیج ڈالتا ہے ’بیج کی راکھی کرتا ہے‘ اضافی جڑی بوٹیوں کی کانٹی چھانٹی کرتا ہے ’پانی کا انتظام کرتا ہے‘ پھر کہیں چھ مہینے بعد اسے اچھی فصل کی نوید سننے کو ملتی ہے۔

یہ اچھی فصل محض کسان کے زور بازو کا کمال نہیں ہے ’یہ سراسر اللہ کے فضل اور کرم کی بات ہے۔ اس فصل کے اچھا ہونے میں کسی بت‘ صنم ’بھگوان یا ان جیسے کسی اور مصنوعی خدا کا ہاتھ نہیں ہے۔ یہ ہرگز نہ سوچا جائے کہ فصل کے لئے بارش ضروری ہے تو وقت پہ بارش کے لئے بھگوان اندر یا وجر پانی کو چڑھاوا چڑھانا ہو گا‘ یا اچھی فصل کے لئے کسی ہولیکا جیسی رسم کی ضرورت ہو گی۔ یہ اللہ بزرگ و برتر کی وحدہ لا شریک ذات ہے جو کسان کی کی گئی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ سارا انتظام و انصرام اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔

یہ ساری خیر صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اسی طرح ایک کسان محنت اور جانفشانی سے فصل کے لئے زمین تیار کرے ’ہل چلائے‘ وتر کرے ’بیج ڈالے‘ بیج کی راکھی کرے ’اضافی جڑی بوٹیوں کی کانٹی چھانٹی کرے‘ پانی کا انتظام کرے ’لیکن عین فصل پکنے سے قبل بادل پھٹ جائیں‘ طوفان باد و باراں آ جائے ’سیلاب آ جائے یا فصل کو تباہ کرنے کا باعث بننے والی کوئی اور آفت آ جائے تو اس میں بھی کسی بت‘ صنم ’بھگوان یا ان جیسے کسی اور مصنوعی خدا کا ہاتھ نہیں ہے۔ یہ بھی اسی بزرگ و برتر اور وحدہ لا شریک خدا ہی کی طرف سے ہے۔

ایمان مفصل اور ایمان مجمل میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ سب خیر اور سب شر اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس میں ان سب کرداروں کی نفی کی گئی ہے جو اسلام سے قبل معاشرے میں موجود تھے اور ان سے مختلف الف لیلوی داستانیں ’جھوٹی سچی حکایتیں‘ من گھڑت روایتیں اور جزا و سزا کے غلط مفروضے منسوب تھے۔

اس ساری گفتگو کے بعد دوسری طرف سے جواب ملا کہ ’آپ کی یہ بات منطقی محسوس ہوتی اور دل کو لگتی ہے‘ ۔ تو یوں لگا کہ گتھی کا سرا اب ہاتھ آن لگا ہے اب باقی گرہیں جناب من خود ہی کھول لیں گے۔

فون تو بند ہو گیا لیکن سوچ کا ایک در کھل گیا کہ ہر نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین تو کہتے ہیں لیکن جب مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر اپنے دائیں بائیں ادھر ادھر آگے پیچھے دیکھنے لگتے ہیں وہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے اس کو فوراً عرش معلیٰ پہ پہنچا دیا اور وہ بھی ساری تگ و دو دیکھتا رہتا ہے کہ بھاگو ’دوڑو‘ تھکو ’آخر کو ادھر ہی پلٹو گے تو کیا ہی اچھا ہو اگر شروع ہی سے اس کو ساتھ رکھا جائے اور ساتھ سمجھا جائے تو آنے والی ہر مشکل اپنا راستہ بدل لے گی‘ یا وہ مشکل آپ کا تعلق اس رب کے ساتھ ضرور مضبوط کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments